بہت گھٹن ہے کوئی صورتِ بیاں نکلے۔۔۔خرم مشتاق

ساون بھادوں کا موسم ہے۔ یوں تو چمن میں بہار مختصر اور خزاں رسیدہ ہی آتی ہے لیکن اب کہ تو بہار آئی ہی نہیں ۔یوں گمان ہوا کہ پچھلے کئی ماہ سے ساون بھادوں ہی کا موسم طویل ہوگیا ہے۔ ساون حبس لیکر آتا ہے۔ ایسی حبس اور ایسی گھٹن کہ سانس لینا محال۔ حبس سے گھبرا کہ جو باہر نکلنے کی ٹھان لیتے ہیں انہیں “گرج” “چمک” کا سامنا ہوتا ہے۔ جو اس کی پرواہ نہ کرے بے کلاہ ہوجاتا ہے اور دستار گلے میں آجاتی ہے۔ بادل اچانک “غیب” سے نمودار ہوتے ہیں تن پہ پہنا لباس اور سر کی پگڑی ، دوپٹہ سب بھیگ جاتا ہے۔ عزت و سیادت تو جاتی ہی ہے بعض اوقات حادثات بھی آلیتے ہیں۔ مسلسل حبس و بادو باراں معمولات زندگی کو “معطل” کردیتا۔ لوگوں کی روزی روٹی و آمدن تک مسدود ہو جاتی ہے ۔لیکن درباری شعراء کو یہ موسم بہت لبھاتا ہے۔ وہ اسے رومان پرور قرار دیتے ہیں اور اپنے فن کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ عشق و محبت کے استعاروں سے ٹھنڈے جھونکے ، رومانیت کی تشبیہات سے خوشگواریت ، ردیف و قافیوں سے توازن اور فنی ترکیبات اور اصنعات سے جوازیت فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صنعت حسن تعلیل کا بے دریغ استعمال کرنے سے بھی حبس جاتی نہیں۔

یہ موسم خواص کا موسم ہے۔ عوام کے پاس اس موسم سے منسوب تلخ یادوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ٹپکتی چھتیں، اور ٹپکتی چھت کے نیچے پانی جمع کرنے کیلئے گھر کے بچے کچھے برتن ، بند پرنالے، بھری گلیاں،ابلتے گٹر اور گھر میں داخل ہوتا پانی، وبائی امراض اور مچھروں کی بہتات ۔

ایسے میں رومانوی گیت اور اقبال بلند کرتی شاعری کانوں کو نہیں بھاتی۔ یہ تو مرثیوں کا موسم ہوتا ہے۔
عشق کی بات چلی تو عشق پیچاں کی طرف دھیان چلا گیا۔ ہم بھی ایسی ہی رومانیت اور ایسے ہی عشق میں مبتلا ہیں۔ ہماری رومانیت امربیل اور برگ محسن (host plant) جیسی ہے۔ مجھے اس کا ترجمہ میزبان موزوں نہیں لگا کیونکہ میزبان اور مہمان کا تعلق باہمی رضامندی پر استوار ہوتا ہے۔ یکطرفہ و مسلط شدہ محبت اور باہمی رضامندی میں بہرحال فرق ہوتا ہے۔ برگ محسن مشقت اور توانائی سے خوراک اکٹھی کرتا ہے اور عین رگ جاں پر پیوست امر بیل ساری خوارک اور توانائی چوس لیتی ہے۔ امر بیل پھولتی جاتی ہے اور پھیلتی رہتی ہے۔ حتی کہ برگ محسن کا اپنا وجود اس میں چھپ جاتا ہے۔ کچھ مدت بعد یوں گمان گزرتا ہے جیسے برگ محسن کا وجود و مقصد ہی امر بیل کو پالنا ہے۔ امر بیل پر جب پھول اگتے ہیں تو برگ محسن پھولے نہیں سماتا، اس پہ نازاں ہوتا ہے کیونکہ اس کے اصلی وجود ،جو محاصرے میں آچکا ہے اور جس کی شاخیں اور کونپلیں تو اپنا جوبن پا ہی نہیں سکتیں ، میں فخر کے قابل کچھ بچا ہی نہیں ہوتا۔ اپنے وجود سے بے خبر ، اپنی کجیوں سے ناواقف وہ اپنے وجود کا حصہ شاخوں ، ٹہنیوں اور پتوں سے غفلت برتتا ساری ریاضت، ساری مشقت اسی آکاس بیل/امر بیل کی بڑھوتری پر صرف کرنے لگتا ہے۔ اس کی ساری رومانیت اسی امر بیل سے منسوب ہو جاتی ہے۔
اسی طرح امر بیل بھی خود کو اصل وجود ، برگ محسن, کی محافظ و مالک سمجھنا شروع کردیتی ہے۔ کیونکہ وہ اسے ممکنہ طور پر جانوروں کی خوراک بننے سے بچا رہی ہے۔ امر بیل یہ سمجھنا شروع کردیتی ہے کہ برگ محسن کا وجود اور اس کی بقاء، امر بیل کی مرہون منت ہے۔ امر بیل کا پھیلاؤ اور خوراک کا بڑھتا استعمال برگ محسن کو کمزور کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس کی خوراک ، اس کے حصے کی ہوا اور اس کے حصے کا پانی کم پڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ برگ محسن مشقت میں اضافہ کرتا ہے تاکہ خوراک کو پورا کیا جاسکے مگر چونکہ اس کا وجود امر بیل کے گھیراو کے باعث پھل پھول ہی نہیں پاتا ، خوراک کی ترسیل تو پہلے ہی عدم توازن کا شکار ہوتی ہے اس پر مستزاد یہ کہ امر بیل کے برگ محسن تک پہنچنے والی “روشنی” کو بھی مسدود کردیتی ہے۔ جو روشنی اس تک پہنچتی ہے وہ بھی چھن کر۔ ایسے میں برگ محسن بیکار شاخوں اور معذور پتوں کو ہی پیدا کرپاتا ہے۔ کارامد شاخیں ، ٹہنیاں اور پتے بھی اسی باعث یا تو ” ٹوٹ” کر الگ ہو جاتے ہیں یا جھڑ جاتے اور ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ ایسے برگ محسن چونکہ کارآمد وجود نہیں رہتے تو اردگرد کے ماحول میں بھی قابل توجہ نہیں رہتے بلکہ دوسرے درخت اس سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں مبادا کہ کہیں ان کی بھی حالت دگرگوں نہ ہوجائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ساون بھادوں کی طوالت کے بعد خزاں آتی ہے۔ جس میں سیلاب اور آندھیاں آتی ہیں۔ ایسے موسموں میں برگ محسن اور امر بیل کے رشتے اکثر انجام کو پہنچتے ہیں۔ لاغر و کمزور برگ محسن یا تو خود ہی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتا اور خود بھی سوکھ جاتا ہے اور ٹوٹ جاتا ہے یا امربیل کو اندھیری یا سیلاب میں رگ جاں سے الگ کردیتا ہے۔
امر بیل یہ بات بھول جاتی ہے کہ طفیلئے “اکیلے” زندہ نہیں رہ سکتے اور طفیلیوں کی اپنی “جڑیں ” نہیں ہوتیں جو زمین پر ان کا وجود قائم رکھ سکیں۔
حبس بہت ہوگئی ہے لوگ اگر دستار و لباس سے لاپرواہ ہوکر باہر نکل آئے تو گرج چمک اور بارش کی پرواہ نہیں کریں گے۔ اتنی حبس کے بعد سیلاب اور طوفان آتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply