مافیا مکسچر۔۔۔۔حسن نثار

جرائم پیشہ جمہوریت کی اک اور واردات سامنے آئی ہے جس پر غصہ نہیں آ رہا گھِن آ رہی ہے۔ انگلینڈ کے اخبار ’’ڈیلی میل‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ شہباز خاندان زلزلہ زدگان و متاثرین کو ملنے والی برطانوی امداد بھی ہڑپ کر گیا۔ اخبار کی کہانی انتہائی قائل کر لینے والی ہے لیکن میں اس پر تبصرہ سے گریز کروں گا کیونکہ خود ساختہ خادم اعلیٰ شہباز شریف نے برطانوی اخبار کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان کیا ہے جبکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا دعویٰ ہے کہ شہباز شریف ہرگز ہرگز ایسی جرأت و حماقت نہیں کرے گا۔ یاد رہے یہ وہی اخبار ہے جس نے چند ماہ پہلے شریفوں کو پینٹ ہائوس بحری قذاق قرار دیا تھا۔ گزشتہ اتوار اپنے مختصر لیکن بہت مقبول پروگرام ’’میرے مطابق‘‘ میں میں نے بھی یہی عرض کیا تھا کہ اگر شہباز شریف میں خواجہ آصف والی ’’کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ کی رتی بھی موجود ہے تو اس آدمی کو فوراً اخبار کے خلاف عدالت سے رجوع کرنا چاہئے جس نے کبھی دھیلے کی کرپشن نہیں کی لیکن معاملہ کیونکہ دھیلوں کا نہیں برطانوی پائونڈز کا ہے اس لئے مجھے شہزاد اکبر کی بات میں زیادہ دم دکھائی دیتا ہے کہ شہباز ڈنگ ٹپانے اور معاملہ ٹھنڈا کرنے کے لئے بلف سے کام لے رہا ہے اور کبھی عدالت جانے کا رسک نہیں لے گا لیکن بہرحال … شہباز نے کیونکہ اخبار کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان کر دیا ہے اس لئے ہم جیسوں کو اسے شک کا فائدہ دیتے ہوئے چپ رہنا چاہئے، انتظار کرنا چاہئے کہ شہباز عدالت کی جانب پرواز کرے اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو۔ میں نے روانی میں استعمال تو کر لیا لیکن یہ محاورہ آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا کیونکہ دودھ میں تو ہوتا ہی پانی ہے، خالص ترین دودھ میں بھی ’’دودھ‘‘ تو صرف آٹے میں نمک برابر ہوتا ہے لیکن محاورے پر بحث پھر کبھی کہ فی الحال تو مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی ’’زِپ دی لِپ‘‘ پر عمل کرنا ہو گا لیکن اگر چند دنوں کے اندر اندر شہباز شریف اپنی مخصوص پھرتیوں کے ساتھ اخبار کو چیلنج نہیں کرتے تو ہر کوئی اس نتیجہ پر پہنچنے میں سو فیصد حق بجانب ہو گا کہ یہ شخص سر تا پا لوٹ ہی نہیں جھوٹ بھی ہے سو دل پر پتھر رکھ کر انتظار فرمایئے اور دعا کیجئے کہ شہباز سرخرو ہو ورنہ اس سے بڑی ذلت کیا ہو سکتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا حکمران زلزلہ متاثرین کا مال ہڑپنے والا وارداتیا نکلے۔چاچا خوامخواہ تو اپنی جگہ دوسری طرف بھتیجی ٹھاہ ٹھاہ کے آگے بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ وفاقی حکومت نے نواز شریف دور میں مشعل اوباما کی طرف سے مریم نواز کو بچیوں کی تعلیم کے لئے دیئے گئے فنڈز کی تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ شریف خاندان نے دولت کے لالچ میں پاکستان کو بدنام کر دیا ہے۔ اعدادوشمار مجھے یاد نہیں رہتے اور اس کمزوری کا اعتراف میرے اس شعر میں بھی موجود ہے۔لپٹا ہوا بدن سے یوں لفظوں کا جال تھاہندسوں کا کھیل کھیلتے رہنا محال تھالیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ امریکہ کی خاتون اول نے ان دنوں پاکستان کی دختر اول کو خطیر رقم عطا کی تھی جو اس کارخیر پر خرچ کی گئی ہوتی تو لڑکیوں کی تعلیم کے حوالہ سے یہاں چھوٹا موٹا تعلیمی انقلاب ضرور آ گیا ہوتا۔ حکومت کو چاہئے کہ صرف اعلان بازی تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس رقم بارے تحقیق مکمل کر کے قوم کو بھی اس کے نتائج سے مطلع کرے۔ مختصراً یہ کہ قوم دو رقموں کے انجام بارے معلومات کا انتظار کرے۔ ایک وہ جو چاچا جی کو زلزلہ متاثرین کی مدد کے لئے ملی اور دوسری وہ جو بھتیجی جی کو تعلیم نسواں کے لئے عطا کی گئی۔ دونوں کے بارے حتمی فیصلہ یا نتیجہ سامنے آ جائے تو شاید جرائم پیشہ جمہوریت سے نجات کی کوئی صورت نکل آئے ورنہ …. ’’ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے‘‘آخر پر ’’مافیا مکسچر‘‘ کی سمری کہ یہ تیار کیسے ہوتا ہے۔اجزائے ترکیبی دھمکی +دھونس+دھوکہ+ جعل سازی+ جھوٹ+ بلیک میلنگ+ فراڈ+ قبضہ+ رشوت+ بربریت+ سائبر کرائم اور اب ان کی تھوڑی تھوڑی تفصیل ۔دھمکی =’’احتساب عدالت نے بلانا ہے تو اپنے رسک پر بلائے‘‘ ۔دھونس =سپریم کورٹ پر یلغار ۔دھوکہ =پرویز مشرف کے ساتھ کوئی سمجھوتہ (NRO)نہیں کیا ۔جعلسازی=کلبیری فونٹ +جعلی ٹرسٹ ڈیڈ+ قطری خط ۔جھوٹ=’’جناب سپیکر! یہ ہیں وہ ذرائع‘‘، ’’لندن کیا میری تو پاکستان میں جائیداد نہیں‘‘ ۔بلیک میلنگ=جسٹس قیوم تا جج ارشد کی آڈیو ویڈیوز ۔فراڈ= منی لانڈرنگ، ٹی ٹیاں، منی ٹریل ۔قبضہ= ماڈل ٹائون تا جاتی عمرا تک سرکاری زمینیں پبلک پارکس ۔رشوت= کوئٹہ کے بریف کیس، چھانگے مانگے اور 50کروڑ کی آفر ۔بربریت=منہاج القرآن کے نہتے لوگوں پر سیدھی گولیاں۔سائبر کرائم=خفیہ آڈیو ویڈیو ریکارڈنگز ۔قارئین!’’مافیا مکسچر‘‘ اور ’’جرائم پیشہ جمہوریت‘‘ ڈش تیار ہے ۔’’ریکوڈک‘‘ میں ڈنر کا اہتمام ہے، دعوت عام ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply