پاپی بچھوا۔۔۔علی اختر

میرے دن کی شروعات “بخت علی” کی چائے سے ہوتی ہے ۔ میں صبح صبح بوجھل قدموں سے اپنے آفس کی سیڑھیاں چڑھتا ہوں ، آفس کھولتا ہوں،کرسی پر نیم دراز ہو جاتا ہوں ۔ نیم وا آنکھوں سے بخت علی کو آفس میں حرکت کرتے پاتا ہوں ۔ پھر وہ مسکراتے ہوئے چائے کی پیالی ٹیبل پررکھتا ہے ۔ مجھے ہوش آجاتا ہے ۔ چائے میں چینی نہیں ہوتی اور نہ ہی ان پاپوں میں جن کا پیکٹ میری دراز میں ہوتا ہے لیکن یقین جانیں وہ دو پاپے اور پھیکی چائے اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کے میری ساڑھے چھ فٹ لمبی اور کوئی  کم و بیش سو کلو پر مشتمل جسمانی مشینری کو لنچ ٹائم تک حرکت دینے کے لیے  کافی ہو جاتے ہیں ۔ پر آج میں اس کرشماتی چائے سے محروم رہا ۔ “بخت علی” ، کمبخت بغیر اطلاع کے چھٹی پر تھا ۔ ٹیبل پر چائے آگئی  لیکن پیالی کسی اور نے رکھی ۔ میں نے بخت علی کی  بابت دریافت کیا تو معلوم ہوا شام بچھو نے ڈس لیا ہے ۔ پوری رات روتے روتے گزری ۔ صبح شہر کے ہسپتال لیجایا گیا تو انجیکشن سے آرام ملا ۔ اب سو رہا ہے اور کل سے ڈیوٹی پر آئے گا ۔

سال کے دوران یہ کوئی  چوتھی پانچویں بار ہے کہ  بخت علی کو بچھو نے ڈسا ہے ۔ ۔۔۔

قصہ کچھ یوں ہے کے اسکے گھر جوتے کا ایک جوڑا رکھا ہے ۔ پرانا سا، بخت علی جب بھی اسے پہنتا ہے اس میں بچھو پہلے ہی منتظر ہوتا ہے ۔۔۔ ہر بار ۔ ۔ ۔ لگاتار۔ بار بار ۔ ویسے دیکھا جائے تو بچھو کا اس میں کوئی  قصور نہیں ۔ اس نے تو پہلی بار ہی زہریلا ڈنک مار کر اپنی فطرت سے آگاہی فراہم کردی تھی ۔ اب اگر بخت علی ہی احتیاط نہ کرے تو اس میں بچھو کا کیا قصور۔

ویسے اس بوسیدہ جوتے اور اسکے مکین زہریلے بچھو سے بخت علی کو نجانے کون سا دلی تعلق ہے ۔ گھر والوں نے کئی  بار اسے نیا جوتا خرید کر دینے کی پیشکش کی ہے لیکن وہ اسے چھوڑنے پر تیار ہی نہیں ہوتا ۔ جوتا چھپا دیا جائے تو اسے ڈھونڈ کر نکال لیتا ہے ۔ کئی  بار گھر والوں نے اس منحوس جوتے کو گھر سے باہر پھینکنے کی بھی کوشش کی لیکن بخت علی اسے پھر گھر لے آیا اور بخوشی خود کو ڈسوا لیا ۔

بخت علی کا افسر ہونے کے ناطے میں نے بھی کئی  بار اسکے بھلے کے لیے  اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔ اسے کہا کہ  ڈسوانے کا ہی شوق ہے تو بھائی  شہد کی مکھی ، مچھر ، پسو وغیرہ ٹرائی  کرو لیکن اس نے ماننے سے صاف انکار کر دیا ۔ اس کا کہنا ہے کہ  اس جوتے کو ہر بار وہ پورے اطمینان سے پہنتا ہے ۔ کئی  بار جھاڑ لیتا ہے ، اس تسلی کے بعد کہ  بچھو موجود نہیں، پیر ڈالتا ہے لیکن ابھی چند قدم ہی نہیں چل پاتا کہ  معلوم چلتا ہے ، بچھو کام دکھا گیا ہے ۔ پھر وہ عہد کرتا ہے کہ  آئندہ یہ جوتا نہیں پہنے گا لیکن کچھ ہی دن بعد ایک انجانی قوت اسے جوتا پھر  سے پہنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ ویسےبھی یہ بخت علی اور بچھو کا نجی معاملہ ہے تو زیادہ دخل اندازی مناسب نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ : یہ ایک غیر سیاسی اور محض جنرل نالج پر مشتمل تحریر ہے ۔ اب اگر اسے کوئی  وزیراعظم صاحب کے حالیہ دورہ امریکہ سے لنک کرتا ہے تو مصنف پر کوئی  وبال نہیں ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply