• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • جائے گی گلشن تلک اس گل کی آمد کی خبر ۔۔ روبینہ فیصل کی سالگرہ پر۔۔۔۔۔۔احمد رضوان

جائے گی گلشن تلک اس گل کی آمد کی خبر ۔۔ روبینہ فیصل کی سالگرہ پر۔۔۔۔۔۔احمد رضوان

آپ یقین نہیں کریں گے کہ مارچ 2016 سے قبل میں ان کی صورت تو کجا نام آشنا تک نہ تھا۔کینیڈا میں 2005 سے رہائش پذیر ہونے کے باوجود کسی قسم کے ادبی گروہ اور انبوہ میں نہ تو کسی قسم کی دلچسپی رکھی تھی نہ کسی سے کوئی صاحب سلامت تھی۔ان کے برادر خورد سے کسی اور حوالے سے نام کی حد تک شناسائی تھی(تب یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ روبینہ کے برادر خورد ہیں) اورجو حوالہ تھا وہ بھی کوئی ایسا قابل فخر نہ تھا۔ موصوف نے ایک بار انتخاب لڑنے کا ارادہ کیا تھا اور مخالفین نے ان پر ایسا الزام دھرا تھا جس کا بیان یہاں کرنا مناسب محسوس نہیں ہوتا۔ہمیں جس فریق نے ان پر الزام دھرا تھا اس سے اچھی خاصی مخاصمت بلکہ ایک طرح سے نفور تھا۔ وہ ہمارے پیسے ایک فراڈ ورک پرمٹ کے بہانے اینٹھ چکے تھے ۔یہ میاں بیوی کا جوڑا بھی مہا کلاکار تھا ۔موصوف ایک نام نہاد جرنلسٹ اور اخبار کے نام پر ایک چیتھڑا نکالتے تھے اور ریڈیو پروگرامز کے ذریعے اپنی مشہوری کرکے گاہک گھیرا کرتے تھے۔ بیوی سیاستدانوں سے دوستی گانٹھ کر اپنا حلقہ احباب میں بڑے لوگوں کی موجودگی کی سعی کیا کرتی تھی ۔اس میں عموماََ اخلاقیات تیل لینے چلی جایا کرتی تھی کہ ان خاص مواقع کی روانی اور فروانی میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو ۔تو جب اس بی بی نے انتخاب کے میدان میں مقابلہ کرنے کی بجائے منہ کالا کرنے کے چکروں میں پر الزام لگایا تو برادر خورد ہماری ہمدردی کا خودبخود مستحق بن گیا۔ہوا یوں کہ خود نئی نئی امیگریشن کی تھی۔ ایک سسرائیلی رشتہ دار کے ورک پرمٹ پر کینیڈا آنے کے لئے اخبار میں دئیے گئے اشتہار کی روشنی میں ابتدائی پراسیسنگ فیس 13 سو ڈالر ان نام نہاد اخبار نویس/ ریڈیو کمنٹیٹر کی چرب زبانی سے متاثر ہوکر ان کی جعلی امیگریشن فرم میں جمع کروا دی تھی ۔ پہلی قسط کی ادائیگی کے بعد ہی یہ میڈیا میں ہر وقت بے پر کی چھوڑنے والا جوڑا اپنی چونچ بند اور دم دبا کر یوں اڑنچھو ہوا کہ ان کا اور لوگوں کے پیسے کا کچھ سراغ یا کھرا برآمد نہ ہو سکا۔

روبینہ فیصل سے تعارف کاسبب ایک الف لیلوی داستان جیسی سرگذشت والی کتاب کے ذریعے ہوا تھا۔کتاب ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی “کتھا چار جنموں کی ” تھی جو ان کی آپ بیتی تھی۔اس کتاب کے ایک باب میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے کینیڈا میں گذرے ماہ وسال اور یاران خوش خصال کا تذکرہ فرمایا ہے ۔روبینہ فیصل کی بھی انہوں نے جم کر تعریف کی تھی ۔رخ کتاب پر روبینہ کی آئی ڈی ڈھونڈ کر اذن دوستی بھیجا جو شرف قبولیت پاگیا ۔تعارف میں جب یہ بتایا کہ آپ کا ذکر خیر ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب میں کیا ہے تو وہ اس سے لاعلم تھیں ۔ لاعلمی واقعی ہزار نعمت ہوتی ہے ۔کیونکہ انہوں نے فوراََ حوالہ مانگ لیا ۔خیر ایک عمدہ سی پاور پوائنٹ سلائیڈ ( سلائیڈ پنجابی میں “گِھیسی” کہلاتی ہے اور کچھ لوگ اس میں مہارت تامہ رکھتے ہیں اور تشریف گِھسا گِھسا کر پھاوے ہوجاتے ہیں مگر کام نہیں بنتا ۔خیر یہ ایک جملہ معترضہ تھا )بنا کر پیش کی جو انہوں نے اپنی وال کی زینت بنا کر خوب لائکس بٹوریں۔جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ ڈاکٹر صاحب نے ان کی تعریف یوں ہی نہ کی تھی ۔یہ ہمہ جہت خاتون ناصرف عمدہ لکھتی بلکہ صاحب کتاب بھی تھیں۔ان کے کالم سماجی ،معاشرتی ، اور سیاسی موضوعات پر باقاعدگی سے دستک کے نام سے روزنامہ نوائے وقت کی زینت بنتے ہیں۔دستک کے نام سے ہی ایک پروگرام راول ٹی وی پر کرتی ہیں اور250 سے زائد انٹرویو ریکارڈ کر چکی ہیں ۔اپنے بے باک اور اور بے لاگ تبصروں اور تجزیوں کی بنا پر پر ماشا اللہ کافی سارے دشمن بنانے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔

جب ان کی تحریروں میں عمدہ حس مزاح ،برجستہ ،شستہ ،شگفتہ اور نٹ کھٹ جملوں،چٹکلوں اور جگتوں کا تواتر سے استعمال اور برتاؤ دیکھا تو جو اولیں خیالات ذہن میں آئے ان میں سے ایک پورا ٹھیک نکلا۔روبینہ بھی لائلپورن نکلی۔دوسرے کی بابت شکر ہے بال بال بچت ہوگئی ورنہ اپنی برادری کی نکل آتیں تو بہت مشکل ہو جانی تھی۔اس کا ازالہ یوں ہوا کہ ان کی بڑی بہن کے میاں صاحب کی شکل میں “میاں برادری” سے ان کا پالا پڑ گیا۔دولہا بھائی کتاب اور کاغذ کا ایک ہی معتبر حوالہ جانتے تھے کہ وہ یا تو چیک بک ہوگی یا کاغذی نوٹ۔دولہا بھائی کا بھی ایک دلچسپ قصہ سنایا ۔کینیڈا امیگریشن کرکے آئیں تو گود میں بچےتھے ،سفری سامان میں کتابچے (کتابچے کا جو تلفظ جیو ٹی وی کےاینکر نے پڑھا تھا اس کی بابت سوچنے سے بھی احتراز برتا جائے) اور کتابیں۔ابتدائی ایام میں بڑی بہن کے گھر عارضی طور پر قیام کیا تو دولہا بھائی ان کی کتابیں دیکھ کر بہت متعجب ہوئے اور استفسار کیا کہ تم ان کتابوں سے ہم پر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو؟کہنے لگی بھی کہ میں ان کی یہ بات سن کر ہکا بکا رہ گئی اور اور سوچتی رہی کہ اب اس کا کیا جواب دوں؟

پاکستان میں روبینہ کا پیدائشی ضلع و شہر لائلپور تھا اور ابتدائی تعلیم و تربیت اسی شہر میں اپنے والد کے اسکول میں ہوئی ۔بھٹو نے جہاں صنعتوں کو قومیانے جیسا گناہ کیا وہیں ان کا اسکول بھی اس کی لپیٹ میں آگیا۔ اس کے بعد یہ خاندان لاہور ہجرت کرگیا ۔گویا جگت تخلیق کرنے والے شہر سے جگت پرور شہر کی طرف ۔روبینہ کےقریشی النسل والد میانوالی سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کا روایتی اکھڑ پن ،سخت گیری اور صاف گوئی کی حد تک منہ پھٹ رویہ مشہور ہے۔انکل بھی ویسے ہی ہیں بالکل اپنے تبدیلی والے خان صاحب جیسے بس فرق اتنا ہے کہ ان کو خان صاحب ایک آنکھ نہیں بھاتے جبکہ بیٹی جو باپ کا پرتو ہے ،وہ اور داماد خان صاحب پر لہلوٹ ہیں۔روبینہ کی والدہ لاہور کی ککے زئی برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ ککے زئی عورتوں کی لڑاکا طبیعت کے متعلق بہت ساری باتیں مشہور ہیں۔شنیدن ہے جب صبح صبح مرد کام پر نکل جاتے تھے توککے زئی عورتیں بھی چھتوں پر چڑھ کر کر ایک دوسرے سے لڑائی وہیں سے شروع کرتی تھیں جہاں ختم ہوئی تھی اور شام کو کو مردوں کے واپس آنے سے قبل کوٹھے کی منڈیروں پر ہانڈیاں الٹی کرکے کے اگلے دن وہیں سے لڑائی شروع کرنے کا عندیہ دے کر سیزفائر کیا جاتا تھا ۔اب یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایسے والدین کی بیٹی ہو کر روبینہ کیوں دو آتشہ بلکہ لائلپورن اور والدین کے کمبی نیشن کے بعد سہ آتشہ ہیں۔

روبینہ بھی میری طرح اسی کنفیوزڈ جنریشن سے تعلق رکھتی ہیں جسے چوں چوں کا مربہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ جنریشن ایکس ستر کی دہائی میں پیدا ہوئی اس لیے” ستر “کا تھوڑا بہت خیال رکھتی ہے۔ اسی کی دہائی میں بالغ ہوئی اور سری دیوی کے گانے”اسی تسی لسی پیتی “سن سن کر اور ناچ ناچ کر ایسی کنفیوز ہوئی کہ نوے کی دہائی میں نروس نائنٹیز کا شکار ہوکر “چولی کے پیچھے کیا ہے “کے راز ہائے سربستہ کی جستجو میں شادی کے ازاربند سے مشکیں کسوا بیٹھی۔وائے حسرتا۔رشتے داروں اور معاشرے کے پریشر کی وجہ سے والدین ہر بچے کو ڈاکٹر یا انجینئر بننے کا خواب ہی دکھاتےکہ باقی سب شعبے تمہاری ذہانت کے قابل کہاں ۔یہ الگ بات ہےکہ اکثریت اس خواب کی تعبیر انہی شعبہ جات میں کجھل ہوکر پاتی جن کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا ۔

روبینہ خوش قسمتی سے اس بِھیڑ چال ( مصنف عرصہ دراز اسےبھَیڑ چال سمجھتا اور پڑھتا رہا )کا حصہ نہ بنیں کہ سائنس اور علم ریاضی کے لئے ریاضت اور دماغ سوزی کرنا پڑتی ہے ۔دوسرا وہ لوگوں میں رائج عام خیال کی نفی نہیں کرنا چاہتی تھیں کہ ذہانت اور حسن کی یکجائی بہت مشکل سے ہوتی ہے۔استھیٹواسکوپ کی بجائے بایواسکوپ انہیں ذیادہ اچھا لگتا تھا ۔چہرہ مہرہ چونکہ زینت امان سے کافی مشابہہ ہے اس لئے خود کو کسی ہیروئن سے کم نہیں سمجھتی تھیں بلکہ زینت امان کو بھی اپنے آگے کچھ نہیں سمجھتی تھیں۔ مگر ہیروئن بننے کے مواقع کم کم تھے اور ابا جی کا چھتر ذیادہ نیڑے اور امی جی ہر ویلے ویہڑے میں کُڑی پر کَڑی نگرانی رکھتی تھیں اس لئے بندے کا پتر (محاورۃ) بن کر ہیلی کالج آف کامرس میں بی کام کرنے کے لئے داخلہ لے لیا۔دوسرا وہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ واقعتاََ پیسہ ہاتھ کا میل ہے یا ایویں بس باتیں ہی بنی ہوئی ہیں جو یہ امرا اس کےلئے پہلےمرے جاتے ہیں پھر بغرض عیاشی وفحاشی ” مری” جاتے ہیں آخرش اس کی چاہ میں مر ہی جاتے ہیں۔اب تو بدمعاشیہ اس میل کو جب تک اسے یورپ اور سوئزر لینڈ کے بینکوں کی آسائش میسر نہ آئے ،محفوظ نہیں سمجھتے۔

بی کام کرلیا تو نہ جانے دل میں کیا امنگ اٹھی یا کہیں سے” دشت سوس” کی مصنفہ جمیلہ ہاشمی کا یہ قول ان کے کانوں میں پڑ گیا یا یا سماعتوں کی زد میں آگیا کہ” اردو کااچھا ادیب بننے کے لیے ایم اے انگریزی ہونا بہت ضروری ہے۔”ہمیں جمیلہ ہاشمی کے اس قول سے کلی اتفاق ہے اگراس سے ان کی مراد وہی ہے جو ہم سمجھے ہیں کہ ایم اے انگلش حضرات کو سرقہ میں بہت آسانی رہتی ہےجبکہ ہمارے جیسے ایم اے انگلش نہ ہونے کے سبب معیاری سرقہ بھی ڈھنگ سے نہیں کرسکتے۔روبینہ کے کیس میں شائد یہ اس لئے اہمیت اختیار کرگیا ایک تو ایف سی کالج کانام اور دوسرا وہاں کے انگلش ڈیپارٹمنٹ کے عبقری اساتذہ ۔ویسے بھی لڑکی کے نام کے ساتھ ایم اے انگریزی کا رعب ہم دیسی زراعت پڑھنے والوں پر بہت ذیادہ پڑتا ہے ۔کسی نے ایم اے انگریزی کے ساتھ مقفی و مسجع اہل زبان کی سی اردو سننی ہو تو اپنے کلاسرا صاحب حاضر ہیں۔(مسکراہٹ)

عملی زندگی میں قدم رکھا تو پھر ایک اور اور چیلنج کا سامنا تھا کہ کیا کیا جائے؟ اخبار میں اشتہار دیکھ کر کر بینک کی ملازمت کے لیے درخواست دے ڈالی جو شاید بینک والوں نے ان کی قابلیت اور ڈگریوں پر ایمان لاتے ہوئے قبول و منظور کرلی۔یوں قبلہ یوسفی صاحب کی طرح ان کا روزگار بھی سودخوری/خواری ٹھہرا۔”پھرتےہیں سود خوار کوئی پوچھتا نہیں ” کی جگہ ان کو ہر جگہ ہاتھ کے چھالے کی طرح ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ۔یہ الگ بات ہے ذیادہ دیر کہیں ٹک کر ایک بینک ان کی خداداد صلاحیتوں سے فایدہ اٹھانے کا متحمل نہیں ہوتا تھا اس لئے جلد اگلے بینک کو سبق پڑھانے (حقیقت میں سکھانے) کےلئے ان کی ٹرانسفر کردی جاتی تھی۔ یہ اتنی دق ہوئیں کہ سوچنے لگیں” مار دیا جائے کہ چھوڑ دیا جائے؟ بول نوکری تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ مگر تب ہی کیوپڈ نے اپنا تیر چلایا اور ان کی ملاقات اس متین، ذہین و فطین اور اور پائی پائی کا حساب رکھنے والے چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ فیصل محمود سے ہوئی جو انکی برانچ کا آڈٹ کرتے کرتے ان کو دل کا نذرانہ مفت دے بیٹھے۔فیصل محمود بھی چونکہ اسی کنفیوزڈ جنریشن سے تعلق رکھتے ہیں اسلئے میڈیکل کالج میں ایک سال لگانے کے بعد اسے غیردلچسپ جانتے ہوئے بیچ منجدھار میں میڈیکل کی تعلیم چھوڑ کر فنانس کی طرف نکل آئے اور سی اے (CA) بن گئے۔اب یہاں کینیڈا میں فنانشل پلاننگ سے لے کر رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں خوب نام کمارہے ہیں۔خیر رشتہ بھیجا تو آنٹی نے لڑکا دیکھنے کے بعد صرف اس کوالیفیکیشن کی بنا پر ہاں کردی کہ لڑکا سگریٹ نہیں پیتا ۔ “دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے” کے مصداق آنٹی ساری زندگی اپنے شوہر کی سگریٹ پھونکنے کی عادت سے اتنا تنگ تھیں کہ دھواں ذدہ آنکھوں سے واحد قابلیت اسی نکتے پر آکر ختم ہو جاتی تھی بلکہ انہوں نے روبینہ کے لئے ایک ڈاکٹر صاحب کا رشتہ اس لئے مسترد کردیا کہ وہ سگریٹ نوش تھا ۔اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کہانی کو تھوڑا فاسٹ فاروڈ کرتے ہیں کہ طوالت کبھی کبھار خجالت لایا کرتی ہے۔ ان کی کینیڈا امیگریشن کے بعد کا کچھ تذکرہ کرتے ہیں کہ ایک نیا دیس اور رنگ برنگ کے لوگوں اور ثقافت سے واسطہ پڑا تو دل میں خیال آیا کہ میں یہاں پہنچ گئی ہوں تو باقی کیوں پیچھے رہیں؟حالانکہ ہم پاکستانیوں کے لیے مشہور ہے کہ ہمارے اوپر کوئی نگران اس لیے مقرر نہیں کیا جاتا کہ ہم ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے لیے کافی ہیں کہ ہم کنویں سےباہر نہ نکلیں گے نہ کسی کو نکلنے دیں گے۔ اس لیے امیگریشن کنسلٹنٹ کا ڈپلوما لے لیا اور لوگوں کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازنے لگیں۔کچھ عرصے کے بعد شاید لوگوں کو ان کے مشوروں میں اپنی مشکلات کا حل نہ ملا یا روبینہ کا دل اوب گیا تو انھوں نے اس کنسلٹنسی کو بیک برنر پر ڈال دیا اور خود لکھنے پڑھنے اور ٹی وی شوز کی طرف مائل ہو گیئں۔
روبینہ سے پہلی بالمشافہ ملاقات 2016 میں ان کی افسانوں کی کتاب “خواب سے لپٹی کہانیاں” کی تقریب رونمائی پر ہوئی جہاں ہم نے ایک دوسرے کو دریافت کیا۔ملتے ہی پہلی صلاح یا مشورہ یہ ملا کہ فوراََ فیس بک پر اپنی ڈی پی بدلو تم اتنے بڑے ہو نہیں جتنے بوڑھے اپنی ڈی پی میں دکھائی دیتے ہو۔ خیر ہم نے بھی اس کا بدلہ ان کی تقریب رونمائی کی رپورٹنگ مزاحیہ انداز میں کرکے لے لیا۔ اس مضمون میںشرکائےمحفل اور ان پر لطیف چوٹیں کی گئی تھیں۔اس کے بعد ان کی کتاب کا ریویو لکھا جسے لوگوں نے پسند کیا اور مزید لکھتے رہنے کے لیے حوصلہ افزائی کی۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے ساتھ داستان گوئی کے موضوع پر روبینہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں شرکت کا موقع ملا جس کی میزبانی روبینہ نے کی تھی ۔اس کے بعد نجانے کیا ہوا کہ کہ روبینہ نے ادبی اعتکاف کا فیصلہ کرلیا اور اور کسی کو بتائے بغیر سب سے رابطے ختم کر لئے۔ ہم بھی چپ ہو رہے ۔ شاید ڈپریشن کا ایک فیز تھا جو ان کی زندگی کے بہت سے قیمتی دن نکل گیا مگر اس کا انجام شر کی بجائے خیر پر ہوا۔ وہ پہلے سے زیادہ طاقت و توانائی سے واپس آئیں اور چند مخلص اور ہم خیال دوستوں کے ساتھ مشورہ کرکےادبی گروپ “رائٹ ناؤ” کی بنیاد رکھی۔گروپ کی مدارالمہام (مادر المہام بمعنی mother)ہونے کے ناطے ان کے اور دوسرے ممبران کے گھروں پر ہونے والی ماہانہ میٹنگز میں سب اپنی اپنی تخلیقات پیش کرتے ہیں اور اصلاحی تنقیدکے ساتھ ساتھ لذت کام و دہن اور روح کی غذا کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔
ادبی کام کی پذیرائی ان کو 2017 میں “خالد احمد ایوارڈ” کی صورت میں ملی . ان کی افسانوں کی کتاب” خواب سے لپٹی کہانیاں” نے دوسرا انعام حاصل کیا .افسانے لکھنے کے بعد ان کو نثری نظموں کا شوق چرایا تو “ایسا ضروری تو نہیں ” کے عنوان سےپوری کتاب لکھ ڈالی حالانکہ ایسا ضروری تو نہیں تھا۔ان کی آنے والی چوتھی کتاب “گمشدہ سائے” ان افسانوں پر مشتمل ہے جو زیادہ تر مکالمہ ویب سائٹ پر چھپ چکے ہیں اور ادبی حلقوں نے ان کی کتاب پر اپنے ریویوز سے ان کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔معاصر ادبا کے ان ریویوز کی کثرت نے مجھے مجبور کیا کہ میں انہیں مشورہ دوں کہ ایک کتاب صرف ان ریویوز کی ہی چھاپ دیں افسانوں کی کتاب بعد میں چھاپ لیں گے , بہت ہنسیں۔
میری یہ بڑی بہن روبینہ فیصل بطور ادیبہ اور مصنفہ سچ کہنے ،سننے اور لکھنے سے نہ تو ڈرتی ہے نہ کسی سے دبتی ہے بلکہ میں تو انہیں پاکستان کی دبنگ آواز کہہ کر پکارا کرتا ہوں۔ ان کی پہلی کمٹمنٹ پاکستان ہے ۔اور انہوں نے ایک بہت سادہ سا کلیہ بنا رکھا ہے کہ جو بھی دانشور اور انٹلیکچول (چَول پر پیش کی بجائے زبر ہے کہ یہ کسی کی پیش نہ چلنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر کامیاب نہیں ہوپاتے)پاکستان کے مفاد کے خلاف بات کرتا ہے یا کسی ایسے فرد کی حمایت کرتا ہے تو سچ ہمیشہ اس کی دوسری جانب موجود ہوتا ہے.طنزومزاح روبینہ کی گھٹی میں لائلپور نے بچپن میں ہی کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا اس لئے بے تکلفی اور اور بنا کسی رو رعایت اپنا مدعا بیان کرنا اور دھیمی دھیمی طنزیہ چوٹیں کرنا ان کو بہت خوبی سے آتا ہے۔ ان کا ادبی واٹس ایپ گروپ ایک ایسا لیٹر باکس ہے جس میں ان کا ہر دوست پوسٹ شیئر کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتا ہے۔ اچھا لطیفہ، چٹکلہ بھی صدقہ جاریہ ہوتا ہے خاص طور پر وہ جو نا گفتنی ہو ۔سارا دن کسی نہ کسی موضوع ،سیاستدان، حالات حاضرہ کے کسی واقعہ کی آڑ میں جو شئیرنگ ہوتی ہے گروپ میں، وہ وہ سارا دن محفل کو کشت زعفران بنائے رکھتی ہے.
آج روبینہ فیصل کی سالگرہ ہے یہ مت پوچھیے گا کتنی؟ عمر تو فقط ایک نمبر ہے اور عورتوں کی عمر تو بالکل بھی نہیں پوچھنی چاہیے انہوں نے کون سا صحیح بتانی ہوتی ہے اپنا اپنا اندازہ لگاتے رہئے۔۔یہ مضمون ان کی معیت میں بیتے ہوئے دنوں کی یادوں کا چراغ بن کر رات کے اس پہر دماغ میں روشن ہوا جب گہری نیند سے اچانک آنکھ کھلی اور خیالات کا تانابانا اس مضمون کو لکھنے کا سبب بن گیا۔میں ان کوان کی سالگرہ کے موقع پر ایک لمبی ،خوشیوں بھری اور پرسکون زندگی کی دعا دیتا ہوں۔ امید کرتا ہوں وہ اسی وفور سے لکھتی رہیں گی حسب روایت کچھ اپنے جنوں کی حکایت اور کچھ باغیانہ شکایت۔
احمد رضوان
بیس جولائی،دو ہزار انیس۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 5 تبصرے برائے تحریر ”جائے گی گلشن تلک اس گل کی آمد کی خبر ۔۔ روبینہ فیصل کی سالگرہ پر۔۔۔۔۔۔احمد رضوان

  1. Thx Rizwan for writing such an excellent stuff on her birthday that opened many windows of past in my shared memories with my better half
    All the best
    Seems you’re stepping close to our common her o style writing
    Mushtaq Ahmad Yousufi

  2. بہت خوب جناب۔ سالگرہ کا کیا خوب تحفہ دیا ہے آپ نے۔ بہت مزیدار تحریر اور منی بائیوگرافی لکھ ڈالی۔ خاکہ لکھنا ہر ایک کے بس کی بات کہاں، آپ کی تحریر اور صاحبِ تحریر کا کمال ہےکہ اتنا اچھا خاکہ لکھا ہے۔ داد

    1. بہت ممنون ہوں فیصل بھائی۔میرے ادبی سفر میں آپ کی حوصلہ افزائی ہر قدم پر ساتھ رہی ہے ۔سلامتی ہو۔

  3. Loved the unique flavour of humor in writing
    How beautifullwhole story has defined taken me to other world of charm mix with pure relatioof friendahip bravo man

Leave a Reply to Sham Cancel reply