کیا ورلڈ کپ غیر متنازع رہا؟۔۔۔۔شجاعت بشیر عباسی

کرکٹ برصغیر میں سب سے مشہور اور زیادہ کھیلا جانے  والا  کھیل  ہے۔ سری لنکا ،پاکستان, انڈیا, بنگلہ دیش اور اب افغانستان کی ٹیمیں انٹرنیشنل میچز میں   اپنی نمایاں شناخت رکھتی ہیں۔
اب تک چار ورلڈ کپ ہمارے اس خطے کا مقدر ٹھہر چکے اسی طرح دیگر خطوں میں بھی کرکٹ بھر پور طریقے سے موجود ہے۔
لیکن حالیہ گزرے ورلڈ کپ میں آئی سی سی قوانین نے پاکستان اور نیوزی لینڈ کو شدید متاثر کیا اور یہ دونوں ٹیمیں اچھا کھیلنے کے باوجود برے طریقے سے آئی سی سی کے بیکار اور متنازعہ قوانین کی بھینٹ چڑھیں اور دونوں ملکوں کے لاکھوں  شائقین کو سخت مایوسی کا صدمہ سہنا پڑا۔

ورلڈ کپ آئی سی سی کے زیر انتظام سب سے بڑا کرکٹ ایونٹ ہوتا ہے جس کا انتظار پوری دنیا کے شائقین کرکٹ چار سال تک کرتے ہیں اور ساری ٹیمیں اس کے لیے سخت محنت بھی کرتی ہیں، کئی پلیئرز کا مستقبل اس ایونٹ سے مشروط ہوتا ہے، تو وہیں کئی عظیم پلیئرز اس ایونٹ میں اپنے کیریئر کے باعزت اختتام کی خواہش بھی کر  رہے ہوتے ہیں۔
لیکن آئی سی سی اپنی نااہلی سے ان سب خواہشوں کو حسرتوں میں بدلنے کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتی ہے دنیا بھر میں کرکٹ ایکسپرٹ موجود ہیں،لیکن آئی سی سی میں اکثریت نان کرکٹرز مافیاز کی اجاداری واضح نظر آتی ہے ،اسی ناجائز اجاداری نے پہلے بگ تھری جیسے شرمناک رول کو زبردستی باقی سب ٹیموں پر مسلط کیا تو وہیں اب تک غیر متنازعہ نظام کو متعارف کرنے میں بھی یہ ادارہ ناکام نظر آتا ہے۔

اس ایونٹ میں سب سے بڑا اعتراض شائقین کا یہ سامنے آیا کہ  اتنے بڑے ایونٹ میں انگلینڈ کے بے ایمان موسم کو دیکھتے ہوئے بھی ریزرو ڈے نہیں رکھا گیا جس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا۔
ایک ٹیم چار سال تک محنت کرتی ہے کرکٹ بورڈز اپنے پلیئرز کی سلیکشن اور فٹنس پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں اور ٹیم ورلڈ کپ میں جا کر بارش کی وجہ سے پوائنٹ کھو بیٹھے، اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہو گی بھلا۔
اسی طرح نیوزی لینڈ کو ورلڈ کپ کے فائنل سے صرف اسی لیے دستبردار ہونا پڑا کیوں کہ  اس نے چوکے کم لگائے تھے۔
حیرت ہے ایسے   مضحکہ خیز قوانین تو گلی محلے کے میچز میں بھی نہیں رکھے جاتے اور آئی سی سی ان قوانین کا اطلاق ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹ  پر  کر رہا ہے۔

اسی طرح سپر اورز کا قانون بھی ناانصافی کا مظہر ہے ۔پچاس اورز کے میچ کا رزلٹ ایک اوور میں لینے کے قانون کو آئی سی سی نافذ تو کر سکتا ہے لیکن کرکٹ شائقین کے لیے یہ قانون بھی تسلیم کرنا مشکل ہے۔
اسی طرح کئی نامور پلیئرز ہر ورلڈ کپ کے بعد ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں جن کی عزت افزائی کے لیے بھی آئی سی سی کوئی اسپیشل ایکٹیوٹی دکھانے سے قاصر ہے۔
اربوں روپے کے فنڈز پر سانپ بن کر بیٹھا آئی سی سی اپنی اہمیت کھو رہا ہے جس کی تازہ مثال دنیا بھر میں لیگ کرکٹ کی بے پناہ مقبولیت ہے شائقین اب لیگ کرکٹ دیکھنے کا رجحان اپنا رہے ہیں ۔بے شک قوانین تو وہاں بھی آئی سی سی کے ہی چلتے ہیں لیکن مختلف کرکٹ بورڈ ان لیگز کی وجہ سے قدرے مستحکم ہو رہے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی چار پانچ کرکٹ بورڈز مل کر آئی سی سی کے لیے چیلنج بن سکتے ہیں۔۔۔جس کی اب ضرورت بھی پیش آ رہی ہے۔

آئی سی سی پہلے ہی چیپمئین ٹرافی منعقد کروانے سے دستبردار ہو چکا اور اب اس کے پاس صرف دو ایونٹ ہیں چیمپیئن ٹرافی کیوں کینسل کی گئی اس کی کوئی خاص وجہ اب تک شائقین کو نہیں بتائی گئی بظاہر یہی لگتا ہے کے آئی سی سی مشقت سے جان چھڑا رہی ہے اور خود کو صرف چند سالانہ اجلاس تک محدود رکھ کر فری فنڈ کھانے کے چکر میں ہے۔

اسی طرح ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ  جب شروع کیا گیا تو یہی کہا گیا کہ یہ ایونٹ ہر سال ہو گا لیکن آہستہ آہستہ آئی سی سی نے روایتی سستی یہاں بھی دکھانا شروع کر دی اور اب یہ ایونٹ بھی شائقین ِ کرکٹ کو سالوں انتظار کی کوفت سے دوچار کر رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب وقت ہے کہ  آئی سی سی کو حرام خوری سے جان چھڑا کر اس کھیل میں جدت اور تسلسل لانا ہو گا ورنہ یہ خوبصورت کھیل نان ٹیسٹ ملکوں میں بھی اپنی اہمیت اور شوق کھو دے گا اور جن ملکوں میں یہ کھیل مستقل کھیلا جا رہا ہے وہاں بھی شائقین مایوس ہو کر اپنی توجہ دیگر کھیلوں پر مرکوز کر دیں گے جس کا سب سے بڑا نقصان کرکٹ اور اس سے وابستہ طبقات کو ہی ہو گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply