اردو ادب کا جنازہ۔۔۔۔۔چوہدری وقار بگا

اردو نے جنوبی ہند کی گود میں جنم لیا, مثنوی کے ابتدائی دور میں آنکھ کھولی اور غزل نے اسے پروان چڑھایا، یہی وہ زمانہ تھا جب اردو ادب سے فارسی کا غلبہ ختم ہونا شروع ہوا اور دھیرے دھیرے اردو زبان کو ترویج  ملنے لگی، ولی دکنی نے اس زبان کو نیا آہنگ دیا تو میر تقی میر نے زبان کو عروج فلک تک پہنچا دیا، غالب نے اس کی آبیاری کر کے اسے تا دم ابد تک زندہ وجاوید کر دیا، بلاشبہ اس زبان کو شاہی سرپرستی بھی حاصل رہی ،قطب شاہی دور سے لے کر شاہجہان تک سب نے ہی اس زبان پر اپنا دست شفقت رکھا شاید یہی وجہ تھی کہ  اس دور میں لوگوں کا ادب اور شاعری کی طرف رجحان زیادہ تھا اور پھر ادب کی تاریخ میں ایسے فن پاروں نے جنم لیا جو ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے، شاعری ہو یا ناول نگاری، داستان نگاری ہو یا افسانہ نگاری ہر ایک میدان میں اہل ذوق کارہائے نمایاں سرانجام دیتے چلے گئے۔برصغیر میں انگریز تجارت کی غرض سے داخل ہوئے اور پھر زمانہ بدلہ،رسم و رواج بدلے بات کرنے کے انداز سے پہننے کے لباس تک بدل دیئے گے۔آپ کر کے مخاطب کرنے والوں کے  جانشیں تُو  تڑاک کر کے بولنے لگے۔شروانی اور مہذب شلوار قمیض کی جگہ انار کلی والا چست پاجامہ اور جینز نوجوانوں نے زیب تن کر لی اور فضا بدلی بدلی لگنے لگی۔ادب کی آکسیجن سے سانس لینے والے پرندے تڑپ تڑپ کر مر گئے اور ہم ماڈرن ہو گئے۔ہم کانوں آنکھوں اور دل کے بہت کچے نکلے۔ہمیں بیدار کرنے والے علامہ اقبال انگریزوں کے درمیان رہے،سفید جلد کی میموں کے ساتھ تعلیم حاصل کی ان کے ساتھ کھانا کھایا وقت گزارہ مگر نہ اپنی تہذیب بھولے اور نہ تربیت جس کا اظہار وہ اپنے ایک شعر میں یوں کرتے ہیں۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہء دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کاخاک مدینہ ونجف
ہم نے اقبال کو اپنا مانا نہ ان کے اشعار یاد کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی انکے فلسفے کو سمجھنا چاہا مگر پھر مغرب کی تہذیب دیکھی Rock اور POP میوزک سنا تو اپنی اوقات بھلا بیٹھے۔مشاعرے کی جگہ کلب جانا شروع کیا، حلقے کی جگہ شاپنگ مالز نے لے لی۔اردو زبان میں دیگر زبانوں کو اس طرح ضم کیاجارہا ہے گویا زمانہ سمیٹنے کے  درپے ہے اور چاہتا ہے کہ اردو زبان اپناوجود کھو دے۔رشتوں کی پہچان بھلا دی گئی۔کسی دور میں اردو میں اپنے رشتوں کو ظاہر کرنے کے لیے دادی،نانی،چچی،تائی،خالہ،پھوپھو،ماموں،چچا جیسے خوبصورت الفاظ کا استعمال کیاجاتا تھا جس سے صاف واضح ہوجاتا کہ مخاطب کس رشتے کی بات کررہا ہے۔گرینڈ مدر،آنٹی اور کزن نے سارے رشتوں کو اسی طرح غائب کیا ہے جس طرح انگریزوں کے ہاں ان رشتوں کی پہچان غائب ہے۔
کسی کی نذر نیاز،صدقے یا پھر کسی نیک عمل کا نتیجہ ہواکہ اردو سے محبت رکھنے والے کسی فرد نے اردو کو بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کیے۔گزشتہ کچھ عرصہ سے بالخصوص سوشل میڈیا جو موجودہ دور میں معلومات ایک دوسرے تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے پر مختلف گروپ کام کررہے ہیں دوسری طرف پاکستان میں پہلی بار اردو زبان کو دفتری زبان تسلیم کیا گیا ہے۔لیکن اس کا عملی نفاذ ممکن نہیں ہوسکا ،اسی وجہ سے یک مٹھی بھر طبقہ جن کو ادب اور اُردو زبان کو زندہ رکھنا مقصود تھا نے اردو کے نفاذ کی تحریک چلائی۔تحریک کا اگر مقصد دیکھا جائے تو بہت ہی عمدہ اور وقت کی ضرورت تھا مگر بدقسمتی سے ایک یا دو لوگوں کے دماغ سے بنی تحریک کریڈٹ اور عہدوں کی وجہ سے سر نہ اٹھا سکی،ادب اور اردو زبان سے بے بہرہ درجن بھر لوگوں نے سوشل میڈیا پر چندپوسٹس لگائیں اور پھر نام کے ساتھ اپنے عہدے لکھے اور اردو ادب کا جنازہ بغیر وضو پڑھ کر چلتے بنے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ قومی سطح کی تحریک چلے جسکا مقصد صرف نفاذِ اردو اور ادب کی طرف رحجان کو اجاگر کرنا ہو۔تحریک میں تو ہر ایک کو شامل کیا جائے مگر عہدوں پر اردو کے متحرک اور سینئر ترین ماہرین کو فائر کیا جائے جو سرکاری نظام کو چیلنج کریں،جو عدالتوں میں پیش ہوں جو ادب کی روح کو کچلنے سے بچائیں۔اب ایسے لوگوں کا انتخاب ہی ہمارے لیے مسئلہ ہے  کیونکہ  جو لوگ اردو  زبان و ادب میں مہارت رکھتے ہیں وہ سماجی طور پر تقریباً غیر متحرک ہیں انہیں اکٹھا کیا جائے اور تحریک شروع کی جائے تاکہ مختلف اداروں اور مقامات پر مشاعروں اور مقالوں کے دلچسپ مقابلے کروائے جا سکیں اور سرکاری طور پر اردو زبان کو رائج کیا جا سکے تاکہ اردو کا راج ہو اور جو آج ہمارے بچے نجی سکولوں میں انگریزی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اردو میں گنتی تک نہیں گن سکتے کہیں ایسا نہ ہو کل کو اردو میں بات بھی نہ کر سکیں اور اردو کو حقیر سمجھا جانے لگے۔

Facebook Comments

وقار احمد
صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply