سرکاری سکول اور نتائج ۔۔۔۔سجاداعوان

ملک بھر کے ایجوکیشن بورڈ نے میڑک کے نتائج کا اعلان کر دیا ، جس میں حسبِ سابق ساری کی ساری نمایاں پوزیشنیں پرائیویٹ سکولوں اور اکیڈمیوں نے لے لیں ، کہیں کوئی اِکا دُکا تیسری یا چوتھی پوزیشن کسی سرکاری سکول کے حصے میں آئی اور وہ بھی اس طالب علم کی ذاتی محنت اور ٹیوشن سنٹر کے مرہون منت ہوگی ، اس میں سکول کے اساتذہ یا سکول کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔
سابقہ حکومت نے دن رات کام تعلیم کا معیار بہتر بنانے پر کیا ، اربوں روپے کے فنڈ مخصوص کیے۔اساتذہ کرام کی تنخواہوں میں بہت اچھا اضافہ کیا ،بہت پڑھے لکھے اور جوان اساتذہ کو سکولوں کا ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل لگایا گیا ، اور سکولوں کالجوں کو   بہترین معیاری سہولیات اور ضروریات سے مزین کیا گیا ، سکولوں کے اندر ایک انتہائی پر سکون ماحول مہیا کیا گیا کہ اساتذہ کرام اس ماحول کے اندر رہ کر اچھے طریقے سے طالب علموں کی تعلیمی  صلاحیتوں  کی آبیاری کر سکیں۔۔

موجودہ حکومت نے بھی تعلیم سب سے پہلے کا نعرہ لگا کر اس پر بھر پور توجہ دی ، اساتذہ کی تنخواہ میں اضافہ کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ان کی عزت و تکریم پر خاص توجہ دی ، تاکہ یہ لوگ مطمئن ہو کر نسل ِنَو کی بہترین تعمیر کر سکیں ، مگر یہ سب کرنے کے باوجود نتیجہ صفر ۔۔۔

یہ سب کیا ہے ، کہاں ہیں تعلیم کے مانیٹرنگ ادارے ؟ کہاں ہے ضلعی تعلیمی مینجمنٹ ، کہاں ہیں علاقائی تعلیمی کونسلیں؟۔۔۔اور سب سے بڑھ کر صوبائی وزارتِ  تعلیم ، جن کا یہ فرض اور ذمہ داری ہے، وہ سب اس ناقص نتیجہ امتحان پر خاموش کیوں ہیں؟۔۔
پورے ملک کے سرکاری تعلیمی ادارے دن بدن تنزلی کا شکار ہورہے  ہیں ، اور متعلقہ وزیر و مشیر حکومت اور حکومتی مراعات کا مزہ لے رہے ہیں ،مجال ہے کہ کسی صوبے کے وزیر ِ تعلیم نے اس ناقص کارکردگی پر کوئی بیان جاری کیا ہو یا  کوئی  عملی قدم اٹھایا ہو۔

مصنف:سجاد اعوان

اور اپوزیشن جماعتیں جو دن رات حکومت کے جائز اور ناجائز کاموں پر شور شرابہ ڈالتی ہیں ، جو ہر دن حکومت گرانے کا اجلاس بلاتی ہیں ، ان کی آنکھیں کیوں بند ہیں ، کیا ان کا حق نہیں  کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی تباہی و بربادی کے خلاف آواز اٹھائیں۔
ہر علاقے کا سیاستدان خاموش ہے چاہیے وہ حکومت میں ہے یا  اپوزیشن میں۔۔
بھلا یہ سیاستدان کیوں بولیں گے ، کیونکہ جتنے بھی پرائیوٹ تعلیمی ادارے ہیں ، یہ تو وہ خود مالک ہیں یا انکا کوئی قریبی رشتہ دار ، ان کی سیاسی ساکھ متاثر ہوگی ، ووٹ بنک خراب ہوگا۔۔
اور ہاں جو وزیر مشیر یا ایم پی اے صاحبان رزلٹ والے دن مختلف بورڈ کے مہمان خصوصی بنے ہوئے تھے ، ان کو نتیجہ سناتے ہوئے شرم نہیں آئی کہ کوئی بھی سرکاری سکول  ایک بھی نمایاں پوزیشن حاصل نہیں  کر سکا۔
ہمارا تعلیمی نظام دن بدن تباہ و برباد ہو رہا ہے، والدین ، اساتذہ ، افسر شاہی اور حکومت سمیت ہر کوئی خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے ،
کون بچائے گا کون اس پر توجہ دے گا ؟

موجودہ حکومت ؟ نہیں  وہ تو صرف ٹیکس ریکوری ٹیم ہے اس کو تو فرصت نہیں ۔۔

تعلیمی اداروں کے افسران اور اساتذہ؟۔۔ نہیں  ان کو کیا ضرورت ہے ان کے بچے تو پرائیوٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں۔سیاستدانوں کے بچے باہر ملکوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ،ارے کوئی تو نمک حلالی کرو ، کوئی تو اٹھو کوئی تو ان ماسٹروں سے پوچھو، کہ یہ سب کیا ہے ؟
وہ کیوں اپنے فرائض سے غفلت  برت  رہے ہیں۔صرف اس لیے کہ ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ،ان کی یونین بہت مضبوط ہے ،وہ ہڑتال کر دیں گے ،ان حالات میں وفاقی حکومت کو کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا ،وزیراعظم پاکستان ، عمران خان صاحب ۔۔
قوم تباہ ہو رہی ہے ، سرکاری تعلیمی ادارے تباہی و بربادی کا عملی نمونہ ہیں ،آپ ہی کچھ کرو ، احتساب صرف سیاستدانوں کا نہیں  ان اساتذہ کا بھی کرو ، یہ اپنے فرائض سے غفلت کیوں کر رہے ہیں ، ان کے سکولوں کا نتیجہ اچھا کیوں نہیں  آیا ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

میری درخواست ہے ارباب اختیار اور ذمہ دار ان  ادارہ تعلیم سے کہ جن سرکاری اسکولز کا رزلٹ خراب آئے ان کے پہلی سے دسویں تک سب ٹیچرز کا ایک گریڈ کم کیا جائے ،تین ماہ کی تنخواہیں روکی جائیں، پرنسپل کو عہدے سے ہٹا کر اسی سکول میں ٹیچر لگایا جائے  اس کے گریڈ کو کم کرکے۔سرکاری سکولوں اور تمام سرکاری محکموں کے اوپر سے نیچے تک سب ملازمین کو باؤنڈ کیا جائے کہ اپنے بچے صرف سرکاری سکولز میں پڑھائیں کسی پرائیوٹ سکول میں بچہ پڑھانے والوں کو بر طرف کر دیا جائے۔دیکھیں پھر کیسے سرکاری سکولوں میں پڑھائی کا سٹینڈرڈ کانونٹ جیسا ہوتاہے۔اور سرکاری ٹیچرز جو اتنی اتنی تنخواہیں لیتے  ہیں وہ بھی حلال کر کے کھائیں۔کاش اس پر سنجیدگی سے عمل ہو اس طرح معیاری تعلیم سب کی دسترس میں ہو گی  ۔جس ادارے کا ہیڈ بے ایمان ہو، فرض سے غفلت کرے ان اداروں کا وہی حال ہوتا جو ہمارے سرکاری سکولوں کا ہے ۔اندھیر نگری چوپٹ راج!

Facebook Comments

سجاد اعوان
Thinker,planner,ideologist, political & Social activist, public speaker, writer & true Pakistani.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سرکاری سکول اور نتائج ۔۔۔۔سجاداعوان

  1. Government schools have more potential to show their progress being funded by State and their faculty selection criteria is tough enough than private institutes. But due to corruption and lake of responsibility state institutes show least functionality. I can’t forget the moment when I obtained significant marks in my bachelor’s examination and I was announced as position holder instead I appeared as a private candidate , vice Chancellor demonstrated that a private student is getting highest marks , what were doing University lecturers and students during two years.

Leave a Reply to Safdar Cancel reply