امبیڈکر نے ہندو دھرم ترک کیوں کِیا؟۔۔۔۔ابھے کمار

اپنی وفات سے صرف دو مہینے قبل، دلتو ں و پسماندوں کے مسیحا اوربھارتی آئین کے معمار بابا صاحب امبیڈکر نے ہندو دھرم کو ترک کر دیا۔ 14 اور 15 نومبر 1956 کے روز ناگپور میں لاکھوں کی تعداد میں ان کے پیروکارجمع ہوئے۔ اس اجتماع میں امبیڈکر اور ان کےہزاروں پیروکار وں نے ایک ساتھ “بدھم شرنم گچھامی” کہا۔ تب سے لے کر آج تک لاکھوں لوگ بودھ بن گئے ہیں۔ 2011کی مردم شماری (Census) کے مطابق ملک میں 85 لاکھ بدھ مت کے پیروکار ہیں۔اس طرح ان کی آبادی کا تناسب کل آبادی کا0.7 فیصد ہے۔

آج جب کہ دیش ودنیا میں امبیڈکر کے62 ویں یوم وفات کے موقع پر خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔اس موقع پر ہم اگر ان کے مذہب سے وابستہ افکار و نظریات پر گفتگو کر یں، تو یہ بے محل نہیں ہوگا۔

سال 1936 میں بمبئی  میں منعقد ایک کانفرنس میں انہوں نے موجوع مذہب پر روشنی ڈالی۔ خیال رہے کہ یہ کانفرنس ناسک جلسہ کے ایک سال بعد منعقد ہوئی ۔ ناسک کانفرنس میں امبیڈکر نے سرِ عام یہ علان کیا کہ وہ اچھوت کا یہ” کلنک” اب اور نہیں جھیلیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ان پر اور دیگر اچھوتوں پر، چھوت چھات تھوپا گیا ہے اور اس نا انصافی کو ہندو مذہب واجب قرار دیتا ہے۔ لہذا اس سے نجات پانے کے لیے وہ ہندو مذہب ترک کر دیں گے اور اپنے پیروکاروں سے بھی تبدیلی مذہب (Conversion) کے لیے اپیل کریں گے۔

“میں ایک ہندو نہیں مروں گا “۔ امبیڈکر کے اس کھلےاعلان کے بعد ان کے ناقدین ان پر ٹوٹ پڑے۔قدا مت پسند اور برہمنی نونظریہ کے حامل لوگ سب سے زیادہ ناراض تھے اور اسے وہ ہندو سماج پر بڑا خطرہ مان رہے تھے۔ بہت سارے دلت بھی امبیڈکر کے اس فیصلہ سے امبیڈکر سے نا اتفاقی رکھتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ اچھوتوں کا مسئلہ ہندو سماج کے اندر ہی حل کیا جائے۔

گاندھی جی نے بھی امبیڈکر سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کی دلیل تھی کہ چھوت چھات پر تھا اور اچھوتوں کے دیگر مسائل کا حل تبدیلی مذہب ہرگزنہیں ہے ۔جب  امبیڈکر بمبئی کانفرنس میں بول رہے تھے تو بلاواسطہ و بالواسطہ انہیں سارے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔

مصنف: ابھے کمار

امبیڈکر کی پہلی دلیل یہ تھی کہ مذہب (Religion)کا اصل مقصد بھلائی (Good) ہوتا ہے ۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے کہ دنیا کے سارے مذاہب بھلائی کی بات کرتے ہیں، تو پھر مذہب کیوں بدلے؟ یہی سوال گاندھی نے بھی امبیڈکر کے سامنے کھڑا کیا۔ اس کا جواب امبیڈکر نے یہ کہہ کر دیا کہ بھلائی کی بات تو سب مذہب کرتے ہیں لیکن بھلائی کیا ہے اس پر سب متفق نہیں ہیں۔ امبیڈکر نے ہندو دھرم کی مثال دے کر سمجھایا کہ اس میں بھلائی کا تصور تو ہے، لیکن یہ بھلائی ذات پات و اونچ نیچ اور چھوت چھات کی مذمت کرنے کے بجائے ، ان سب کا دفاع کرتی ہے۔ اس لیےاچھوتوں کے لیے  ہندو دھرم میں رہنا غلامی کے مترادف ہے۔

