ہربرٹ سپنسر: ایک عظیم حیاتیاتی مفکر۔۔۔اجمل صدیقی

biologist- philosopher.
سپنسر
جولیین ہیکسلی کی طرح وہ ایک اگنوسٹک تھا۔لیکن وہ ایک قدرت مطلقہ کو د ل سے مانتا تھا ۔۔جس کا ہمیں علم نہیں ۔
اس کے خیال میں کائنات میں ایک cosmic evolution ارتقا چل رہا ہے۔اس کے پسِ  پشت کوئی غیبی ہاتھ ہے۔ اس کا علم ممکن نہیں ۔۔کیونکہ ہمارا علم حسی ہے اور تقابلی ہے وہ قوت حس اور تقابل سے ماورا ہے۔ اس لیے اس کا علم ممکن نہیں
یاد رہے کہ natural selection کابانی ڈارون ہے لیکن survival of the fittest کا بانی اور شارح سپنسر ہے۔اس کے نزدیک تمام اشیا کا منبع وہ غیبی قوت ہے۔اس کے نزدیک موجود ہونے کیلئے معلوم ہونا ضروری نہیں ۔وہ غیبی قوت واقعات اور حوادث کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔
ارتقا کی تعریف اس کی زبانی ۔۔
evolution
…………… is an integration of matter and concomitant dissipation of motion,
during which the matter passes from an indefinite,incoherent homogeneity
to
a definite,coherent homogeneity
and during which the retained motion undergoes a parallel transformation.

سپنسر کا بنیادی خیال ہے کہ کائنات سادہ سے پیچیدہ کی طرف رواں دواں ہے۔یہ اس لئے کہ کائنات توازن قائم رکھتی ہے۔ اس میں  طبعی اور حیاتیاتی دونوں قوتیں شامل ہیں ۔ زندگی necrosis اور entropy سے اور نئی سپییز اور نظام نئے گلیکلیسز بنتے رہتے ہیں ۔سادہ سیلز سے پیچیدہ زیادہ بہتر کام کرتے ہیں ۔ ہر نظام خواہ کتنا بڑا  یا کتنا   چھوٹا ہو ۔۔اس کے اندر جدلی عناصر سے وہ زندہ ہوتا ہے اسی سے تباہ ہو جاتا ہے۔
فطرت میں کوئی چیز بھی مادے اور حرکت سے خارج نہیں ۔مادہ کبھی فنا نہیں ہوتا ۔حرکت میں تسلسل ہے۔حرکت پر inertial قوت کا اثر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

زندگی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے۔
یہ اندر ونی روابط کی بیرونی روابط سے ہم آہنگی کانام ہے۔
ریاضی اور اخلاقی قوانین سالہا سال کے تجربات نسل ہیں نسل انسانی کے جین pool میں جمع  ہو جا تے ہیں  جنہیں ہم قبل تجربی axiom کہتے ہیں وہ ایک species کا تجربہ ہے جو پوری سپیز کو منقتل ہوا ہے۔
اس کے نزدیک معاشرتی قوانین بھی طبعی اور حیاتیاتی قوانین سے اخذ ہوئے۔۔جتنے اندرونی روابط بیرونی کے مطابقت ہونگے فرد اتنا معاشرتی طور پر مسرور اور خوش خرم ہو گا ۔زندگی خود نہ اچھی ہے نہ بُری ،اسے خود تخلیق کرنا ہوتا ہے ۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply