• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عمران خان کی ٹرمپ سے ملاقات حاصلات، امکانات اور خدشات۔۔۔ محمود شفیع بھٹی

عمران خان کی ٹرمپ سے ملاقات حاصلات، امکانات اور خدشات۔۔۔ محمود شفیع بھٹی

جیسا کہ میں اپنی گزشتہ تحریرمیں بیان کر چکا ہوں کہ عمران خان دورۂ امریکہ تیسرے درجے کے  “آفیشل ورکنگ وزٹ” پر مشتمل تھا۔ اس دورے میں سربراہ حکومت کو امریکی صدر کی جانب سے دعوت دی جاتی ہے۔ لیکن اس دورے کی دعوت دلوانے میں سب سے اہم کردار سعودی ولی  عہد محمد بن سلمان کا تھا۔

عمران خان کے دورے کا آغاز واشنگٹن کے اسٹیڈیم کیپیٹل ون ایرینا میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب سے ہوا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق حاضرین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اپوزیشن کے بقول وہاں پر تحریک انصاف کے تارکین وطن ورکرز تھے اور ساتھ ہی عمران کے رویے پر لعن طعن شروع کردی۔ اگر اوورسیز سارے تحریک انصاف کے ورکر تھے تو عمران کا خطاب بھی بطور چئیرمین تحریک انصاف تھا۔

عمران خان کی ٹرمپ سے ملاقات ، پریس سے بات چیت اور محتاط رویہ توقعات سے بڑھ کر مثالی رہا۔ ٹرمپ نے جس طرح پاکستانی قوم کی تعریف، عمران کو مضبوط شخص، اور انکی کیمپیئن چلانے جیسے لالی پوپ دے کر خوب چاپلوسی کی۔ امریکہ شروع سے ہی بے وفا صنم رہا۔ ماضی میں بھی کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے پاکستان  کی سیٹو اور سینٹو میں شمولیت یقینی بنائی گئی۔ بھٹو کی پھانسی اور پھر نائن الیون کے بعد “ڈومور ” کے مطالبہ کو سختی سے پیش کرنا وغیرہ وغیرہ۔

عمران کا دورۂ امریکہ دراصل افغان امن پالیسی کے تعین کے لیے تھا۔ امریکہ اس وقت بری طرح پھنس چکا ہے۔ اور اسکی معیشت اب مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔ کیلگزٹ موومنٹ، ٹرمپ کی امریکہ پالیسی بھی اس کے عوامل ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ میں دس دن میں سب تباہ کر سکتا ہوں، لیکن میں لاکھوں افغانوں کی موت برداشت نہیں کرسکتا۔عمران خان سے افغان امن عمل اور طالبان سے مذاکرات کے لیے اپیل کرنا دراصل امریکہ کی اس جنگ میں اپنی شکست کو تسلیم کرنا ہے۔

ٹرمپ نے مزید یہ بھی کہا کہ مجھے مودی نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لیے کہا اور میں یہ کرنے کو تیار ہوں، جس کے جواب میں عمران خان نے انکا خیر مقدم بھی کیا۔ بھارتی دفتر خارجہ نے اسکی تردید کرتے ہوۓ اسکو جھوٹ قرار دیا جبکہ وائٹ ہاؤس کی پریس ریلیز کے مطابق ٹرمپ ثالثی کے لیے تیار ہیں۔ اس ساری صورتحال میں ٹرمپ نے ایک تیر سے دوشکار کیے ہیں۔ بھارت سے تجارتی سرد مہری اور پاکستان سے اعتماد کو بڑھایا۔

امریکی انسٹیٹیوٹ اور پیس میں عمران خان کا خطاب انتہائی اہم تھا۔ جس میں انہوں نے امداد کو زہر قاتل قرار دیا اور پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا اعادہ کیا۔ اور کہا کہ دنیا سیلف ریسپیکٹ اور عظمت کی قدر کرتی ہے بھکاریوں کوکون پہچانتا ہے۔

مصنف:محمود شفیع بھٹی

فوکس نیوز کے چبھتے ہوۓ سوالوں کا بہترین جواب اور شکیل آفریدی کے معاملے میں  عافیہ صدیقی کی رہائی کے ساتھ اس امکان کو مشروط کردیا۔امدادا کی بجاۓ تجارت کی بات کی۔ امریکیوں پر واضح کردیا کہ اب ہم صرف تجارت کریں گے۔

امریکی تھنک ٹینکس سے گفتگو، وزیرستان کی تاریخ، امریکی جنگی موقف کی مخالفت اور گلالئی اسمعیل سے متعلق سوال پر پی ٹی ایم کے اینٹی اسٹیٹ ایجنڈے کو تفصیل سے بیان کیا۔ میڈیا کا خود کو بینیفشری کہااور مکمل آزادی کا یقین دلایا۔

اس وقت امریکہ شدید دباؤ کا شکار ہے۔ چین کا بڑھتا ہوا اثر، روس سے پاکستان کی بڑھتی ہو قربت اور سی پیک کی تکمیل ایسے عوامل ہیں جو امریکہ کو مجبور کررہے ہیں کہ وہ واپس رجوع کرے۔ پاکستان اس وقت عالمی گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ مستقبل میں گوادر کے ذریعے مشرق وسطی تک اپنی اجارہ داری قائم کرے گا، جس سے امریکی مفادات کو ضرب کاری لگے گی۔ اس لیے بھی امریکہ یہ سب کچھ کررہا ہے۔ سی پیک کا متبادل لانے کا آپشن بھی زیر غور ہوسکتا ہے۔

یہ ملاقات صرف افغان امن عمل کی حدتک درست باقی صرف دکھاوا ہے۔کشمیر پر ثالثی کی بات ایسے ہی ہے، جیسے عمران نے یمن تنازعے پر ثالثی کی بات کی تھی۔ بھارت میں صف ماتم بچھی  ہے، لیکن یہ سفارتی باؤنسر نادانستہ طور کامیاب رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کو چاہیے کہ سی پیک، روس سے تعلقات اور ایران خدشات کو دور کرے۔ امن اس وقت ہی قائم ہو سکتا ہے جب   تعلقات بہتر ہوں گے۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply