کیا واقعی امریکہ گدھے کو باپ بنارہا ہے؟ ۔۔۔ ہما

وقت پڑنے پر تو لوگ گدھے کو بھی باپ بنالیتے ہیں
ہم نے تو صرف مہمان بنایا ہے۔

یہ الفاظ میرے نہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس عاجزانہ رویے کی وضاحت کرتے ہیں، جو دورہ اتفاقی وزیراعظم پاکستان کے موقع پر اپنایا گیا۔۔۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے پینتالیسویں صدر جبکہ عمران خان پاکستان کے بائیسویں وزیراعظم ہیں۔ پاکستان کی پیدائش کے بعد پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خاں کا پہلا دورہ امریکہ ہی کا ہوا تھا۔ گو کہ ابتداً امریکہ کا رویہ پاکستان کے ساتھ اچھا نہیں رہا تھا لیکن کولڈ وار میں امریکہ کا اتحادی بننے پر پاکستان کو مختلف وعدے وعید دئیے گئے۔ امریکہ کا یہ رویہ رہا کہ جب کبھی پاکستان کی ضرورت پڑتی اسے استعمال کرتا اور پھر کام نکل جانے کے بعد استعمال شدہ ٹشو پیپر سے ذیادہ حیثیت نہ دیتا۔
سویت یونین اور افغان وار بھی میں پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیکر روس کی دشمنی مول لی لیکن پھر بھی امریکہ کے زیر سرپرستی نہ آسکا۔ امریکہ کے پاکستان سے کئے گئے ایف سولہ کے معاہدے تاحال مکمل نہیں ہوسکے ۔حتی کہ پاکستانی سپوت ایف سولہ بنانا سیکھ گئے ۔
پاکستان اور امریکہ کے ترش وتلخ تعلقات کبھی برابری کی سطح پر ڈیل نہیں کئے گئے۔ ۲۰۰۱ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد القاعدہ لیڈر اسامہ کی تلاش میں پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
“‘ہمارا ساتھ دو ورنہ پتھر کے زمانے میں پہنچانے دیں گے” کہہ کر بلیک میل کیا گیا۔ اور طالبان سے دشمنی لے کر ایک پورے ملک کو پاکستان کی مدد سے تباہ برباد کرکے دو پڑوسیوں میں نفرت کے بیج بودیئے جسکے کڑوے پھل دونوں ممالک کی عوام آج بھی کھارہی ہے۔ یہیں بس نہ کیا گیا بلکہ” ڈو مور “کے آرڈرز سے پاکستان کو ایک نہ بجھنے والی دہشت گردی کی آگ میں جھونکا گیا۔
امریکہ نے پاکستان کی خودمختاری پر حملہ کرتے ہوئے پاکستان کی حدود میں اپنے جاسوسوں کے ذریعے لاتعداد کاروائیاں کروائیں جن میں قابل ذکر اسامہ قتل اور ڈاکٹر شکیل آفریدی ہیں۔
سابقہ ادوار حکومت میں بہت مواقع ایسے آئے جب حکمران پاکستان امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برابری کی سطح پر کچھ دو اور لو کے معاملات طے کرسکتے تھے۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور ایک ہی جیسی تنخواہ پر ملازمت جاری رکھی گئی ۔
اب آتے ہیں موجودہ اتفاقی وزیراعظم کے دورہ امریکہ پر۔
یہ وہ دورہ امریکہ ہے جس کی کنفرمیشن کنفرم ہونے میں ہی ڈرامائی موڑ آئے۔ آخر کار عمران خان اپنے وزراء کے ساتھ ایک کمرشل پرواز پر امریکہ پہنچے
عمران خان نے اس ڈر سے کہ کہیں امریکہ بھی چائنہ کی طرح کسی میونسپل کونسلر کو استقبال کے لیے نہ بھیج دے۔ استقبال سے منع کیا اور پاکستانی وزراء اور عوام کے ذریعے استقبال ہوا۔
عمران خان کا پاکستانی کمیونٹی سے خطاب شاندار رہا جس کی وجہ سینٹر فیصل جاوید کی شاندار جاندار کمپئیرنگ، پی ٹی آئی انتظامیہ کی موسیقی سے بھرپور فکشنز(جلسے) ارینج کرنے کی مہارت اور روپے کا بے دریغ استعمال تھا۔

ایک خبر کے مطابق جمع ہونے والی تمام عوام صرف امریکہ میں مقیم پاکستانی نہیں تھے، بلکہ کینڈا اور دوسرے ممالک سے بھی پاکستانی پی ٹی آئی ووٹرز نے اس میٹنگ میں شرکت کی۔


شرکاء کی تعداد اچھی خاصی تھی اس بات پر اختلاف چھوڑ کر سراہ بھی دیا جائے تو بھی عمران خان کا خطاب کسی تعریف کا مستحق نہیں۔

خطاب کے شروع میں آخر میں اور بیچ میں اپنی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے مخالفین کو نیچا دکھاتے رہے وہی تمام باتیں جو وزیراعظم بننے سے پہلے کیا کرتے تھے اسی کیسٹ کو دہرادیا۔ کہنے لگے مخالفین کو اب تک یقیں نہیں آرہا کہ میں وزیراعظم بن چکا ہوں اور خطاب سے محسوس ہوا کہ درحقیقت انہیں ہی اب تک یقیں نہیں ہوا کہ وہ وزیراعظم سلیکٹ کئے جاچکے ہیں۔ کیونکہ اگر یقیں ہوتا تو اپنے عمل گنواتے ناکہ پھر سے بے اختیار لیڈر کی طرح ہم یہ کریں گے وہ کریں گے کے دعوے کرتے۔
عمران خان جمہوری عمل کی تعریف کرتے ہوئے اقرباء پروری کی برائیاں بیان کرتے رہے۔
فرمایا اقرباء پروری میرٹ کے خلاف ہے۔
خان صاحب اپنے وزراء اور مشیر مقرر کرتے ہوئے یہ اپنا خطاب خود بھی سن لیتے۔ زلفی بخاری، مراد سعید، پرویز خٹک، زرتاج گل,عثمان بزدار اور دیگر بہت سے نام میرٹ پر پورا اترتے ہیں کیا؟؟؟
عمران خان نے کرپٹ عناصر کو ملک سے باہر پھینکنے کی بات بھی کی اور کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے کی قومیں اسلئے تباہ ہوئیں کہ امیر کیلئے قانون مختلف تھا اور غریب کیلئے مختلف۔
بالکل ۔۔
اسی حدیث کو فالو کرتے ہوئے عمران خان نے اقتدار میں آتے ہی اپنی غیر قانونی بنی گالہ کی جائیداد کو لیگل کروایا اور ہزاروں غریبوں کے آشیانے تجاوزات کے نام پر ڈھا دیئے۔
بہرحال وزیراعظم کے خطاب کے نقص نکالنے بیٹھوں تو شاید دورہ پر دورے پڑ جائیں اسلئےاب آتے ہیں عمران خان کی ٹرمپ سے باضابطہ ملاقات پر بظاہر عمران کی باڈی لینگویج نے بتایا کہ وہ ٹرمپ سے ذرا بھی مرعوب نہیں ہوئے اور کھل کر اپنا مؤقف پیش کیا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی باڈی لینگویج سے پتہ چلا کہ اس نے عمران خان کی تمام باتیں سنجیدگی اور عاجزی سے سنیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

درحقیقت اس سنجیدگی اور عاجزی کے پیچھے ہی یہ جملہ چھپا منہ چڑارہا ہے کہ
” وقت پڑنے پر تو گدھے کو بھی باپ بنالیتے ہیں”
” ہم نے تو صرف مہمان بنایا ہے”
آخر امریکہ کا ایسا کونسا برا وقت آگیا کہ وہ پاکستانی حکمران کی مہمانداری کررہا ہے؟؟؟
افغانستان میں اٹھارہ سال مسلسل جنگ لڑنے کے بعد جانی ومالی نقصان اٹھانا پھر بھی مطلوبہ نتائج نہ ملنے پر امریکہ وہاں سے نکلنے میں پاکستان کی مدد چاہتا ہے
اسی لئے عمران خان کو کھل کر بولنے کا موقع دیا گیا کہ طالبان سے مذاکرات کے بغیر یہ سب ممکن نہیں۔
پاکستان سی پیک اور ون روڈ ون بیلٹ کی وجہ سے دنیا بھر کی نظروں کا مرکز بنا ہوا ہے اور ایسے میں جب اسں منصوبے کا دوسرا پارٹنر چائنہ جو امریکا کو معاشی جنگ میں چیلنج کرچکا ہے اور ہر طور اگلے چند برس میں ورلڈ سوپر پاور بننا چاہتا ہے تو پاکستان کو مٹھی میں کرنا ہی امریکہ کے وسیع تر مفاد میں ہے۔
اسکے علاوہ ایران سے امریکہ کے دن بدن بگڑتے تعلقات میں بھی اپنے مقاصد کے حصول کیلئے امریکہ کو پاکستان کا ساتھ چاہئے اسلئے دور سے گئے خاص مہمان کو چارہ ڈال دیا گیا ہے تو اسمیں کپتان کی کوئی کامیابی نہ سمجھی جائے ۔
آخر میں اتنا کہوں گی کہ اس دورے کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور امریکہ کے پاکستان سے حقیقی مطالبات کیا ہیں اسکی تفصیلات میں شاید کچھ وقت لگے لیکن خان صاحب اپنے قوم سے کئے گئے ایک وعدے کو پھر فراموش کرگئے۔
رواں برس وومنز ڈے پر ایک پروگرام میں شرکت کے دوران عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی کو پی ٹی آئی خواتین عہدیداران کو تسلیاں دیتے سنا تھا کہ ان شاءالله اگلا وومنز ڈے عافیہ ہمارے ساتھ منائیں گی۔
کیا واقعی خان صاحب عافیہ صدیقی کو اپنے ساتھ لا رہے ہیں یا یہ فرض صرف پچھلوں کو جتلایا جاتا تھا؟؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply