تبدیلی گزیدہ ملک۔۔۔۔۔راشد احمد

حکومت زرداری کی ہو،نوازشریف اقتدار میں ہو یا مہاتما عمران خان صاحب مسند نشین ہوں،فائدہ ہمیشہ ان کا،ان کے عزیزواقارب کا،دوستوں اور تعلق داروں کا ہوتا ہے۔عام آدمی،غریب عوام،پسماندہ طبقات اور مزدوری کی خاطر پسینہ بہانے والے ہمیشہ مزید خوار ہوتے ہیں۔ان کی آہیں اور سینہ کوبی اسی طرح رہتی ہے۔عدالتیں بڑے لوگوں کو سزا دیتی ہیں،انہیں ہی ریلیف دیتی ہیں۔فوج کا سایہ ء  شفقت بھی انہی کے سروں پہ رہتا ہے،پولیس بھی انہی کی محافظ ہے۔

عام آدمی کے لیے مزید مہنگائی ہی اس کی خدمات کا معاوضہ ہے۔کروڑوں اربوں روپے کے ٹیکس دینے کے بعد بھی سرکاری ہسپتالوں میں جانوروں جیساسلوک ہوتا ہے۔سرکاری اسکول اور کالجز تیسرے درجے کے تعلیمی اداروں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔کسی کا بچہ اغوا ہوجائے یا خدانخواستہ ڈاکہ پڑجائے،معمولی سی امید بھی نہیں ہوتی کہ پولیس کے پاس جانے سے کوئی فائدہ ہوگا۔سڑک حادثات میں دہشت گردی سے زیادہ لوگ موت نے نِگل لیے،لیکن کیا آپ نے کبھی اس حوالہ سے کوئی جعلی،سطحی اور بیہودہ ہی سہی کوئی مذمتی بیان سنا؟لوگوں کی نسلیں عدالتوں کے چکر لگاتے مرکھپ جاتی ہیں مگر جج حضرات ڈیم بناتے رہتے ہیں۔سرکاری دفاتر میں چلے جائیں تو لگتا ہے یہاں قیامت تک کوئی کام نہیں ہوگا اور اگر کوئی کام کروانا ہے تو اپنی جیبیں ہلکی کیے بِنا کوئی چارہ نہیں،لیکن اگر کسی مخالف نے آپ سے زیادہ ریٹ لگا دیا تو آپ کا کام بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی پیسے واپس ملیں گے۔

اس صورت حال میں ایک صاحب تبدیلی کا نعرہ لے کر اٹھتے ہیں،22 سالہ جدوجہد گنواتے ہیں اور آتے ہی اپنے پیشرووں کے بھی کان کاٹتے ہیں۔تعلیمی بجٹ پہ چھری پھیرتے ہیں،جو اس کی چھتر چھایا میں آیا اسے فرشتہ بتلاتے ہیں اور دیگر کو قارون کی نسل کے لٹیرے قرار دے کر جیل میں ڈال دیتے  ہیں۔قدم قدم پہ کمپرومائز ہوتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک مجبور,بیچارے اور قابل رحم حکمران کا روپ اختیار کر جاتے ہیں تو افسوس تو ہوتا ہی ہے بندہ یہ بھی سوچنے پہ مجبور ہوتا ہے کہ کیا اسے ہی تبدیلی کہتے ہیں۔خارجہ پالیسی اور داخلہ کے امور تو چلو آپ کے بس کی بات نہیں لیکن کیا تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے تعلیمی صورت حال کو بہتر کرنا ،اسکولوں کی حالت زار کو بہتر کرنا اور اساتذہ کو روٹین میں لانا بھی اربوں ڈالر کا متقاضی ہے؟

ٹریفک کے حوالہ سے سخت قوانین بنا کر ان کا نفاذ یقینی بنانا کتنی محنت کا متقاضی ہے؟پلاسٹک بیگز پہ پابندی لگا کر ملک بھر میں صفائی کا شعور اجاگر کرنا اور گندگی پھیلانے والوں کو جرمانہ کرنا کون سی گیدڑ سنگھی ہے جس سے آپ محروم ہیں۔کرنے کی نیت ہو تو کام ہزار ہیں۔سیروسیاحت کے حوالہ سے ہمارے ہاں کس قدر گنجائش ہے،لیکن جب آپ کو مفت کا پیسہ چاہیے ادھار کے نام پہ تو کام کرنے سے جان جاتی ہے۔بائیس برس کی محنت کے بعد تبدیلی یہ آئی ہے کہ معیشت منہ کے بل گری ہوئی ہے۔مہنگائی آسمانوں میں ہے۔سیاست دان جیل میں ہیں،سرمایہ کار ملک سے باہر ہے اور قرضے ہیں کہ ناک تک آگئے ہیں۔طاقت کے دائمی مراکز ملک چلا رہے ہیں اور وزیراعظم بس سیاست دانوں کی کرپشن کا راگ دن رات الاپ کر قوم کو خوش کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔پولیس اسی طرح سیاسی اور جانور ہے جیسے پرانے پاکستان میں تھی۔پولیس اصلاحات کرنے سے کیا امر مانع ہے؟سانحہ ساہیوال میں پردہ نشینوں کے نام آنے پہ وزیراعظم صاحب نے قطر سے واپسی ہی موخر کردی ہے۔اگر واپس آتے تو پولیس اصلاحات کرتے۔بیوروکریسی اسی طرح رشوت بٹورتی ہے جیسے پہلے لیتی تھی۔چور اچکے اسی طرح پھرر ہے جیسے پہلے تھے۔تبدیلی صرف یہ آئی ہے کہ تحریک انصاف میں آنے والا ہر موسمی پرندہ ہنس قرار پارہا ہے اور باقی پرندے یا تو بے پر کئے جارہے ہیں یا پھر آشیانہ بدر۔سلامت وہی ہے جو تحریک انصاف کے سائے میں پناہ لے رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ہے وہ تبدیلی جس کے لیے وزیراعظم صاحب نے 22 برس  جدوجہد کی۔دنیا میں ایسی بے نتیجہ اور بے ہودہ جدوجہد شاید ہی کوئی اور ہو جس کا منطقی انجام اس قدر تکلیف دہ ہو۔تبدیلی گزیدہ ملک میں عام آدمی کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔عزت سے دو وقت کی روٹی کمانا عذاب عظیم جیسا ہوگیا ہے،لیکن اس کے باوجود حکمران کو NRO کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا۔اپوزیشن ویڈیوز دیکھ دیکھ مزے لے رہی اور ہمارے دانشور اسی بیچ کبھی اس طرف ہوکے کھڑے ہوجاتے ہیں ، اور کبھی دوسری طرف کھسک جاتے  ہیں ،ٹی وی چینلز کے لیے سیاست کے علاوہ کچھ اہم نہیں۔عوام کو چاہیے کہ تبدیلی کے انتظار میں کُھلے کواڑ مقفل کرلیں کیونکہ یہاں اب کو ئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔سیاہ رات مزید لمبی ہوگی اور عذاب مزید طویل ہوگا۔

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تبدیلی گزیدہ ملک۔۔۔۔۔راشد احمد

Leave a Reply