ان کی دوسری دلیل یہ تھی کہ مذہب کا اصل مقصد سماجی زندگی (Social life)سے جڑا ہوتا ہے ، نہ کہ فوق الفظرت (Supernatural) پہلوؤں سے ۔اور جب انہوں نے ہندو دھرم کا موازنہ دیگر مذاہب سے کیا، تو پایا کہ یہاں تو اچھوتوں کے لیے نا انصافی ہی نا انصافی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ، امبیڈکر نے ہندو دھرم کو اچھوتوں کو ہندوسماج میں برابری دینے میں پوری طرح ناکام پایا۔ لہذا اچھوتوں کو اس استحصال شدہ زندگی سے نجات پانے کے لیے ہندو دھرم کو ترک کرنا ضروری قرار دیا۔ہندودھرم سے باہر جوبھی مذہب ، جو سماجی مساوات اور اخوت کے نظریہ کو فروغ دیتا ہو، وہ اچھوتوں کے لیے مناسب ہے۔

ان کی تیسری دلیل یہ تھی کہ اگر اچھوت ہندودھرم کو ترک کر دیتے ہیں تو ان پر تھوپی گئی عزلت   کی زندگی (Isolation) بھی ختم ہو جائے گی۔ یہ ذلت کی زندگی نہیں تو اور کیا ہے ؟ جب ہندوسماج میں اچھوتوں کو تالاب سے پانی نہیں بھرنے دیا جاتا ، ان کے گھر علیٰ ذات کے گھروں سے دور بسائےجاتے ہیں، ان کے ساتھ کھانے پینے سے گریز کیا جاتا ہے، شادی بیاہ کی بات پر مار پیٹ اور قتل کی نوبت آ جاتی ہے۔ اس الگ تھلگ کی زندگی کو الگ تھلگ کرنے کے لئے ، امبیڈکر نے اچھوتوں کو ہندو دھرم سے کنارہ کشی کی بات کہی۔
ان کی چوتھی دلیل یہ تھی کہ شہری حقوق( Citizenship rights) ضروری تو ہیں ، مگر ملت (Community)میں شمولیت بھی ضروری ہے۔ ایک خوش حال اور کامیاب زندگی کے لئے لوگوں کے درمیان بھائی چارے کا ہونا بھی ضروری ہے، جو کہ ملت سے ہی مل سکتی ہے۔ ملت میں شمولیت کا جو راستہ ہے وہ مذہب کا راستہ ہے۔لہذا امبیڈکر نے کہا کہ اچھوتوں کو ایسے مذہب میں داخل ہو جانا چاہئے جہاں یہ سارے اقدار پائے جاتے ہوں ۔

امبیڈکر کے مطابق، بھارت جیسے جمہوریت کی کامیابی کے لیے مختلف فرقوں، ملت اور ذاتوں کے حقوق کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے نزدیک کمیونیٹی رائٹس کی بڑی اہمیت ہے۔

جمہوریت کی جو تشریح کی ہے امبیڈکر نے دی اس میں کمیونیٹی رائٹس کافی اہم ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ جمہوریت میں حکومت سازی کا عمل اکثریتی ووٹ سے ہی طے ہوتا ہے مگر اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ اکثریتی حکومت اقلیتی طبقات کے مفادات اور اقتدار میں ان کی حصہ داری کو نظر انداز کردے ۔

جدید ہندوستان کے معمار اور آئین ساز ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی ان ساری باتوں کو آج فراموش کردیا گیا ہے۔ سیاستداں اور ارباب اقتدار جہاں ایک طرف اپنے آپ کو امبیڈکر کا سچا ‘مقلد’ بتاتے ہیں وہیں دوسری طرف اقلیتی طبقات کی حق تلفی کرنے سے بھی وہ گریز نہیں کرتے۔ حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ پارلیمنٹ میں مسلم اراکین کی تعداد آج 1957 کےبعد سب سے کم ہے۔ برسراقتدار بی جے پی مسلمانوں کو الیکشن میں ٹکٹ نہ دینے کی غیر اعلانیہ پالیسی اپنا رہی ہے اور اسے یہ کہنے میں ‘شرم’ محسوس نہیں ہوتی کہ بی جے پی ہندوؤں کی پارٹی ہے اور اس کی حریف کانگریس مسلمانوں کی۔ اس سے بی جے پی کا یہ ایجنڈا کھل کر سامنے آ جاتا ہے کہ ووٹروں کو مذہب کی بنیاد پر گول بند کیا جائے اور خود کو اکثریتی طبقے سے جوڑ دیا جائے تاکہ اس کی سیاسی اکثریت فرقہ وارانہ اکثریت میں تبدیل ہوجائے۔ اس طرح وہ ہندوستانی سیاست میں ناقابل شکست پارٹی کی حیثیت اختیار کر لے گی جو کہ امبیڈکر کی نظر جمہوریت کے لیے نہایت ہی مہلک اور خطرناک ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مضمون نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply