میٹرک فیل سے ٹی ٹی پاس تک ۔۔۔حسن نثار

آج کچھ ’’نان سیریس‘‘ اور ہلکی پھلکی باتوں پر ہی اکتفا کریں گے جس کا آغاز میں اپنے آبائی شہر لائل پور سے کروں گا جسے جہالت کی ’’سازش‘‘ نے فیصل آباد بنا دیا، حالانکہ شہروں، شاہراہوں، باغوں وغیرہ کے نا م تبدیل کرنا کم ظرفی ہی نہیں تاریخ تبدیل کرنے کی بھونڈی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ لائل پور کا تازہ ترین لطیفہ انجوائے کریں کہ خود میٹرک کے امتحان میں فیل قرار پانے والے وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی برائے کھیل ملک عمر فاروق تعلیمی بورڈ فیصل آباد کے پوزیشن ہولڈر بچوں میں انعامات تقسیم کرتے رہے۔ دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ ’’معاون خصوصی‘‘ نے بھی اس سال میٹرک کا امتحان دینے کے لئے داخلہ بھجوایا تھا مگر سیاسی مصروفیات کی وجہ سے امتحان میں شریک نہ ہوسکے۔ اسی عدم شرکت کی وجہ سے بورڈ نے انہیں فیل قرار دے دیا لیکن یہی میٹرک فیل پوزیشن ہولڈرز کو انعامات ہی نہیں شاباش بھی دیتے رہے کہ خیر سے یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ معاون خصوصی کے لئے میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اگلی بار میٹرک کا امتحان ضرور دے، پھر ایف اے، بی اے اور ایم اے تک بھی جائے کہ حصول علم کے لئے کوئی ’’عمر قید‘‘ نہیں۔ میں یہ بات تفریحاً یا شغلاً نہیں پوری سنجیدگی سے لکھ رہا ہو۔ ایک سیاسی ورکر کے طور پر عمر فاروق کو اپنے حلقہ میں رول ماڈل بن کر اہل علاقہ کو موٹی ویٹ اور انسپائر کرنا چاہیے۔ میری دعا ہے کہ جواں سال عمر فاروق چند سال کے اندر اندر اک شاندار مثال بن کر ابھرے کہ یہ اس کے اپنے سیاسی کیریئر کے لئے بھی بہت بہتر ہوگا۔ میرے اسی لائل پور میں بھٹو فیم بڑے بڑے برج الٹا دینے والے الیکشن میں اک کردار منظر عام پر ابھرا جس کا نام حلیم رضا تھا۔ ریگل سینما کے سامنے نکڑ پر دوائوں کی اک چھوٹی سی دکان کا مالک ہونے کی وجہ سے یہ بھلا مانس ڈاکٹر حلیم رضا کہلاتا تھا۔ سو پیپلز پارٹی کا صوبائی ٹکٹ ملنے پراس نے ڈاکٹر حلیم رضا کے نام سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو کسی جلسہ میں لوگوں نے کہا ’’پہلے یہ بتائو تم نے ڈاکٹری کب کی؟‘‘۔ حلیم رضا مسکرایا اور بلند آواز میں جواب دیا۔’’علامہ اقبال نے کب ڈاکٹری کی تھی؟‘‘جلسہ کے شرکا نے پرجوش اور پرزور تالیوں سے اس تاریخی جواب پر داد دی اور ’’ڈاکٹر‘‘ حلیم رضا صوبائی اسمبلی کا انتخاب جیت گیا۔ حلیم رضا کے کردار پر کبھی کسی نے انگلی نہیں اٹھائی لیکن اب نہ وہ امیدوار رہے نہ ویسے ووٹر کہ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ہی بہت سیانے اور دنیادار ہوگئے۔ لالچ تب بھی ہوتا ہوگا، ٹھیک سے یاد نہیں کہ بچے تھے لیکن یہ بات طے کہ قناعت کی فراوانی تھی، ریٹ ریس (RAT RACE)کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ پیسے کی ضرورت تو تب بھی تھی لیکن ایسی بے لگام ، بے حیا، حرص و ہوس کا سایہ تک بھی موجود نہ تھا۔ سیاستدان موقع پرستی کی وجہ سے بدنا م تھے، پیسہ پرستی وجوہات شہرت میں شامل نہ تھی۔ پورے پاکستان میں ایک ’’ٹی ٹی خاندان‘‘ موجود نہ تھا جبکہ آج تو ٹی ٹی فیملیز گنی نہیں جاتیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک ’’وارداتیا‘‘ واردات کے بعد حوالات میں کھڑا ہو کر وکٹری کا نشان بناتا ہے اور ہر ایک کے پیشہ ور حواری اپنے اپنے جمہوری جواری ’’رہنمائوں‘‘ پر معصوم بے زبان پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں۔ ہر راجہ ناگ راجہ اور ہر دیوی پھولن دیوی ہے۔تب عوام بھی اس طرح آئے روز سرعام لٹتے نہیں تھے لیکن پھر نجانے کس کی نظر لگ گئی۔ تاج کمپنیوں سے لے کر فائنانس کمپنیوں اور کوآپریٹوز تک لوٹنے اور لٹنے والوں کے اتوار بازار عام ہوتے چلے گئے اور کمال یہ ہوا کہ لوٹنے اور لٹنے کے اس کلچر میں لالچ کم ہونے کی بجائے بڑھتا چلا گیا اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان ساری ’’ایجادات‘‘ کا سہرا ضیا الحق کے سر جاتا ہے جس کی ہوس اقتدار نے معاشرے کا کیریکٹر ہی تبدیل کرکے رکھ دیا۔پچھلے دنوں کراچی میں ایک جواں سال خوب صورت ٹی وی اینکر سمیت جو قتل ہوئے بہت درد ناک اورافسوسناک لیکن تفصیلات سامنے آنے پر بندہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ سارا کیس ہی ہوس ناک ہے جس کا مرکز و محور سوائے لالچ کے اور کچھ بھی نہیں۔گزشتہ 25،30 سال میں بے شمار ’’ڈبل شاہوں‘‘ کے منظر عام پر آنے کے باوجود لوگ باز نہیں آ رہے۔ ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے تو چھوڑو، اچھے خاصے پڑھے لکھے تیز طرار، سٹریٹ سمارٹ بھی بے تکے، احمقانہ منافع کے لالچ میں سمجھے سوچے بغیر نام نہاد’’ انویسٹمنٹ‘‘ کی لپیٹ میں آ کر کبھی پیسہ، کبھی جان ، کبھی دونوں گنوا بیٹھتے ہیں لیکن حرکتوں سے باز آنے پر تیار نہیں کہ طمع، حرص اور ہوس ان کے حواس ہی چھین لیتی ہے اور یہ عالم وحشت میں بالکل بھول جاتے ہیں کہ اک خاص حد سے زیادہ شرح منافع کی آفر بذات خود فراڈ کا اقرار اور اعلان ہے لیکن نہیں …… لالچ کا فالج کچھ اس طرح ان کی بینائی پر اثر انداز ہوتا ہے کہ انہیں کالے چٹے کی تمیز ہی نہیں رہتی۔ بڑے فراڈ تو اپنی جگہ، لاتعداد چھوٹے چھوٹے فراڈ ایسے ہیںجو کبھی کہیں رپورٹ ہی نہیں ہوتے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ بہت سادہ ہے جو صدیوں پہلے ہمیں سمجھا دی گئی تھی اور وہ یہ کہ ۔۔۔عوام اپنے حکام کا عکس ہوتے ہیں اور ہمارے یہ حکمران ….. الامان الحفیظ، الحفیظ الامان، ہر بڑا سیاسی خاندان ایسا کہ آج صرف ’’ٹی ٹیاں‘‘ ہی ان کی پہچان ہیں تو عوام کیوں پیچھے رہیں؟……. مرید عباس نامی اینکر اور ایسے ہی دیگر ’’سرمایہ کار‘‘ دراصل اپنے برسراقتدار طبقے کی پہچان ہیں اور تاوان بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply