• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • شہزادہ زرنونی، قطری شہزادہ اور سلور رولز رائس۔۔۔۔مستنصر حسین تارڑ/دوسرا حصّہ

شہزادہ زرنونی، قطری شہزادہ اور سلور رولز رائس۔۔۔۔مستنصر حسین تارڑ/دوسرا حصّہ

پہلا حصّہ : ریت میں اُگا ہوا شہر۔۔دوبئی۔۔۔۔۔مستنصر حسین تارڑ

ریت میں اَٹا ہوا شہر دوبئی اور میں اجنبی نہ تھے۔ ہماری بہت سی ملاقاتیں ٹھہر چکی تھیں۔ کبھی یورپ سے واپسی پر عارضی قیام اور کبھی اپنے شو ’’شادی آن لائن‘‘ کی ریکارڈنگ کے دنوں میں اور کبھی کسی تقریب میں شرکت کے سلسلے میں، پہلی بار دوبئی سے ملاقات ہوئی تو میں ظاہر ہے اس عجوبہ شہر کی جدید حیرت انگیزی سے متاثر ہوا اور وہ سب کچھ کیا جو دوبئی کی سیاحت کا محکمہ کسی غیر ملکی سیاح سے توقع کرتا ہے کہ وہ کرے۔ شاپنگ مالز کی دشت نوردی کی۔ شاپنگ جی بھر کے کی۔ بہترین ریستورانوں میں گئے۔ سمندر میں سیر کی۔ بحیرہ بیچ کی ریت چھانی وغیرہ وغیرہ لیکن دوبئی جن غیر ملکی ’’اشیائ‘‘ کے لیے اور مقامات آہ و فغاں کے لیے بدنام بہت تھا ان کے دیدار کے لیے آنکھیں ترس گئیں۔ بھئی کہاں ہیں کہاں ہیں وہ نٹ کھٹ، شرمیلی چھیل چھبیلیاں، سنٹرل ایشیا اور روسی ریاستوں کی کومل ناریاں جو آپ کی دل آزاریاں نہیں کرتیں۔ مان جاتی ہیں۔ ہر سو چھم چھم کرتی پھرتی ہیں۔ ہمیں تو وہ کہیں دکھائی نہ دیں۔ معلوم ہوا کہ وہ کوئی اور دوبئی ہے جہاں آپ جیسے شرفا کی رسائی ممکن نہیں۔ اپنے شریف ہونے پر بہت افسوس ہوا۔ ایک روز ریکارڈنگ سے فارغ ہو کر میں نے اس روکھی پھیکی زندگی سے تنگ آ کر پرنس زرنونی کو فون کر دیا کہ برادر ہم آپ کی سلطنت میں قدم رنجہ فرما چکے ہیں۔ اپنی عرب میزبانی کا مظاہرہ کرنے کے لیے یہ نادر موقع ہاتھ سے جانے نہ دیجیے۔ پرنس زرنونی عام عرب شہزادوں سے ذرا الگ مزاج کے ہیں۔ ان کی والدہ محترمہ پاکستانی پٹھان ہیں اس لیے زرنونی بڑے فخر سے اپنے آپ کو پاکستانی قرار دیتے ہیں۔ ان کے والد کو دیگر عرب حضرات کی مانند شکار کا جنون ہے۔ ان دنوں وہ کسی سنٹرل ایشیئن ریاست میں اپنے عقابوں سمیت شکار کے لیے منتقل ہو چکے تھے۔ ظاہر ہے ان کا تعلق شاہی خاندان سے تھا۔ ورنہ زرنونی شہزادے کہاں ہوتے۔ پاکستان میں بھی ان کے کچھ شاہانہ گھر موجود ہیں اور زرنونی نے اپنی تعلیم کراچی میں مکمل کی تھی۔ پرنس زرنونی کو ایک عجیب شوق لاحق ہے۔ وہ دنیا بھر کی کاروں کے مختصر ماڈل یعنی ڈنکیاں جمع کرتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے کاروں کے کارخانہ ان کے لیے خصوصی طور پر یہ مختصر ماڈل مینوفیکچر کرتے ہیں۔ گینس بک آف ورلڈ ریکارڈز میں ان کا نام درج ہے کہ ان کے پاس غالباً دنیا بھر میں کاروں کے مختصر ماڈلوں کی سب سے بڑی اور نایاب کولیکشن ہے۔ میں زرنونی کا خصوصی تذکرہ اس لیے کر رہا ہوں تا کہ عوام الناس آگاہ ہو جائیں کہ اگر دیگر خواتین اور حضرات کے قطری شہزادے دوست ہیں تو ہم بھی کچھ کم نہیں۔ ہمارے بھی دوبئی کے شہزادے دوست ہوا کرتے ہیں۔ بس ایک فرق ہے کہ پرنس زرنونی کو کبھی خیال نہیں آیا کہ وہ یونہی سو پچاس ملین ڈالر تحفے کے طور پر مجھے خفیہ ذریعے سے عطا کر دیں۔ کبھی خیال نہیں آیا کہ یہ جو تارڑ ہے۔ چلو دوست نہ ہوں واقف تو ہے، کالم اور کتابیں لکھ لکھ کر گزارہ کرتا ہے تو اس کی زندگی سنوار دیں۔ اگر اسے سو پچاس ملین ڈالر مل جائیں تو یہ زیادہ سے زیادہ کیا کرے گا۔ چند قیمتی قلم خریدے گا۔ لکھنے کے لیے سونے کے تاروں سے مزین خصوصی کاغذ کے چند دستے حاصل کرے گا اور بقیہ رقم سے پیرس لنڈن اور نیویارک وغیرہ میں فلیٹ وغیرہ خرید لے گا اور کیا کرے گا۔ اس سے کون پوچھے گا کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا۔ منی ٹریل کا مطالبہ بھی نہ ہوگا۔ پر پرنس زرنونی کو کبھی یہ خیال نہ آیا۔ بس یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ ان کی قسمت میں قطری شہزادہ آ گیا اور میرے بخت میں دوبئی کا شہزادہ… اسی لیے تو میں جیل سے باہر ہوں۔ پرنس زرنونی میری دوبئی آمد پر ازحد پرمسرت ہوئے اور کہنے لگے۔ میرے غریب خانے پر تشریف لا کر میری عزت افزائی کیجیے اور کھانا میرے ہمراہ تناول کیجیے۔ میں نے ذرا شرمندہ ہو کر عرض کیا کہ برادر دراصل میں تنہا نہیں ہوں، میرے شو کے پروڈیوسر عبدالرئوف کے علاوہ چینل کے کچھ دیگر اراکین بھی ہیں بلکہ میری ساتھی میزبان خاتون تو ابھی سے تیار ہو کر بیٹھ گئی ہے۔ اس پر اُدھر سے حکم ہوا کہ یہ سب بھی مدعو کیے جاتے ہیں۔ عبدالرئوف ان دنوں ایک چینل کا سب سے پسندیدہ شو ہوسٹ کرتے تھے بلکہ سیاسی شوز کی بنیاد انہوں نے رکھی۔ جانے کیوں اب گوشہ نشین ہو گئے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہوٹل کے ہندوستانی منیجر ہانپتے کانپتے آئے کہ صاحب آ پکے لیے شہزادہ صاحب نے گاڑی بھجوائی ہے۔ ہم ہوٹل سے باہر آئے تو وہاں گلی میں سفید رنگ کی ایک لمبی سی شے کھڑی تھی۔ لگتا تھا کہ تین چار کاروں کو آپس میں جوڑ کر اس شے کو تخلیق کیا گیا ہے۔ ہمیں کیا پتہ تھا اسے لیموزین کہا جاتا ہے۔ اس دوران پاکستانی ڈرائیور نے مجھے پہچان لیا اور بغلگیر ہو کر کہنے لگا ’’صاحب میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں‘‘ میں نے اپنے آپ کو بمشکل اس کی بغلگیری سے الگ کیا کہ وہ پٹھان تھا اور کہا کہ بھائی جان آپ کے لائق خدمت یہ ہے کہ اگر اس شے میں بیٹھا جا سکتا ہے تو براہِ کرم دروازے کی نشاندہی کر دیجیے۔ دکھائی نہیں دے رہا۔ بہر حال خان صاحب نے ہم سب کو مختلف دروازے کھول کھول کر اس شے میں بٹھایا اور رواں ہو گئے۔ ہم پہلے تو سمٹے سمٹائے ڈرے ڈرے بیٹھے رہے اور پھر اعتماد بحال ہونے پر ٹانگیں پھیلا کر دراز ہو گئے۔ سوائے ساتھی میزبان خاتون کے۔ کچھ دیر بعد ہم اپنی عارضی امارت کے خمار میں آئے اور دوبئی کی شاہراہوں پر چلنے والی دیگر کاروں کو چشم حقارت سے دیکھنے لگے۔ جی چاہتا تھا کہ صرف ’’ہماری‘‘ لیموزین ہی تنہا ا ن سڑکوں پر گھومتی پھرے۔ یعنی گلیاں ہو جان سُونجیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔ شہزادہ صاحب ہماری آمدکے شدت سے منتظر تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے ہمیں اپنی ڈِنکی کولیکشن دکھائی(اسے ڈَنکی کولیکشن نہ پڑھئے گا) اور ہم واقعی ان ہزاروں مختصر ماڈلوں کی ترتیب سے متاثر ہوئے۔ وہاں ہمارے لیے ایک اور بڑی حیرت منتظر تھی۔ صحن میں پرنس زرنونی کی مہنگی اور تاریخی کاروں کا ایک عجائب گھر سجا تھا۔ ان میں سرخ رنگ کی اطالوی سپورٹس کار لمبر گینی بھی شامل تھی جس کے دونوں دروازے ایک پرندے کے پروں کی مانند کھل جاتے ہیں۔ انہی دنوں جیمز بانڈ سیریز کی تازہ فلم میں اس ماڈل کی لمبر گینی کے دونوں دروازے بلند ہو جاتے ہیں۔ ایک میں سے جیمز بانڈ اور دوسرے میں سے ایک ہوش ربا حسینہ طلوع ہوتے ہیں اور پھر وہی ہوتا ہے جو جیمز بانڈ کی فلموں میں ہوا کرتا ہے۔ سب سے تاریخی کار وہ سلور رولز رائس تھی جو کچھ عرصے ملکہ الزبتھ کے زیر استعمال رہی تھی۔ ملکہ کے زوال کی بُو ابھی تک موجود تھی۔ پرنس نے پیشکش کی کہ ان کا ڈرائیور اگر میں پسند کروں تو کسی بھی کار میں مجھے سیر کروا سکتا ہے۔ میں نے معذرت کر دی کہ ایویں چوڑ ہو جانے سے فائدہ…بعد میں اپنی دیرینہ ہونڈا میں بیٹھنے کو کس کا جی چاہے گا۔ ڈرائنگ روم میں متعدد بڑے بڑے مرتبان ہمارے سامنے رکھے گئے جن میں چاکلیٹ وغیرہ ڈھیر تھے۔ ساتھی میزبان خاتون کچر کچر چاکلیٹ کھا رہی تھی۔ تارڑ صاحب ڈیزائز چاکلیٹ ہیں۔ بہت ہی مہنگے۔ سوونیئر کے طور پر اپنے بیگ میں کچھ رکھ لوں۔ میں نے کہاں ہاں کچھ ہرج نہیں۔ رات کو مل کر کھائیں گے۔ پرنس کے بنگالی باورچی نے ہمارے لیے بہت اہتمام کر رکھا تھا اور زرنونی خود تو ہاتھ کھینچ کر کھاتے تھے لیکن ہمیں زبردستی کھلاتے جاتے تھے۔ بعد ازاں بھی ایک دو ملاقاتیں ہوئیں۔ اب بھی عید کے موقع پر ان کی جانب سے مبارکباد کا سندیسہ باقاعدگی سے آتا ہے۔ ہوٹل کیپ تھورن میں بیکار پڑے خیال آیا کہ کیوں نہ پرنس زرنونی سے رابطہ کیا جائے پھر سوچا ان شہزادوں کا کیا پتہ بے رُخی اختیار کر لیں۔ قطری شہزادے نے بھی تو یہی کیا تھا؛ چنانچہ باہر ریت میں اگا شہر تھا اور ہوٹل کے اندر ہم تھے دوستو…

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ 92 نیوز روزنامہ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply