ہم جنسیت اور اسلام۔۔۔۔۔۔۔سلیم جاوید/قسط2

خدا نے مرد اور عورت کے جوڑے سے کائنات کو چلایا ہے۔ تاہم ہر مرد میں کچھ نہ کچھ نسوانیت اور ہر عورت میں تھوڑا بہت مردانہ پن ہوا کرتا ہے۔جسمانی بھی اور روحانی بھی(جسے آپ نفسیاتی کہہ لیں)۔کامل یعنی سوفیصد مرد و عورت بہت کمیاب ہیں۔اگر کوئی  کامل مرد ہو یا کامل عورت ہو تو وہ عمر کے کسی حصے میں بھی اپنی جنس مخالف سے نہیں اکتائے گا۔کہا جاتا ہے کہ انبیاء کرام، کامل مرد ہواکرتے ہیں۔

مغربی دنیامیں علمی تحقیق کا ذوق اور ذرائع وافر میسر ہیں۔ چنانچہ اس موضوع پربھی کما حقہ ریسرچ ہوچکی ہے۔ مکمل عورت اور مکمل مرد کے درمیان موجودبنی آدم کی مختلف انواع کو الگ الگ نام دیئے گئے ہیں۔ جوحضرات تفصیل کے خواہشمند ہیں، وہ انٹرنیٹ پرگوگل کرسکتے ہیں۔ خاکسار کا مقصدایک عمومی آگاہی دینا اوراپنا موقف پیش کرنا ہے تو سادہ الفاظ میں چند موٹی موٹی باتیں عرض کرے گا۔

جسمانی یا فزیکل لحاظ سے، مذکر اور مونث کی درمیانی صنٖف کو انگریزی میں شی میل اور عربی میں مخنث کہتے ہیں۔ اردو میں خواجہ سرا اور ہمارے عموم میں انکو ہیجڑےکہا جاتاہے۔اگر یہ تخلیط نفسیاتی ہو تو اسے انگریزی میں “گے” کہا جاتاہے جبکہ ہمارے ہاں ، قوم لوط کے نام پر، انہیں لوطی کہتے ہیں۔(بعض احباب “لوطی” کا نام اچھا نہیں سمجھتےکیونکہ اسکی نسبت حضرت لوط کی طرٖف ہے۔ جبکہ یہ فعل، حضرت لوط کی قوم”سدوم” سے منسوب ہے۔ میری بھی یہی رائے ہے مگر مذہبی ادب میں اسے لواطت ہی کہا گیا ہے۔ البتہ انگریزوں نے اسے سدومیت کا نام دیا ہوا ہے یعنی سوڈومی)۔
ہمارے عرف میں ایسے نامکمل لوگوں کے لیے کچھ خاص اصطلاحات ہیں۔جسمانی معذروں میں خسرے اور نامرد ہوا کرتے ہیں جبکہ نفسیاتی معذورین میں زنخا اور لوطی ہوا کرتے ہیں۔
پہلے ہم جسمانی معذورین کی بات کرلیتے ہیں اور اسکے بعد نفسیاتی معذورین کی۔

خسرا(کھسرا)، وہ فیزیکل ابنارمل ہوتا ہے جو نامکمل مرد پیدا ہوتا ہے۔ نامکمل عورت پیدا ہونے والی کو کھسری کہتے ہیں۔یہ ایسے ہی جسمانی معذوری ہے جیسا کہ صرف تین انگلیوں والا بچہ پیدا ہوجائے۔ ان میں جذبات تو ہوتے ہیں مگر جسمانی نقص کی بنا پر شہوت کی تکمیل سے قاصر ہوتے ہیں۔ ایک مادر زاد اندھا، پیدائشی لنگڑا یا قدرتی گونگا بہرا انسان بھی وہ ساری چاہتیں رکھتا ہے جو کہ جسمانی طور پر مکمل انسان کو ودیعت کی گئی ہوتی ہیں۔ بس یہ کہ انکی جسمانی معذروی آڑے آجاتی ہے۔دیگر جسمانی معذورین کی طرح، کھسراکھسری بھی اپنی جسمانی ساخت نہیں چھپا سکتے ہیں۔

مشرقی سماج میں معذور بچوں کو دیکھ کرناک بھوں چڑھانے والا شخص، بداخلاق گنا جاتا ہے مگرکھسرے کو دیکھ کراس پرآوازے کسے جاتے ہیں حالانکہ یہ بھی تو معذور ہی پیدا ہوا ہے۔
قدرت کی ستم ظریفی کی ماری ہوئی  یہ مخلوق، کرہ ارض میں ہر جگہ پائی  جاتی ہے لیکن، جسقدر راندہ درگاہ، بےکس و مجبور یہ مسلم دنیا میں ہے، شاید ہی کہیں اور ہوگی۔کیا بے کسی ہے کہ کسی بچے کو اپنے سگے والدین بھی اپنانے سے انکاری ہوجائیں۔وہ بھی ایک ایسے جرم میں جسمیں اس بچہ کا کوئی  ہاتھ نہیں۔

یادش بخیر! پاکستان میں جب خواجہ سراؤں کو کمپیوٹرایزڈ شناختی کارڈ نہیں ایشو کیے جارہے تھے تو اس پر سپریم کورٹ نے سرزنش کی تھی۔جس کے جواب میں “نادرا” والوں نے یہ مجبوری ظاہر کی تھی کہ کوئی  انکی ولدیت قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اسوقت کے صدر پاکستان ،آصف زرداری صاحب نے فرمایا کہ انکے والد کے طور پر صدرپاکستان لکھ دیا جائے۔ ۔گمان کرتا ہوں، شاید یہی بات، زرداری صاحب کی مغفرت کو کافی ہوجائے۔۔کہ رحمتِ حق” بہا” نہ می جوئد،” بہانہ” می جوئد۔

یورپ کے کفار کو انسانیت کے احترام کا درس پڑھایا جاتا ہے – وہ لوگ انسانی جذبات بارے اس قدر حساس ہیں کہ اب معذور بچوں کو”سپیشل بچے” کہہ کرپکارتے ہیں۔ اسلام ، انسانی اقدار کا کہیں زیادہ علمبرادر مذہب ہے مگر جب ہمارے پڑھے لکھے مذہبی دوست، ہیومنزم کو اسلام کے مقابل کفرقراردیں اور مولوی خادم رضوی جیسے لوگ برسرمنبریہ بیان کریں کہ “کس نے کہا کہ اسلام امن کا مذہب ہے؟۔ (اور پھر اس قوم سے 22 لاکھ ووٹ بھی وصول کر لیں) توہم کس منہ سے اسلام کو انسانیت نواز دین منواسکتے ہیں؟۔

مجھے یہ جان کرحیرت ہوئی کہ حالیہ اعداد وشمار کے مطابق، 10 فیصد بچے جسمانی طور”انٹرسیکٹ” یا، شی۔میل کی کیٹگری میں آتے ہیں یعنی ہر10 افراد میں سے ایک فرد ایسا ہوتا ہے۔ اس ناقابل یقین خبرکی تفصیل یہ ہے کہ بعض شی۔ میل کی شناخت صرف کروموسومز کی بنیاد پرہوتی ہے اورظاہرا” اسکا پتہ نہیں چلتا۔(یوں سمجھیے کہ کسی نا کسی طرح کام چل جاتا ہے)۔ مجھے اندیشہ ہے کہ الم غلم غذاؤں کے نتیجے میں مستقبل میں یہ تعداد بڑھتی جائے گی۔ بہت ضرورت ہے کہ ان معذور انسانوں کی فلاح بارے سوچا جائے۔ یہ سوچنا اصل میں علماء کا کام ہے مگرظاہر ہے کہ انہوں نے اسکے الٹ ہی کرنا ہے۔ گستاخی معاف، مولوی حضرات کی اکثریت کا حال دیکھ کریوں لگتا ہے کہ علمائے اسلام میں بھی ادھورے لوگ پیدا ہوگئے( اشارہ کافی ہے)۔

برادران ِکرام۔
ہیجڑے بھی آدم کی اولاد اور ہمارے نبی کے امتی ہیں۔ بوجوہ، میں یہ تجویز نہیں کرسکتا کہ انکے ساتھ ربط ضبط ضرور بڑھایا جائے( کیونکہ ابھی اس کمیونٹی کی تربیت نہیں ہوئ۔طرفین کو ڈھپ پرآنے میں وقت لگے گا)، تاہم یہ گذارش ضرور کرتا ہوں کہ بحیثیت انسان اور بالخصوص بحیثیت مسلمان، ہمیں زیب نہیں دیتا کہ اس جنس کو کمتر مخلوق سمجھ کرانکی توہین کریں۔
تبلیغی جماعت کی نصابی کتاب “فضائل صدقات ” میں سلف صالحین سے ایک واقعہ منقول ہے۔راوی کہتے ہیں میں نے ایک بار رات کے وقت یہ دیکھا کہ ایک جنازہ جا رہا ہے جس کو تین کونوں سے مرد حضرات نے جبکہ ایک پائے کو ایک عورت نے سہار رکھا تھا۔جنازے کے ساتھ کوئی  اور نہیں تھا۔مجھے بڑی حیرت ہوئی۔میرے استفسار پہ عورت نے بتایا کہ مرنے والا میرا بیٹا ہے جو کہ مخنث تھا، پس لوگ اسکے جنازے میں شرکت سے گریزاں ہیں۔راوی کہتے، مجھے بڑا ترس آیا، اور عورت کی جگہ میں نے کندھا دیا۔اگلی رات میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ ، جنت میں ایک تخت پہ ایک بہت حسین نوجوان بیٹھا ہے، جس نے بتایا کہ وہی خواجہ سرا ہوں۔میں نے پوچھاکہ تمہیں یہ اعزاز کس عمل پہ ملا؟ تو اس نے کہا کہ خدا نے مجھے اسی پہ بخش دیا کہ دنیا میں لوگ مجھے حقیر سمجھتے تھے۔

سوسائٹی کا مزاج تبدیل کرنا، علماء کا کام ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ معاشرے کے ان راندہ طبقات پہ کسی این جی او یا کسی قومی لیڈر نے نہیں، بلکہ تبلیغی جماعت نے شفقت کا ہاتھ رکھا، انکو سوسائٹی کے مین سٹریم دائرے میں لائے اور سنا ہے، کراچی میں ایک مدرسہ صرف، ان لوگوں کے واسطے ہے۔(بوجوہ، خاکسار تبلیغی جماعت کی اس ایکٹویٹی کی مکمل حمایت نہیں کرتا)۔
مگرتبلیغی جماعت کی محنت کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کمیونٹی کی معاشرت اور معیشت دونوں بارے فکرکرنا، اہل دانش اور ارباب حکومت کی ذمہ داری ہے۔ہائے کیا عرض کروں کہ کسی زمانے میں اہل دانش کا مطلب، علمائے اسلام ہی ہواکرتا تھا۔

کسی انسان کی معاشرت یعنی لائف سٹائل اور اسکی چاہتوں کا پورا ہونا تو ضمنی بات ہے، مگرمعاش یعنی روزی روٹی ہی ہرآدمی کا پہلا تقاضہ ہوتا ہے۔ مخنث لوگوں کو چونکہ اسلام سے قبل بھی ذلیل سمجھا جاتا تھا چانچہ روزی روٹی کمانے کے سب دروازے ان پربند ہوتے تھے۔ اخیرحربہ وہی رہ جاتا ہے یعنی اپنے جسم کوبیچنا۔

مسلم معاشروں میں البتہ، علمائے سلف کی نصائح کے مطابق، سلاطین اور امراء انکو نوکررکھاکرتے تھے اور زنان خانے کی پیغام رسانی پر انکی ڈیوٹی لگاتے تھے جوانکے لیے  باعزت روزگار کا سبب ہوجاتا تھا۔ضرورت ہے کہ سالانہ نفلی حج کرنے والےمقتدر شیوخ، اپنی آخرت کی خاطر، ان درماندہ طبقات کے درد کا مداوا کریں اورانکے لیےباعزت روزگار کے ذرائع پیدا کریں۔ انٹرنیٹ کے آنے کے بعد، آن لائن بزنس میں ایسوں کو کھپایا جانا آسان ہے۔ مجھے یقین ہے کہ نارمل بے روزگاروں کی بجائے ایسے معذور لوگوں کی امداد زیادہ اجر کا باعث ہوگی کہ اس سے سماج کو ہمہ جہت فائدہ ہوگا۔

معیشت کے بعداگلا سٹیپ انکی معاشرتی بحالی کا ہے۔ مگر اس سے بھی پہلے انکی جسمانی بھوک کا انتظام کرنا ہے۔
ہر انسان کو خدا کی طرف سے جنسی خواہش ودیعت کی گئی ہے۔ اسکو سلامتی سے پورا ہونا چاہیے۔ جب نامکمل مرد وعورت کو اپنی جنسی خواہش کی تکمیل میں جسمانی ادھورا پن آڑے آتا ہے تو وہ غلط راستے پہ چل پڑتے ہیں اور اپنے لیے اور سوسائٹی کیلئے ضرر کا باعث بنتے ہیں۔ دیکھیے ، جس خدا نے ادھورا بندہ یا ادھوری بندی پیدا کی ہے مگر اسکے اندر پیٹ اور شرمگاہ کی بھوک بھی رکھ دی ہے تو اسکے پورا کرنے کا انتظام بھی کرنا ہوگا یا نہیں؟۔ انسان چاہے پورا ہو یاادھورا، اسکے پیٹ اور شرمگاہ کی بھوک کو مٹانے کا”لیگل راستہ” تلاش کرنا ہی اہلِ  دانش کا کام ہے۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس میں بھی اصلاً  مولوی صاحبان رکاوٹ بنے ہوئے ہیں (اپنی کم نگاہی کی وجہ سے)۔

میڈیکل سائنس کی موجودہ ترقی کے پیش نظر، نامکمل مردیا عورت کو مکمل کیا جاسکتا ہےـچھوٹا بڑا آپریشن بھی کیا جاسکتا ہے اور کسی دوسرے فرد( یا میت) کے آرگن بھی ٹراسپلاٹ ہوسکتے ہیں۔ مگر سماج میں جب ایسے مولوی موجود ہوں جو عورت کے بھنویں بنانے کو فطرت میں مداخلت کہہ کرحرام قرار دیں تو تبدیلی جنس کے آپریشن کوکیسے ٹھنڈے پیٹوں گوارا کرسکتے ہیں؟۔حالانکہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایسے آپریشن، تبدیلی ءجنس نہیں بلکہ تکمیلِ  جنس کیلئے ہواکرتے ہیں۔

ایسے آپریشن کافی مہنگے پڑتے ہیں اور غریب پاکستان حکومت یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ تاہم اربوں کا ٹیکس چوری کرنے والے وہ سیٹھ ضرور یہ بار اٹھا سکتے ہیں جومولوی کے کہنے پرکروڑوں روپے خیرات کیا کرتے ہیں۔ کاش کہ کوئی مولوی صاحب، اس انسانی قضیہ پرریسرچ کرکے بلاوجہ کی شرعی رکاوٹ دور فرمائے۔

اس کمیونٹی کے معاشی اورمعاشرتی مسائل کا ایک اور حل بھی ہے اور اس میں بھی مولوی صاحب کی ہٹ دھرمی حائل ہے۔
کھسرا اور کھسری کی آپس میں شادی کرائی  جاسکتی ہے۔ اس میں کیا شرعی ممانعت ہے؟۔ جنسی عمل صرف مباشرت کا نام نہیں۔ جنسی آسودگی اور وہ بھی قانونی طریقے سے حاصل ہوجائے توبہت بڑا کام ہوجائے گا۔ منبر مولوی صاحب نے پاس ہے اور ذہن سازی کرنا اسکا منصب ہے پس یہ بات آگے بڑھائے گا تو ہی سماج اس بارے سوچے گا۔

اس کمیونٹی کو ایڈجسٹ کرنے کا ایک تیسرا حل بھی ہے۔
ہمارے سماج میں کتنے ہی قوت شہوانی رکھنے والے مرد موجود ہیں جن کی بیوی انکی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ غربت کی وجہ سے یا دیگروجوہ سے، وہ دوسری شادی کے متحمل بھی نہیں ہوسکتے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ ایک ایک بے پناہ جنسی قوت رکھنے والا مرد، اگر نامکمل عورت (کھسری) سے شادی کرلے تو اس میں کوئی  شرعی قباحت نہیں ہے۔ اخلاقی طور پرالبتہ یوں ہے کہ پہلی شادی، مکمل عورت سے کرنا چاہیے۔ کیا معلوم ، خدا نے چار شادیوں کی اجازت میں ایک حکمت ایسوں کو ایڈجسٹ کرنے والی رکھی ہو۔ ایسی شادی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ وراثت وغیرہ تقسیم ہونے سے بچ جائیگی۔

نکتہ نوٹ کیجئے: اگر ایک مرد، کسی” کھسرے” سے شادی کرلے تب بھی اسکو “سیم سیکس میرج” نہیں کہا جائیگا مگر میں نے احتیاطاً  کھسری کا ذکر کیا ہے جو عورت کے حکم میں داخل ہوجاتی ہے۔
ہماری سوسائٹی میں کتنی مطلقہ، بیوہ وغیرہ تنہا خواتین ایسی موجود ہیں جن کو نہ تو خرچے کا مسئلہ ہوتا ہے اور نہ انکو جنسی مباشرت کی تڑپ ہوتی ہے یا دوسری صورت میں عورت کی بدصورتی یا بیماری کی وجہ سے کوئی  مرد اس سے دوسری شادی کرنے کو  تیار نہیں ہوتا۔ یہ عورت مگربوجوہ تنہا رہنا نہیں چاہتی اور اپنے سر کا سایہ چاہتی ہیں چاہے براہ نام مرد ہی کا ہو۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک ایسی عورت اگر ایک نامکمل مردیعنی کھسرے سے شادی کرلے تواس میں شرعا” کیا ممانعت ہے؟۔( اس پہ اسلامی نظریاتی کونسل یا پارلیمنٹ ہماری راہنمائی کرے)۔

نکتہ نوٹ کیجئے: اگر ایک عورت ، کسی ” کھسری” سے شادی کرلے تب بھی اسکو “سیم سیکس میرج” نہیں کہا جائیگا مگر میں نے احتیاطاً  کھسرے کا ذکر کیا ہے جو مرد کے حکم میں داخل ہوجاتا ہے۔
دراصل، ہمارے ہاں کھسروں بارے ایک ہی تاثر ہے کہ وہ “گے” ہواکرتے ہیں۔ حالانکہ “گے” ہونا ایک الگ کیس ہے جسے ان شاء اللہ آگے ڈسکس کریں گے۔ فزیکل کھسرے میں پورے مرد اور پوری عورت والی ساری خواہشات موجود ہوتی ہیں، بس وہ اس کو کماحقہ پورا کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ چنانچہ اکثر فیزکل کھسرے مجبوراً ” گے” بن جاتے ہیں کیونکہ سوسائٹی نے عزت وتکریم ہی کےنہیں بلکہ معاش کے بھی سب دروازے ان پربند کردئے ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ٹرانسجنڈرز یعنی مخنث بارے مختصر بیان آج ہوگیا ہے مگرجنسی فزیکل ابنارملٹی کی ہی ایک دوسری صورت بھی ہوتی ہے یعنی “نامرد” ہونا جسکا بیان اگلی قسط میں ان شاء اللہ۔اسکے بعد ” زنخا” اور”لوطی” کی بات ہوگی۔
(جاری ہے)۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply