آج سے پندرہ دن پہلے اپنے واٹس آپ فرینڈ کو بتادیا تھا خان کے دورے کو انڈیا کی آشیر باد حاصل ہے
دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد پندرہ دن پہلے دی گئی اس خبر کی مکمل تصدیق کردی گئی
واشنگٹن میں موجود سنئیر پاکستانی سفارت کاروں نے انکشاف کیا ہے پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور امریکئ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات میں امریکہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات پہلی ترجیع ہیں اور اس بار وہ غلطیاں نہیں دھرائ جائیں گی جو ضیالحق اور مشرف کے دور میں کی گئیں یہ سفارت کار کہتے ہیں امریکہ کو افغانستان سے باعزت اور اپنی شرائط کے ساتھ نکلنے کے لئیے پاکستان کی مدد درکار ہے جو پاکستان فراہم کرنے کو تیار ہے مگر اس کے بدلے امریکہ کو بھی پاکستان کے مسائل کم کرنے کے لئیے کچھ کرنا ہوگا اور پاکستان چاہتا ہے امریکہ پاکستان کو کاروباری پارٹنر کا درجہ دے اور ایسا نظام وضع کرے کہ دونوں طرف حکومتوں کی تبدیلی سے تجارتی پالیسی تبدیل نہ اور دونوں ملک آپس میں میرٹ پر ایک دوسرے سے کاروبار کرتے رہیں اس کے لئیے ضروری ہے تجارتی پالیسی کو انسٹیٹوشنلائیزڈ بنایا جائے ، پاکستانی سفارت کاروں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا امریکہ سے پاکستان کا واجب الدا کولیشن فنڈ جس پر چھ سال پہلے سو میں سے ستر لینے پر حامی بھر لی گئی تھی مگر وہ ستر فیصد بھی روک لیا گیا تھا اب سو فیصد لینے پر بات ہوگی اور امریکہ کی جانب سے ایسے اشارے ملے ہیں کہ دونوں سر براہان کی ملاقات میں پاکستان کا یہ جائز مطالبہ تسلیم کرلیا جائے گا ، پاکستانی سفارت کاروں کا دعوی ہے اس ملاقات کے نتیجے میں امریکہ اپنے سرمایہ کار سیکٹر کے ذریعے غیر سرکاری طور پر سی پیک کا حصہ بن جائے گا اور امریکئ سرمایہ کار سی پیک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کریں گے ، یہ سفارت کار کہتے ہیں امریکہ نہیں چاہتا چین پاکستان میں اتنی بڑی سرمایہ کاری تن تنہا کرکے خطے میں اپنے مفادات کو آگے بڑھا کر امریکی مفادات کو نقصان پہچانے کی کوشش کرے اورپاکستان بھی امریکئ تحفظات کو دور کرنے کے لئیے سی پیک میں امریکہ شراکت کا خواھش مند ہے، تاہم ایسا نظر نہیں آتا کہ امریکہ ریاستی سطح پر سی پیک کا حصہ بنے گا ، واشنگٹن میں تعینات یہ پاکستانی سفارت کار کہتے ہیں ، جبکہ کیری لوگر بل کے باعث ملنے والی امداد معطل کردی گئی تھی وہ بھی جلد بحال ہونے کا امکان ہے ، پاکستان میں امریکہ کی سرمایہ کاری میں میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکئ وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ٹریول ایڈوائزی ہے جس کے مطابق سفر کرنے کے لئیے ایک خطرناک ملک ہے تاہمُ دونوں ملکوں کے سربراہان کی ملاقات میں امریکہ کو اس امر پر رضا مند کرلیا جائے گا کہ فاٹا اور بلوچستان کو چھوڑ کر لاہور کراچی فیصل آباد پشاور سیالکوٹ جیسے سیٹل اور پرامن شہروں کو امریکہ ٹریول ایڈوائزری میں پہلے تیسرے درجے کے خطرناک شہروں کی فہرست سے نکال کر دوسرے درجے میں شامل کیا جائے اور بتدریج پہلا درجہ دیکر ان مزکورہ شہروں کو ٹریول ایڈوائزری کی فہرست سے نکال دیا جائے ، پاکستانی سفارت کاروں نے بتایا ہے ، پاکستان افغانستان میں اپنے فطری کردار کے مطالبے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا اور امریکہ کو بھی زمینی سچائیوں کی روشنی میں صورت حال کے تقاضوں کو ادراک ہوچکا ہے ، سفارت کاروں کا دعوی ہے عمران خان کو دورہ امریکہ کی دعوت سے قبل امریکہ نے بھارت کواعتماد میں لیا ہے اور اس ملاقات کو بھارت کی آشیر باد بھی حاصل ہے ، ان سفارت کاروں کا کہنا ہے بھارت اب اس امریکہ کااسٹریجک پارٹنر ہے جو پلوامہ کے بحران سے قبل پاک بھارت کے درمیان ہر بحران کے موقع پر خاموش ثالثی کے ذریعے بحران ختم کرنے کا باعث بنتا تھا مگر پلوامہ بحران کے موقع پر امریکئ بیانات سے ظاہر ہوتا تھا جیسے وہ بھارتی وزارت خارجہ نے ڈرا فٹ کئیے ہیں اور امریکہ نے ان بیانات میں معمولی رد و بدل کی ہے ،واشنگٹن میں مقیم پاکستانی سفارت کاروں نے الگ الگ گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے عمران خان صدر ٹرمپ سے عافیہ صدیقی کی رہائ کے لئیے بھی بات کریں گے تاہم کسی امریکئ صدر کے لئیے شائد ہی ممکن ہو کہ دھشت گردی کے الزام میں سزا پانے والے کو معاف کرنے کا رسک لے تاہم عافیہ کی رہائ کے لئیے جلد ہی عدالت میں اپیل داخل کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے ان سفارت کاروں نے کہا ہے عافیہ صدیقی کی رہائ کے پسمنظر میں جو لوگ استلال کرتے ہیں کہ جب امریکہ طالبان سے صلح کے مذاکرات کرسکتا ہے اور کل کے دھشت گرد طالبان لیڈر رہاکئیے جاسکتے ہیں توعافیہ کی رہائ کیوں نہیں ۔۔؟ توا مریکہ نے کسی ایسے طالبان رہنما کو رہا نہیں کیا جسے امریکہ عدالت نے سزاسنائ ہو ، گرفتار طالبان رہنما پاکستان نے رہاکئیے ہیں تاہم پاکستانی عدالتوں سے ان رہنماؤں کو بھی کوئ سزا نہیں سنائ گئی تھی یہ رہنما پاکستانی ایجنسیوں کے پاس صرف زیر حراست تھے ، سفارتکاروں کا دعوی ہے عمران خان کے دورہ امریکہ سے نہ صرف پاکستان کی جمہوری حکومت کو استحکام ملے گا بلکہ اس دورے سے ستر سالوں میں پہلی بار پاک امریکہ کے درمیان حقیقی مستحکمُ تجارتی تعلقات کا آغاز ہوگا،امریکہ
تیعنات سفارت کاروں نے پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی ان خبروں کی تصدیق کی ہے کہ ابھی دونوں ملکوں کے سربراہان کے درمیان ملاقات کے سوا کچھ بھی طے نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ چار جولائ کا لانگ ویک اینڈ قرار دیا جارہا ہے سفارت کاروں کا کہنا ہے آج منڈے سے امریکئ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے رابطوں کا دوبارہ آغاز ہوا ہے جن کے دوران امریکہ حکام سے وزیرعظم کی ملاقاتوں کا شیڈول دو ایک روز میں طے ہوجائے گا تاہم سائیڈ لائن پر معمول کی تمام ملاقاتیں اور پروگرام طے کئیے جاچکے ہیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں