بر صغیر کا المیہ۔۔۔۔اجمل صدیقی

جغرافیہ انسان کی تقدیر ہے جس کے بطن سے اسا طیر اور مذاہب پیدا ہوئے ہیں، مصر کی سر زمین پر Decomposition کا عمل سُست رو ہوتا ہے، اس نے دوبارہ زندہ ہونے resurrection کے تصور کو تقویت دی، حنوط کر نے کا فن پیدا کیا ،نیل پر حیوانات کا جم غفیر رہتا تھا، اس نے وہاں حیوان پرستی theriomorphism کو جنم دیا۔ عرب میں ریت اور صحرا کی یکسانیت نے وحدت کے تصور کو مہیج کیا ۔ بر صغیر میں شدید گرمی ہے اور شدید گر می نے منفی اور فراری escapist تصور ِحیات کو جنم دیا۔ بڑے بڑے دریاؤں ،صحراؤں، آسام کے جنگلات, ہمالیہ کے مہیب پہاڑ ،سندھ کا ہیبت ناک دریا … ان مظاہر فطرت کے رعب اور جلال نے انسان کو پست ہمت کر کے ان کو تحقیق وتسخیر کی بجائے ان کی پر ستش پر مائل کردیا ۔ فطرت کا خوف تجسس کی بجائے خوف پر منتج ہوا۔ دریاؤں  کے کنارے تاجر ہوتے ہیں  ۔پہاڑوں  پر رہنے  والے بہترین فوجی ہوتے ہیں ۔جغرافیہ ہمارا رحم ہے یہی ہماری قبر ہے۔ بہادر شاہ ظفر ایک خالص ہندوستانی  بابے کی طرح مرا تھا ۔۔ظہیر الدین بابر میں منگول روح جوان تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انسان مظاہر فطر ت سے مرعوب ہو کے مذہب کا پجاری ہوکر رہ گیا، اس کے ساتھ خطے زر خیزی نےاسے حملہ آوروں کی جنت بنادیا ۔اس کی زرخیزی نے ان کو تساہل پسند بناکر حملہ آوروں کا رستہ ہموار کردیا۔
آزادی ،تحقیق ،اور مسرت یہاں کی اقدار ہی نہیں ،یہا ں کا سب سے عظیم انسان بدھا بھی عقل اور خوشی کا دشمن ہے۔۔
نروان جیسی شخصیت کش اور منفی اخلاقیات کا پرچار ک ہے۔ خواہش سے فرار وقتی یا ابدی ۔۔ موسموں کی گھٹن کا مابعد الطبیعاتی اظہار ہے۔
خداؤں کی کثرت ِاوہام اور خوف کی شدت کا نتیجہ ہے۔جو شدید موسموں کے سامنے بے بسی کا بھجن ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply