سُنو لڑکی۔۔۔۔رابعہ الرباء

سُنو لڑکی
طبیب نے تمہیں خوش رہنے کی دوا دی ہے
تم ابھی بھی نا خوش ہو
نا شکری ہو تم
سنو لڑکی
اس موتیا رنگ ستونوں بنی عمارت کے
روشن دان، کھڑکیاں و در کتنے وسیع و عریض ہیں

سُنو لڑکی
کیسے ہوا چھن چھن کے رقص کرتی در آتی ہے
تم کو پھر بھی سانس نہیں آتا
تم نا شکری ہو
نا شکری ہو تم

سنو لڑکی
تمہاری الماریاں،شنگھار میز ،زیورات
یہ بالے ،یہ کنگن ، یہ لالی، یہ جوڑے
تمہیں دیکھ کر رشک وحسد آنکھوں میں ناچتے ہیں
مگر تمہیں …
بھاتے نہیں یہ سب

سُنو لڑکی
تاریخ کہانیاں سناتی ہے
ہم سے کنگناتی ہے
شہزادیاں تو سونے کی زنجیروں میں خوش رہ لیا کرتی ہیں

سُنو لڑکی
تاریخ کی بات سنو اور سمجھو
طبیب نے تمہیں خوش رہنے کی دوا دی ہے
وہ لے لیا کرو
تم کتنی نا شکری ہو

سُنو لڑکی
اس شہر بے مثال میں غموں کے انبار ہیں
اس میں کبھی خود کو رکھ کر دیکھو
کوئی  طبیب تک جا نہیں سکتا
کوئی  طبیب کی لکھی دوا لا نہیں سکتا
اور تمہیں طبیب نے خوش رہنے کی دوا دی ہے
تم اس خزانے کو اپنے تکیے تلے رکھے بھی نا خوش ہو
تو
یہ تمہارا قصور ہے

سنو لڑکی
طبیب نے تمہیں خوش رہنے کی دوا دی ہے
اب دکھی نہیں ہو نا

Advertisements
julia rana solicitors

سنو لڑکی
اب اور نہیں روناسنو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply