انارکلی اور سلیم: شرطیہ نئی کاپی۔۔ شکور پٹھان

مقام۔۔قلعہ معلّٰی کے پائیں باغ میں حوض شمسی کے آس پاس۔

منظر۔۔۔۔باغ کی روشوں پر بہت ساری کنیزیں، خواصیں، مغلانیاں۔ خواجہ سرا رنگ بر نگے، زرق برق ملبوسات میں یہاں وہاں آجا رہے ہیں۔ کیوں آجا رہے ہیں ، انہیں بھی نہیں پتہ۔ ایک طرف کچھ شہزادیاں پینگوں میں جھول رہی ہیں۔ کچھ حوض میں پیر لٹکائے بیٹھی ہیں یا ایک دوسرے پر چھینٹیں اڑا رہی ہیں اور کھلکھلا کر ہنستی ہیں۔ لگتا ہے شاید کوئی پکنک وغیرہ ہے، لیکن نہیں، یہ ان کا روز کا معمول ہے۔

محل سرا کے عقب سے شہزادہ سلیم برآمد ہوتے ہیں۔ کمخواب کی پشواز نما پوشاک اور ریشمی چوڑی دار پاجامہ، پیروں میں سلیم شاہی جوتی، سر پر کلاہ کے ارد گرد موتی لپٹے ہوئے۔ شہزادے کے ہاتھ میں گلاب کا پھول ہے جسے سونگھتے چلے آرہے ہیں۔ ایک خواص سامنے ٹھہر کر طشتری میں رکھا پیالہ پیش کرتی ہے۔ صاحب عالم نے غٹاغٹ جام چڑھا لیا۔ کچھ سرور کی سی کیفیت ہے۔ نظریں آس پاس کسی کی متلاشی ہیں۔

صاحب عالم

ایک ہلکی سی سرگوشی سنائی دیتی ہے اور جامن کے درخت کی آڑ سے انارکلی جھانک رہی ہے۔ صاحب عالم یہاں وہاں دیکھ کر انار کلی کا ہاتھ پکڑ کر درختوں کے پیچھے پھولوں کے ایک تختے کے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔ یہاں مکمل پرائیویسی ہے۔

 انارکلی بھی نیچے بیٹھ جاتی ہے۔ شہزادے نیم دراز ہوکر انار کلی کے زانو پر سر رکھنا چاہتے ہیں لیکن بھاری بھرکم کلاہ اور اس پر لگے موتی سے انارکلی کو الجھن سی ہورہی ہے اور آہستگی سے ان کا سر ہٹا دیتی ہے۔ اب دونوں ساتھ ساتھ بیٹھے ہیں۔

آج پھر لیٹ ہوگئے صاحب عالم

 ” ہاں رات رقص و سرود کی محفل دیر سے ختم ہوئی۔ دن چڑھے آنکھ کھلی۔ اب تک ہینگ اوور نہیں گیا

 ” اس پھول کو تو پھینکیں ۔ آپ کو کوئی اور پوز نہیں ملتا، بس ہر وقت پھول ہی سونگھتے رہتے ہیں۔ ” دور سے گذرتی ایک خواص کو شہزادہ پھول کھینچ مارتے ہیں۔ خواص مڑ کر دیکھتی ہے تو شہزادہ انار کلی کی آنکھ بچا کر، آنکھ مارتے ہیں، انار کلی سے لیکن یہ چھپ نہیں پاتا۔

صاحب عالم

 ” میں نوٹ کر رہی ہوں آج کل آپ کا اسٹینڈرڈ بہت گرتا جارہا ہے۔ بہت ہی نچلی کیٹیگری کی کنیزوں اور خواصیں کو تاڑنے سے بھی باز نہیں آتے

 ” انار کلی۔۔ہم کیا کریں۔ محل اور قلعہ معلی میں دن میں اور کوئی ایکٹیو ٹی ہی نہیں ہے۔ بس اسی طرح ٹائم پاس ہوجاتا ہے

 ” تو رات میں کیا مصروفیات ہوتی ہیں

 ” تمہیں تو پتہ ہی ہے، ہر رات ظل سبحانی کے دربار میں کوئی نہ کوئی فنکشن ضرور ہوتا ہے۔ کبھی رقص وسرود، کبھی محفل موسیقی، کبھی مشاعرہ تو کبھی قوالیاں

 ” ہاں ڈانس پرفارمنس تو میں نے بھی دی تھی اور قوالی میں بھی شرکت کی تھی۔ جس میں ہم سب نے برتھ ڈے اور نیو ایر نائیٹ والی ٹوپیاں پہنی تھیں۔

 ” تمہاری وہی تو پرفارمنس تھی جو سلیم کا دل لے گئی تھی” شہزادے کی نظروں میں لگاوٹ ہے۔

ظل سبحانی بہت ہی اولڈ فیشنڈ ہیں۔ یہ ہر روز کتھا کلی، بھارت نا ٹیم اور منی پوری ڈانس دیکھ کر اور تان سین کی کلاسیکی میوزک سن کر بور نہیں ہوتے؟

 ” تمہارا کیا مطلب ہے۔ دربار شاہی میں ، ٹوسٹ، چا چاچا، رمبا سمبا اور ڈسکو ہونا چاہیے۔ کلاسیکی موسیقی کی جگہ پاپ میوزک ہونی چاہئیے۔ ارے بھئی فنون لطیفہ کی سرپرستی شہنشاہ عالم پناہ نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟

 ” کیا خیال ہے ایک روز میرا اور آپ کا ، آئٹم نمبر، نہ کرا دیا جائے۔

 ” واللہ ہمارا دل تو بہت چاہتا ہے لیکن اس لباس کے ساتھ بہت مشکل ہے

 ” آپ محل اور قلعے سے باہر بھی تو نہیں جاتے

 ” ہمارے لئے محل میں ہی بہت کچھ ہے

 ” کیا ہے، شاہی مطبخ ہے، روز کی روز مغلیہ ڈشز کھا کر آپ کا کلسٹرول نہیں بڑھتا

 ” ہاں یہ تو ہے۔ روز کا نور محلی پلاؤ، ہرن کا قورمہ’ متنجن، زمردی بریانی، غوصی روٹی وغیرہ کھا کھا کر دل اوب گیا ہے۔ ہمارا بھی جی چاہتا ہے چاؤڑی میں جا کر فاسٹ فوڈ کھائیں ۔ یا کم از کم جامع مسجد کی سیڑھیوں پر حلیم ہی آڑائیں۔۔ لیکن کیا کریں ہم شہزادے جو ہیں

 ” یہ آپ کھاتے ہوئے منہ سے چپڑ چپڑ کی آواز بہت نکالتے ہیں۔ ذرا تمیز سے کھایا کریں

 ” اب کنیزیں اور عوام بادشاہوں کو سکھائیں گے کہ کھایا کیسے جاتا ہے۔ ارے ہم سے زیادہ کھانا اور کون جانتا ہوگا؟” شہزادے کی آواز میں شدید غصہ ہے۔

آپ کسی اسپورٹنگ ایکٹیو ٹی میں بھی تو نہیں ہیں۔ توند دیکھیں کہاں جارہی ہے

 ” کیا بات کرتی ہو؟ ۔ اتنے سارے تو کھیل ہم کھیلتے ہیں۔ شطرنج میں ہم سے کوئی جیت نہیں سکتا، گنجفے اور چوسر کے ہم ماہر ہیں۔ مرغ بازی ، بٹیر بازی اور پتنگ بازی اور کون سے کھیل ہیں جو ہم نے نہیں کھیلے

 ” اور ایک اور بازی آپ بھول گئے۔۔ ہاں لیکن اس کا انتظام تو آپ کے لئے محل ہی میں ہوجاتا ہے۔ چاندنی چوک نہیں جانا پڑتا” انارکلی شوخی سے مسکرا رہی ہے۔

انار کلی تم کون سے صابن سے نہاتی ہو۔ اب تک بھبکے آرہے ہیں

 ” صاحب عالم۔ آپ سے یہ نہ ہوا کہ اپنی کنیز کا کوئی اچھا سا پرفیوم ہی لے دیتے۔ یہ جو عطرشمامتہ العنبر وغیرہ آپ گفٹ کرتے ہیں، یہ تو میرا سر ہی پکڑ لیتے ہیں۔ کبھی تو کوئی ڈھنگ کے تحفے دیا کریں” انار کلی اٹھلائی۔

کیا کریں ہماری پاکٹ منی ہی اتنی کم ہے۔۔ مہارانی حضور کے زریعے کئی بار ظل سبحانی سے اپنا وظیفہ بڑھانے کے لئے کہا لیکن وہ نئی شرطیں لگا دیتے ہیں

 ” شرطیں ۔ کیسی شرطیں ؟

 ” وہ کہتے ہیں مالوہ جاؤ، چتور فتح کرو، گولکنڈہ پر چڑھائی کرو۔ گوالیار کو ہمارے زیر نگین لاؤ

 ” تو صاحب عالم ، یہ تو آپ کی نیشنل ڈیوٹی ہے

 ” ارے بھئی ہم نے درچن سنگھ کو اپنا مصاحب کس لئے رکھا ہے

 ” ہاں جیسے ظل سبحانی نے مان سنگھ کو رکھا ہوا ہے۔ یہ اچھا ہے ، باپ بیٹے راجپوت سورماؤں کو استعمال کرکے خود محل سرا میں مزے کرتے رہتے ہیں

 ” یہ کیا بکواس ہے؟

 ” ہاں آپ خود کیوں کوئی کام وغیرہ نہیں کرتے۔ کب تک جہاں پناہ کے ٹکڑوں پر پلتے رہیں گے؟

 ” اب زیادہ بکواس کی تو ہمیشہ کے لئے ” ان فرینڈ ” کردوں گا!!!” ۔ شہزادے کا موڈ بگڑ گیا ہے۔

ارے آپ تو خوامخواہ ہائپر ہوے جارہے ہیں۔ میں تو اس لئے کہہ رہی ہوں کہ اپنی اِنکم کا زریعہ خود پیدا کریں

 ” تمہیں بے پتایا تو ہے کہ ابا حضور کی شرطیں یہی ہیں۔ گولکنڈہ۔ مالوہ، پانی پت والی

 ” یہ شہنشاہ عالم ان شہروں پر کیوں چڑھائی کرتے رہتے ہیں؟

 ‘ بھئی مملکت کا ریوینیو ایسے ہی تو جنریٹ ہوتا ہے

 ” اس ریوینیو سے کیا کرتے ہیں؟

 ” تمہیں کیا پتہ کس قدر اخراجات ہوتے ہیں۔ جہاں پناہ کا فیملی بجٹ ہی اتنا ہے۔ ہماری والدہ جودھا بائی کے علاوہ، مریم زمانی بیگم، رقیہ سلطان بیگم، دولت بی بی، راج کنواری، اور آٹھ دس اور بیگمات ہیں، ہمارے بھائی کامران، مراد، دانیال اور پتہ نہیں کون کون ہیں ، شہزادیاں ہیں۔ محل سرا اور قلعہ کا اسٹاف ہے۔ محل کی سوشل ایکٹیو ٹیز ہیں

 ” بس سارا کچھ شاہی خاندان کے لئے ہی ہے۔ پبلک کے لئے کیا ہے” انارکلی کا لہجہ گستاخ ہوگیا ہے۔

لگتا ہے تم فضول قسم کے ٹاک شوز بہت دیکھتی ہو۔۔ یہ سب باتیں کہاں سے سنیں ؟

 ” بھئی ہم چاؤڑی جاتے ہیں، حوض قاضی جاتے ہیں، چاندنی چوک میں گھومتے پھرتے ہیں۔ لوگ باگ تو یہی باتیں کرتے ہیں۔

 ” اس سے پہلے کہ عالم پناہ تمہیں دیوار میں چنوائیں، ہمارا جی چاہتا ہے، ہم ہی تمہیں دیوار میں چن دیں

 ” کیوں کیا ظل سبحانی ہمیں دیوار میں چنوانے والے ہیں ؟

 ” اسکرپٹ میں تو یہی لکھا ہے

 ” تو پھر آپ نے ہمیں دوست کیوں رکھا ہے۔ جائیے ہم آپ سے نہیں بولتے

 ” ارے جان سلیم، ہم تو یونہی مذاق فرمارہے تھے۔ تم بھی تو آج کچھ زیادہ ہی شوخ ہورہی ہو۔ لگتا ہے جلو بائی نے تمہیں کچھ زیادہ ہی آزادی دے رکھی ہے

 ” آپ کل بہار کو لائن مار رہے تھے

 ” اب یہ کوئی شکایت کرنے کی بات ہے۔ بھئی ہم شہزادے ہیں۔ یہ نہ کریں تو اور کیا کریں

 ” کچھ عوام کی فلاح و بہبود کی بھی سوچیں

 ” ظل سبحانی کے دربار میں فیضی، ٹوڈر مل وغیرہ اسی لئے ہیں

 ” تعلیم اور صحت کے شعبے میں آپ کے ظل سبحانی کی کیا کارکردگی ہے

 ” ہائیں، ہائیں!! تم کیا جنتا کی عدالت جیسے پروگرام دیکھنے لگی ہو۔؟ ” ہمارے لئے اور دوسرے شہزادگان کے لئے اتالیق مقرر کئے ہیں، اور کیا تعلیمی کارکردگی ہوگی

 “اور ہیلتھ سیکٹر میں

 ” ارے تم تو سڑیل اخبار نویسوں کی طرح سوال کرنے لگیں” ‘ ظل سبحانی حکیموں اور ویدوں کی بہت سر پرستی فرماتے ہیں

 ” جی ہاں تاکہ وہ ان کے لئے مقوی کشتہ جات تیار کر سکیں۔۔ ہیں نا

 ” آج تم بہت ہی بحث کے موڈ میں لگ رہی ہو۔ چلو جی کا غبار نکال لو، سلیم آج کسی بات کو مائینڈ نہیں کرے گا

 ” اچھا تو یہ بتائیں کہ آپ صرف میگا پروجیکٹس میں ہی کیوں انٹرسٹڈ رہتے ہیں

 ” میگا پروجیکٹس!! یعنی؟

 ” یہی لال قلعہ، آگرہ کا قلعہ، لاہور کا قلعہ، شالامار مار باغ، بادشاہی مسجد، مقبرے اور باغ وغیرہ

 ” تم اپنی بات کی نفی خود ہی کررہی ہو؟ اتنا کچھ تو شہنشاہ کر رہے ہیں

 ” یہ تو آپ کی رہائش اور حفاظت کے لئے ہیں۔۔ ہم عوام کے لئے کیا ہے؟

 ” ارے بھئی ہم بادشاہ لوگ ہیں۔ ہمیں کون سا ہر پانچ سال بعد آکر عوام سے ووٹ مانگنے ہیں

سلیم اور انار کلی بیٹھے دنیا بھر کے موضوعات پر باتیں کر رہے ہیں۔ ایک درخت کی آڑ میں ایک مصور بیٹھا انکی تصویر بنا رہا ہے۔ اس کا نام چغتائی ہے۔ یہ ان تصاویر سے خوب کما لیتا ہے۔ اس میں محنت بھی زیادہ نہیں ہے کہ منظر کبھی بدلتا ہی نہیں ہے۔ وہی شہزادے کے ہاتھ میں پھول، وہی روشوں پر ٹہلتی شہزادیاں، کنیزیں اور خواجہ سرا۔ ان کے پیچھے وہی فارغ البال اور نکمے شہزادوں کا غول۔ وہی حوض شمسی میں پیر لٹکائے ہمجولیاں، وہی جھولوں پر پینگیں لیتی دوشیزائیں۔

سلیم اور انارکلی ایک دوسرے میں گم ہیں کہ ثریا انہیں ڈھونڈتی آنکلتی ہے۔

ارے باجی آپ یہاں ہیں۔ اماں کب سے آپ کو ڈھونڈ رہی ہیں

سلیم اسے دیکھ کر بد معاشی سے مسکراتا ہے۔

آداب صاحب عالم۔۔۔ کنیز۔کو رنش بجا لاتی ہے

انار کلی فوراً اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ ” چل ثریا

 ” چل دیں انار کلی ۔ اچھی بات ہے۔ سی یو

 ” سی یو

 ” سی یو صاحب عالم” ۔۔یہ ثریاکی آواز ہے۔

دونوں سلیم سے دور جارہی ہیں۔

باجی ، صاحب عالم نے آپ کو پروپوز کیا؟

 ” نہیں۔ دفعہ کر، درفٹے منہ

 “کیوں باجی ! کیا ہوا؟

 ” ارے فضول سا بندہ ہے۔ کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا

دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

( پردہ گرتا ہے)

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”انارکلی اور سلیم: شرطیہ نئی کاپی۔۔ شکور پٹھان

  1. اتنی پیاری تمثیل آ ج اور کل کا اتنا حقیقی موازنہ اتنا چبھتا سچ ۔ سب کچھ سولہ آنے ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن اس پیار بھری کہانی کو یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ ۔۔۔۔۔ زخمی ہوگئ ہماری پاک محبت ، مجروح ہوگیا ہمارا سچّا پیار۔ واقعی آج کی نسل تو میکینائزڈ محبت پر یقین رکھتی ہے ۔ جب چاھا فرینڈ، جب چاھا ان فرینڈ۔ جب چاھا افیئر اور جب چاھا ایکس۔ شکور بھائ ہمیں ہمارے زمانے میں ہی زندہ رہنے دیں کیوں اتنا سچ بول کر اتنا سچ لکھ کر ہماری پہلی محبت سے ہم کو بدظن کررہے ہیں ۔ اگلے وقتوں کے ہم لوگ ۔۔۔۔۔۔ رچ بس گئ ہے نگاہوں میں اک ہی تصویر ۔ ۔۔۔۔ اب کیا کریں گے نئ انارکلی دیکھ کر۔

Leave a Reply to طارق معین Cancel reply