محبت کا الجھا ریشم ( ناول )۔۔۔۔۔۔رضوانہ سید علی/قسط2

دنوں میں یہی سوچتی رہی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔ لوگ ہمارے گھر میں کیوں جمع رہتے ہیں ۔ ابا کی چارپائی صحن میں کیوں پڑی تھی ؟ انہیں تو میں نے دن میں کبھی بستر پہ دیکھا ہی نہ تھا ۔ پھر سب لوگ انہیں اٹھا کر کہاں لے گئے ۔ شا ید میں سو رہی ہوں ۔ شاید یہ کوئی خواب ہے ۔ اٹھوں گی تو ابا کہیں سے ہنستے مسکراتے آ جائیں گے ۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا ۔ بلکہ ہماری مکان مالکن روز امی کو بہانے بہانے سنانے لگیں کہ اب تم اپنے باپ کے گھر چلی جاؤ، جوان بیوہ کا اکیلے رہنا ٹھیک نہیں ۔ وہ بہت دور اندیش تھی اور ایسا کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی جس سے اسکی آمدن پہ زد پڑے ۔ اس نے امی کی عدت ختم ہونے کا بھی انتظار نہ کیا اور بڑی حکمت سے ہمیں نانا کے گھر روانہ کر دیا ۔ نانا کا گھر کچھ ہی فاصلے پہ لب ِ سڑک واقع تھا ۔ یہ ایک خاصا بڑا مکان تھا اور ایل شیپ میں بنا تھا ۔ ایل بنانے والے حصے کو درمیانی دروازے بند کر کے باآسانی الگ کیا جا سکتا تھا اور اس حصے کا داخلی دروازہ پچھلی گلی میں کھلتا تھا جو صرف دو گھروں کے بعد ہی سڑک پہ آ نکلتی تھی ۔ اور گلی کا آخری گھر بالکل کسی بحری جہاز کے اگلے حصے کی طرح تکون تھا ۔ اس گھر میں میرے نانا ، چھوٹی خالہ اور چھوٹے ماموں اوپر والے پورشن میں رہتے تھے ۔ نانی تو امی کے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھیں ۔ بڑے ماموں فوج میں تھے اور کسی دور دراز چھاؤنی میں تعینات تھے ۔ چونکہ گھر کافی بڑا تھا اس لیے اس کا زیادہ تر حصہ کرایے پہ اٹھا دیا گیا تھا ۔ ایل شیپ حصے میں موٹی آپا رہتی تھیں ۔ انہیں نانا نے مکان خالی کرنے کو کہہ تو دیا تھا مگر انہیں کچھ مدت درکار تھی کہ نیا مکان ڈھونڈیں پر ہماری مکان مالکن کی بے صبری نے سب کچھ الٹ پلٹ کر دیا ۔

ہمیں کچھ دن نانا کے پورشن میں ہال کمرے میں رہنا پڑا پھر موٹی آپا نے ہمیں اپنے پورشن کے اوپر والے کمرے میں جگہ دے دی ۔ موٹی آپا بہت ہی محبت کرنے والی تھیں ۔ چھوٹے ماموں کو انہوں نے پہلے ہی اپنا بیٹا بنا رکھا تھا ۔ اب وہ امی پہ اور ہم بچوں پہ بھی اپنی شفقت لٹانے لگیں ۔ ان کا دنیا میں ایک بھائی کے سوا کوئی نہ تھا ۔ بھائی بہت مالدار اور مشہور شخصیت تھا ۔ وہ ایک ادبی رسالہ نکالتا تھا ۔ جس کے پورے برصغیر میں چرچے تھے ۔ گل بیگم کے باغ میں اسکی بہت بڑی حویلی تھی ۔ پیچھے سے یہ لوگ کھاتے پیتے زمیندار تھے ۔ جانے کیوں آپا بھائی کے ساتھ رہنے کے بجائے الگ رہتی تھیں ۔ پر بھائی روز ان سے ملنے آتا تھا ۔ ساتھ میں ملازم روز مرّہ سامان کے ٹوکرے اٹھائے آتا اور گھر کے بہت سے کام بھی نمٹا دیتا ۔ آپا تو بس ایک بڑی سی پیڑھی پہ بیٹھی رہتیں ۔ سامنے چولہے پہ چائے کھولتی رہتی ۔ ان کے پاس ہر وقت کوئی نہ کوئی آیا رہتا ۔ اور آپا ہر آنے جانے والے کے ساتھ خود بھی چائے پیتیں اور حقہ گڑگڑاتی رہتیں ۔ آپا نے ایک خرگوش بھی پال رکھا تھا ۔ برف جیسا سفید ۔ آنکھیں اتنی سرخ جیسے انار کے دانے ۔ ہم زیادہ تر اسی سے کھیلنے کے لیے آپا کے کمرے میں گھسے رہتے تھے ۔

ایک سہ پہر میں اس خرگوش سے کھیلنے کے لیے آپا کے کمرے میں گئی تو ان کا بھائی سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی کے قریب آرام کرسی پہ نیم دراز ، اپنی سنہری موٹھ والی چھڑی گھما رہا تھا ۔ اسکی انگشتریوں کے نگینے کھڑکی سے آنے والی دھوپ میں جگمگا رہے تھے ۔ اس نے چست برجس اور فل بوٹ پہن رکھے تھے ۔ اسکی باریک ، نوکدار مونچھیں کاجل سے بنی محسوس ہوتی تھیں ۔ آپا کے دیوار کے ساتھ لگے بڑے سے پلنگ کے ایک کونے میں ایک بہت خوبصورت عورت بڑے اسٹائل سے سمٹی سی بیٹھی تھی ۔ اس نے بڑے بڑے سرخ گلابوں والی سفید ساڑھی باندھی ہوئی تھی اور اسکے سیاہ بال شانوں پہ پڑے تھے ۔ آپا کا بھائی ہنس ہنس کر اس سے باتیں کر رہا تھا ۔ آپا بھی مسکرا مسکرا کر چائے پھینٹ رہی تھیں ۔ وہ عورت بولی تو اسکی آواز مردوں جیسی بھاری تھی ۔ میں کچھ دیر دروازے پہ ٹھٹھکی کھڑی رہی پھر ایک تو آپا نے چمکار کر بلایا ۔ دوجے خرگوش کو دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا جو بید کی ٹوکری میں بیٹھا بند گوبھی کے پتے چبا رہا تھا ۔ میں سیدھی اسکی طرف گئی اور پتے اٹھا اٹھا کر اسے کھلانے لگی ۔ اچانک کھڑکی کی طرف سے آواز آئی ۔ ” ذوالفقار ! ” آپا کا بھائی تو جیسے اچھل پڑا ۔ آپا کے ہاتھ میں حقے کی نے کپکپا گئی اور وہ عورت مزید سمٹ کر دیوار کے ساتھ جا لگی ۔
” تم منجو ؟ تم یہاں کیسے ؟ ” ذوالفقار ہکلایا ۔
” ہاں میں ۔ پر تمہارے ساتھ کون ہے ؟ ”
یہ ذوالفقار کی بیوی تھی جو سڑک کے کنارے گاڑی کھڑی کر کے جانے کب کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی تھی اور سلاخیں تھام پر چیل سی آنکھیں گھمانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ کچھ دن پہلے ہی امی منجو سے اسی کمرے میں مل چکی تھیں اور آپا نے اس کے جانے کے بعد امی کو اسکی کہانی سنائی تھی ۔ آپا کے بھائی ذوالفقار کی پہلی شادی چچا زاد سے ہوئی تھی ۔ اس سے پانچ بچے تھے پر ذوالفقار بس گزارہ ہی کر رہا تھا ۔ کیونکہ اس دیہاتی عورت کے ساتھ اس کا مزاج نہ ملا تھا ۔ بس باپ کے حکم پہ سر جھکایا تھا اور اسی کو نبھا رہا تھا ۔ منجو سے اسکی ملاقات ہسپتال میں ہوئی تھی ۔ جہاں وہ اپینڈکس کے آپریشن کے لیے داخل ہوا تھا اور منجو وہاں سٹاف نرس تھی ۔ جانے کب کیوپڈ کا تیر چل گیا اور مذہب ، معاشرہ ، بیوی بچے کوئی بھی ان کی راہ نہ روک سکا ۔ ذوالفقار نے منجو سے شادی کر لی ۔ علیحدہ فلیٹ لے کر دیا ۔ گاڑی خرید دی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے منجو بھی دو بچوں کی ماں ہو گئی ۔
” تم نے بتایا نہیں ۔ کون ہے ؟ کس سے باتیں کر رہے ہو ؟؟ ” منجو نے پھر پوچھا ۔
” آپا سے ۔۔ اور کس سے کروں گا ۔ ” ذوالفقار ہنس کر بولا ۔” اچھا ؟ پھر چائے کی تین پیالیاں کیوں ؟ ”
ذوالفقار کے چہرے پہ کئی رنگ آ کر گزر گئے ۔ سنبھل کر بولا ۔
” ارے یہ بچی بھی تو ہے ۔ ”
” تم مجھے پاگل سمجھتے ہو ؟ ” منجو چلائی ۔ ” آپا ! خدا کے لیے تم ہی کچھ بتا دو ۔ کمرے میں آخر اور کون ہے ؟ “جب آپا کچھ نہ بولی تو وہ کہنے لگی ۔ ” ذولفقار ! میں دروازے سے آ رہی ہوں ۔ تمہیں قسم ہے جو کوئی بھی تمہارے ساتھ ہے اسے بھگا مت دینا ۔ ذرا میں بھی تو دیکھوں تمہارا نیا انتخاب ۔ ”

جونہی اس نے کھڑکی چھوڑی وہ عورت بجلی کی طرح پلنگ سے اٹھی اور بھاگ کر سیڑھیاں چڑھ گئی جو اوپر ہمارے کمرے کو جاتی تھیں ۔ شاید وہ جانتی تھی کہ باہر نکلی تو منجو اسے آ لے گی ۔ منجو آندھی طوفان کی طرح اندر آئی اور کمرے میں بھونچال اٹھا دیا ۔ چائے کی پیالیاں ٹھوکروں سے چور چور کر دیں ۔ چائے کی کھولتی ہوئی دیگچی الٹ دی ۔ آپا اور میں جلتے جلتے بچے ۔ کمرے اور ڈیوڑھی کو خالی پا کر وہ سیڑھیوں کی طرف لپکی پر ذوالفقار نے اسے جکڑ لیا ۔ ” تم گھر چلو ۔ چلو تو سہی ، میں تمہیں سب بتا دوں گا ۔ ” منجو پہلے ترلے منتیں کرتی رہی پھر گالیوں پہ اتر آئی پر وہ اسے کھینچ  کھانچ کر باہر لے ہی گیا ۔ شور شرابہ سُن کر امی نیچے اتریں اور سیڑھیوں میں دبکی عورت کو حیرانی سے دیکھتی ہوئی آپا کے پاس آ گئیں ۔ جونہی اس عورت کو اندازہ ہوا کہ خطرہ ٹل گیا ہے وہ لپک جھپک اتری اور باہر نکل گئی ۔ آپا محجوب سی بیٹھی رہ گئیں ۔ امی نے خاموشی سے ان کے کمرے کی صفائی کر دی ۔

آنے والے دنوں میں آپا نے امی کو ساری رو داد سنا دی ۔ اس عورت کا نام رشیدہ تھا ۔ وہ شادی شدہ اور چار بچوں کی ماں تھی ۔ کافی اچھی شاعری کرتی تھی اور ذوالفقار سے اسکی دوستی ادبی محفلوں میں ہوئی اور بڑھتے بڑھتے محبت میں تبدیل ہو گئی ۔ آنے والے دنوں میں منجو اور بڑی بیگم نے مشترکہ محاذ بنایا جو بے فائدہ رہا ۔ منجو نے خود کشی کی ناکام کوشش کی پر وہ بھی بے اثر رہی ۔ رشیدہ کے میاں نے بھی بہت دہائیاں دیں پر ادب کے متوالے اور شاعرہ کا ملاپ ہو کر رہا ۔

عشق و محبت کی داستانوں سے یہ میرا پہلا باقاعدہ تعارف تھا ۔ بہت جلد عشق محبت کی ایک اور داستان میرے سامنے آئی ۔ امی کی ایک سہیلی ماہ گل تھیں جنہیں سب ہمایوں کی امی کہتے تھے ۔ ان کے میاں نے ان سے پسند کی شادی کی تھی پر ادھیڑ عمری میں اپنی نوکرانی سے دل لگا بیٹھے ۔ اس قصے سے پہلے ہمارے گھر کی روداد بھی سن لیجیے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

( جاری ہے ۔)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”محبت کا الجھا ریشم ( ناول )۔۔۔۔۔۔رضوانہ سید علی/قسط2

  1. بہت ہی خوبصورت اور موزوں الفاظ کے انتخاب کے ساتھ۔ رضوانہ سید علی کے ہاں کہانیوں کا خزانہ موجود ہے جو وہ بلا تعطل لکھتی چلی جاتی ہیں ۔ دل کر رہا ہے ایک ہی نشست میں پورا ناول پڑھ ڈالوں۔

  2. بہت خوبصورت اور موزوں الفاظ کے انتخاب کے ساتھ ۔رضوانہ سید علی کے ہاں کہانیوں کا خزانہ موجود ہے جو وہ بلا تعطل لکھتی چلی جاتی ہیں دل کر رہا ہے ایک ہی نشست میں پورا ناول پڑھ ڈالوں ۔

Leave a Reply