ایک پرانا انٹرویو۔۔۔۔ناصر خان ناصر

پڑهنے کے شوق کا آغاز بہت بچپن سے ہی ہو گیا۔ قصہ یوں ہے کہ ہمارے والد صاحب پاکستان آرمی میں تهے اور ان کی پوسٹنگ ہمیشہ دور دراز علاقوں میں ہوتی رہی۔ دونوں بڑے بهائی  بهی بہ سلسلہ تعلیم گهر سے باہر دوسرے بڑے شہروں میں تهے ۔ والدہ صاحبہ نے محض اس خوف کی بنا پر کہ بچہ کہیں بگڑ نہ جائے ،ہم پر سکول کے بعد گهر سے نکلنے  پر  سخت پابندی لگائی ہوئی  تهی۔ بچپن ہی سے نہ ہمارے کوئی  دوست تهے، گلی کوچوں کے لڑکوں والے کهیل گلی ڈنڈا ،کرکٹ، ہاکی بنٹے وغیرہ خارج از بحث تھے ۔ سکول سے سیدهے واپس گهر آتے اور لائبریری میں یوں بند کر دئیے جاتے جیسے باڑے میں بهنیس۔ گهر میں والد صاحب،دادا جان اور نانا جان کی اچهی خاصی لائبریریاں موجود تهیں۔ خالی بنیا کیا کرے ،اس کوٹهی کے دهان اس میں کرے۔
خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی می کنند
ارے ارے می کنم ، خالق و عالم کارنیست۔
ادبی دنیا میں ہمیں صرف قراۃ العین حیدر، عصمت چغتائی ،کرشن چندر،امرتا پریتم ،منٹو، جمیلہ ہاشمی،فیض،جوش،احمد فراز اور جیلانی بانو ہی اچهے لگتے ہیں۔۔۔انہی لوگوں کا لکها گهول کر پی رکھا ہے۔
ادب کے سفر کی شروعات ہی ہیں۔ اگرچہ کم کم ہی لکها، مگر جو لکھا خواص و عام میں پسند کیا گیا۔
مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید۔۔۔
کالم لکهنے کے زمانے میں دن رات وقت بے وقت مہربان پسند کرنے والوں کے فون اور پیغامات و عنایات سے بیگم اور بچے عاجز آ جاتے تهے۔ انٹر نیٹ پر اردو افسانہ فورم نے پورے امریکہ سے صرف ہمیں بطور ممبر انجمن اراکین چُن کر عزت بخشی۔ یہ خاکسار کے لیے  بہت بڑا اعزاز ہے۔
صاحب ہم تو ادب برائے زندگی کے فلسفے کے قائل اور گھائل ہیں۔ ادب ہی اوڑهنا بچهونا ہے۔ یوں دال روٹی کمانے کے لیے  ہزار طرح کے پاپڑ بیلتے رہے، جن میں اپنے بزنس کے علاوہ،یونیورسٹی اور ہائی اسکول کے سینئر  بچوں کو ریاضی پڑهانا بهی شامل رہے ہیں۔۔۔
ادب ایک ضابطہ اخلاق ،زندگی اور زندگی کے محاصل کا نام ہے۔ یہ تو اک بے انتہا عمیق اور گہرے سمندر کا سا ہے،جس کا نہ تو کوئی  اور ہے نہ چهور۔۔۔ ہم نے بهی ابهی تک صرف تشنگی ہی پائی  ہے۔
شبنم کا قطرہ بهی ہم کو دریا لگتا ہے۔۔۔
اچها ادب زمان و بیان سے ماورا، معاشرتی حدود و قیود سے مبرا، زود فہم،خالص اور عالمگیر ہوتا ہے۔ خوبصورت موسیقی اور بہتے پانی کی طرح اپنی جگہ خود بناتا ہے۔ ملاوٹ نقل گراوٹ اور عامیانہ پن اسے چهو کر بهی نہیں گزر سکتے۔
تخلیق ایک نامیاتی عمل ہے اور محبت کی طرح خود بخود ہوتی ہے ،کی نہیں جاتی، ہو جاتی ہے۔اچهی تخلیق کسی درد بھرے دل کی پکار کی طرح سیدها پڑهنے والے کے دل میں تیر ترازو ہونے پر قادر ہوتی ہے تخلیق کار خدا کے خاص چنُے ہوئے بندے ہی ہوتے ہیں ۔قبول خاطر و لطف سخن خدا داد است۔
اسرار الہی کے ناگفتنی پُراسرار رموز وہی خود جانے،خو آگہی شہرت سے زیادہ اصح و اشہر ہے۔
“کار بوزینہ نیست بخاری” کے مصداق جس کا کام اسی کو ساجهے اور کرے تو ٹهینگا باجے۔۔۔
ہم پاکستان کے ملکی حالات پر غیر ملک میں مستقل مقیم ہونے کی بدولت کوئی  بهی تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں۔۔۔
معاشرہ، ہم، آپ اور وہ یعنی گروہ و انبوہ مگر صاحب اب تو “قبلہ ہو تو منہ نہ کروں” کے مصداق آوے کا آوا ہی بگڑا نظر آتا ہے۔ مشرق ہو یا مغرب ،ہر طرف معاشرتی اقدار اور تہذیب دم توڑتی ،شرافت آخری ہچکیاں لیتی ہی دکهائی  دیتی ہے۔ ان نینن کا یہی بسیکه،وہ بهی دیکها یہ بهی دیکھ۔ حکومت ہو یا عوام ۔سب کے کالے کرتوتوں کی کیا کتها باچنا؟۔۔۔ بجز “کتیا چوروں سے مل گئی ، پہرہ دیوے کون؟ ” اور کہا اور کیا ہی کیا جا سکتا ہے۔
ملک میں اسلامی معاشرے کے نفاذ سے بهلا کیا بہتری آ سکتی ہے؟
ناچے بامن دیکهے دهوبی۔۔۔
ایسے معاشرے میں جہاں مرے کو مارے شاہ مدار۔ مذہبی جنونیت ،غیر قانونیت،دہشت گردی ،فرقہ بازی،علاقائی  تعصب کا دور دورہ ہو۔۔۔ خصوصاً  جب تہتر کے تہتر افتاں و خیزاں فرقے دیگر فرقوں کو کافر قرار دے رہے ہوں اور صرف خود کو ہی سچا مومن گردانتے ہوں تو اسلامی حکومت لانے سے قدم قدم سر پهٹول نہ ہو گا؟۔ حکومت کو ترقی یافتہ ممالک کی طرح مذہب سے بالکل جدا اور غیر متعصب، غیر جانبدار اور سیکولر ہونا چاہیے۔
انقلاب اور سیاست کے بارے میں اپنی رائے محفوظ رکهتے ہیں۔
کمپیوٹر کے آنے سے زندگی رحمت بهی بنی ہے اور زحمت بهی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply