• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • “درد کی تُم”۔رمشا تبسم کی ڈائری “خاک نشین” سے “خود کلامی کی اذیت” کا اقتباس

“درد کی تُم”۔رمشا تبسم کی ڈائری “خاک نشین” سے “خود کلامی کی اذیت” کا اقتباس

“تم کتنا بولتی ہو”۔۔۔

“اچھا چپ ہو جاتی ہوں”۔۔۔

“ارے پاگل !بولو تم بولتی ہو تو ہی مجھے میرا زندہ ہونا محسوس ہوتا ہے۔ ورنہ تو میں مر چکا ہوں۔میرا وجود کائی زدہ ہے۔میری سانسیں عذاب ہیں۔۔میری زندگی میں زندگی صرف تم ہو اور تمہاری آواز میرے جسم میں خون کی جگہ دوڑتی ہے”۔

“کیسی باتیں کرتے ہو۔موت کا ذکر ہی کیوں؟ میں زندگی ہوں تو زندگی کو زندہ رہنے دو۔۔ موت کا ذکر کر کے اس زندگی کی زندگی تو کم نہ  کرو۔”

“تمہیں معلوم ہے مجھے تمہاری یہی ٹر  ٹر مجھے بہت اچھی لگتی ہے ، دل کرتا ہے دنیا کے سارے راگ, ہر دُھن, ہر آواز ختم ہو جائے ۔۔چار سُو صرف تمہاری آواز, تمہاری باتیں فضا لیے  لیے گھومے, اور آسمان مینہ برسائے تو تمہارے لفظ بُوندوں کی طرح میرے وجود پر گر کر تمہارا مجھ پر مہربان ہونا دکھائیں”۔

“میں بارش کی بُوند بن کر گرنے لگ گئی  تو تمہیں چُھوتے ہی تمہارے وجود پر دم توڑ دوں گی۔کیا تم چاہتے ہو میں اک اک قطرہ بن کر تُم پر مرتی جاؤں؟۔”

“نہیں۔ میں چاہتا ہوں۔ایک ایک قطرہ تمہاری محبت کا میرے سُوکھے وجود کو سیراب کر کے تروتازہ کر دے۔ یہاں تک کہ “تم” مجھے پُکارو اور پھر “تم” ہی “میں” بن کر خود کو جواب دو۔۔پھر “تم” ہی “میں” بن کر خود کی تعریف کرو۔ اور پھر “تُم” ہی “تُم” بن کر کہو آپ پھر سے مذاق اڑا رہے ہیں نا۔ اور پھر “تم” میری اور اپنی ہنسی ایک ساتھ ہنس کر فضاؤں کو خوبصورتی بخشو۔اور صرف “تُم” ہی “تُم” رہو۔باقی کچھ نہ رہے ۔”

“مذاق بنا رہے ہیں نا! جائیں میں نہیں بولتی۔۔بھلا میں آپ بن جاؤ ں ،پھر میں بن جاؤں، صرف یہی کام ہے نا میرا دنیا میں”۔

“ارے سنو میری دھڑکن ! “میں” تو خود کو “تم” میں بہت عرصے سے جیتا ہوں۔ورنہ خود میں تو “میں” اب باقی نہیں رہا۔۔میں سچ کہہ رہا ہوں ۔تمہارا ایک ایک لفظ تمہارا لمس بن  کر میرے وجودمیں اترتا جا رہا ہے۔ تمہارے الفاظ مہکتے ہیں میری روح تازہ ہوتی ہے”۔

“صرف الفاط آپ کو مہکاتے ہیں اور میں جو پوری کی پوری آپ پر فدا ہوں وہ؟”۔۔

“ہاہاہاہا۔پاگل “تم میرے درد کی”۔۔۔۔

“درد کی کیا”؟۔۔۔

“تم جانتی ہو تم نہ ہوتی تو یہ ویران زندگی, یہ لمبا سفر, یہ وحشت , یہ بیگانگی مجھے دیوانہ بنا چکی ہوتی”۔

“درد کی کیا؟”

“تم سے بات کرکے میرا ہر زخم بھر جاتا ہے۔اب مجھے زندگی کی تلخیاں یاد ہی نہیں۔مجھے نہیں یاد میرے غم ,میری پریشانیاں اور میرے وجود میں پھیلی تنہائی کے کَرب کی جڑیں جو میرے وجود کو  اس  طرح جکڑ چکی تھیں کہ  میں کسی مزار کے پیڑ کی مانند سالہاں سال کسی مزار کے احاطے میں زندہ رہتا نہ موت آتی نہ ہی سکون۔۔اور میرے سائے تلے بیٹھ کر کئی  لوگ دعائیں مانگتے, منت کے دھاگے باندھتے اور میں ہمیشہ بے مراد ہی رہ جاتا”۔

“خدا کا واسطہ ہے چپ کر جاؤ۔کیوں موت کی رَٹ لگائے ہوئے ہو۔ مزار کے پیڑ سے تم نہیں ۔۔مزار کی چَوکھٹ سی میں ہوتی۔جو تمہارے قدموں کے انتظار میں کئی  قدموں کی ضربیں سہہ جاتی۔ہر لگنے والی ضرب کو تمہارے آنے کی تسلی دے کر زخم بھر لیا کرتی۔یونہی روز انتظار کی کیلیں میرے وجود کو زخمی کرتیں اور میں ان کو ہنس کر کہتی ابھی وقت ہی کہاں ہوا ہے تمہارے آنے کا۔ تم آتے ہی ہوگے۔تب تک انتظار کی کیلوں تم میرا وجود زخمی کر لو کیونکہ پھر مرہم لگانے والا آتا ہی ہو گا ۔ اب بتاؤ درد کی کیا؟”۔

“تم کبھی کوئی بات بھولتی کیوں نہیں؟۔کتنی زبان چلتی ہے نا تمہاری “۔۔۔

“ٹھیک ہے نا بتاؤ ۔.جب زبان بند ہو جائے گی تب تم بلاؤ گے تو نہیں بولوں گی۔ آسمان مجھے مینہ کی طرح نہیں برسائے گا بلکہ کسی خشک سالی سا وجود ہو جائے گا تمہارا”۔۔

“خدارا یوں مت کہو ۔تمہاری آواز بند ہو گئی میری زندگی کو دیمک لگ جائے گا”۔

“درد کی کیا؟”

“تم میرے “درد کی تم ہو”۔۔۔”

“درد کی تم؟ مطلب”۔

“مجھے ہر غم بھولا کرمیرے ہر زخم پر مرہم رکھ کر میرے لیے سکون بن چکی ہو۔وہ سکون جو حوضِ کوثر کو سوچ کر ملتا ہے۔تمہارے الفاظ بھی کسی حوضِ کوثر کے گھونٹ کی طرح ہیں۔جن کی چاہ میں اب میں ہر پل جیتا ہوں۔ میرے درد بہت سے ہیں۔ میرا وجود زخموں سے چَھلنی ہے مگر “دوا” صرف تم ہو۔۔۔تو۔۔۔ تم ہوئی نا میرے “درد کی تم”۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری آنکھوں میں صرف میرا عکس تھا یہاں تک کہ میری آنکھیں بھیگ گئیں اور مجھے میرا ہی عکس نظر آنا بند ہو گیا۔جیسے اب بھی میں خود کو کہیں نہیں دیکھتی۔مجھے نہیں یاد میرے نقش سلامت ہیں کہ  نہیں ۔میری آنکھیں جو تمہیں کسی گہری جھیل سی محسوس ہوتی تھی۔اب یہ جھیل کے نیچے پڑے انتظار کے سیاہ حلقے اس جھیل کو بدصورت بنا رہے ہیں۔
لفظ بہ لفظ تمہاری باتیں آج بھی یاد ہیں۔دیکھو ڈائری پر لکھ بھی دیں۔جہاں تم نے مجھے “زندگی” کہا, جہاں “دھڑکن” کہا میں نے وہ جگہ قلم سے ویسے ہی چھلنی کر دی ہے جیسا کبھی تمہارا وجود تھا اور جیسا اب میرا وجود ہے۔۔
ہجر کی کانٹے دار جڑیں میرے وجود کو ہر رات جکڑ لیتی ہیں۔پھر ہر رات میں ان جڑوں کے کانٹوں سے روح کو زخمی کرتی ہوں۔ہر رات اذیت مجھے موت کی آغوش میں لے جانے والی ہوتی ہے کہ  صبح کا اُجالا ہو جاتا ہے۔بہت مشکل سے اپنے وجود کے زخم چھپا کر اجالے کا سامنا کرتی ہوں۔پھر بھی کوئی نہ کوئی کانٹا تمہاری یاد کا میرے وجود میں رہ ہی جاتا ہے جو ذرا سی تنہائی میں پھر سے چبھنے  لگتا ہے اور میں تڑپ اٹھتی ہوں۔

مجھے تو اپنے “درد کی تم” بنا کرتم نے جب تک ممکن ہوا اپنے دل کی بنجر زمین کو سیراب کر لیا اپنے زخموں کا علاج کر لیا۔
اب میں کہوں کہ  مجھے جو اب “تم ہو گئے ہو”۔تم جب سے ہو گئے ہو میرا وجود کائی زدہ ہو گیا ہے۔ اب جس کو تم ہو گئے ہو طبیب اس مرض کی دوا نہیں دے سکتا ۔اب مرض بھی تم ہو, دوا بھی صرف تم ہی ہو۔۔ تو کیا تم مجھے شفا یاب کرنے کو میسر آؤ گے؟؟ کیا میری سلگتی سانسیں, بے ترتیب دھڑکن کو سکون پہنچانے کو تم بھی میرے “درد کے تم” بن کر آ سکتے ہو ۔؟
بولو۔۔۔ جواب دو.جو سب کچھ تمہارے جانے سے بہت ترتیب کے ساتھ بے ترتیب سا ہوتا چلا جا رہا ہے اس کو ترتیب دینے کو تم آؤ گے؟
۔میں جانتی ہوں جہاں تمہارا نام لکھ دوں۔ وہاں تم , تمہارا احساس لیے موجود ہوتے ہو ۔تم اس ڈائری پر بھی موجود ہو۔اسی لئیے تو مجھےاکثر شرمانا بھی پڑتا ہے اور اکثر اس ڈائری کو تھام کر زارو قطار رونا بھی پڑتا ہے۔۔۔
تمہاری یہ خاموشی مجھے زندہ ہوتے ہوئے بھی قبر کی گھٹن کی سی اذیت میں مبتلا کر رہی ہے۔۔
تمہیں یاد ہے تم نے کہا تھا درد بڑا ظالم ہے ۔درد کا کھیل بہت عجیب ہے۔میں کبھی سمجھ نہ سکی تھی درد کا کھیل آخر ہے کیا۔بھلا درد بھی کوئی کھیل ہےیہ تو ایک اذیت ہے۔ ایک کرب کہ   جسکی نوک دار سوئیاں ہمارے وجود کو اس طرح چبھتی ہیں کہ نہ رویا جاتا ہے نہ ہنسا۔ انسان سُدھ بُدھ کھو کر بھی بھلا درد محسوس کر سکتا ہے؟۔۔
اب اکثر اس “درد” کے کھیل کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ ڈائری پر جہاں اتنا درد موجود ہے وہاں درد کو لکھ کر دیکھوں  گی، آخر ان تین حرفوں کا کھیل ہے کیا؟
د۔ر۔د۔ ۔ “درد” کے حروف سے کھیلا جائے تو بھی “درد” “درد” ہی رہتا ہے کبھی “درد” بن کر کبھی “دَر” بن کر کبھی “رَد” بن کر اور کبھی “درد” ہی بن کر۔ “درد” تو “درد” ہی رہتا ہے۔
د۔ر۔د “در” سے ہی شروع ہوتا ہے ایسے دَر سے جہاں انسان “میں” کو مار کر “تُم” بھی ہو جائے تو نتیجے میں ٹھوکر ہی نصیب ہوتی ہے۔ کیونکہ
” د۔ر۔د” کا “دَر” سے شروع ہونا “رَد” پہ ہمیں ختم کر دیتا ہے۔ درد کی شدت منحصر ہوتی ہے “رَد” کی ٹھوکر پہ جو محبوب کے “دَر” پر ملتی ہے اور پھر یہ “درد” لیے انسان “در بدر” رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں بھی تو در بدر ہوں۔میری ڈائری بھی دربدر ہے۔کبھی تکیے کے نیچے پڑی میرے سسکیوں سے تڑپتے وجود کو محسوس کرتی ہے اور کبھی خود پر چلتی قلم کو لڑکھڑاتا محسوس کرتی ہے۔کبھی خود پر گرتے آنسوؤں سے اپنا حُسن برباد ہوتا سہتی ہے ۔اس ڈائری کو اتنا رولا دیا ہے تم نے۔اس کا ایک ایک صفحہ میرے آنسوؤں کی تڑپ سے روتا ہے۔تمہارے وجود کی دیمک تو ختم ہو گئی  تھی ،تمہارے وجودکی کائی تو صاف ہو گئی، مگر میں میرے وجود کی کائی اب اس ڈائری کے ہر صفحے پر منتقل کرتی جا رہی ہوں۔جانتے ہو کیوں؟۔ کیونکہ یہ کائی زدہ ڈائری تمہیں میرے کائی زدہ دردبدر ہوئے وجود کی تڑپ کا کبھی احساس دلائے گی ۔اب اگر تم میرے “درد کے تُم” بن کر آ جاؤ تو یقین جانو میرا وجود چاند کی مانند چمک جائے گا اور یہ ڈائری جو کسی زندہ مردے کی داستان سمیٹے ہوئے ہے پھر سے زندگی کو خود پر زندہ ہوتا دیکھے گی۔
اب تو مجھے سمجھ نہیں آتا کہاں سے ڈائری شروع کروں۔ وہاں سے جہاں تم اپنی مکمل ذات سے مجھے ادھورا بنا کر چلے گئے۔یا جہاں اب صرف میرے وجود کے ذرے ذرے بکھر چکے ہیں۔
لو۔۔ ایک اور صفحہ تمہاری یاد کی نظر ہوا ۔ایک اور گوچڑ موچڑ صفحہ میرے گوچڑ موچڑ وجود پر روتے قہقہے لگا کر تم سے میرے “درد کے تم” بن کر آنے کی التجا کر رہا ہے۔
لوٹ آؤ اس سے پہلے کہ تمہاری واپسی پر یہ ہجر کی نوک دار جڑیں تم پر ایسے حملہ آور ہوں کہ  تم واقعی کسی مزار کے احاطے میں بے سکون اور بے مراد رہ جاؤ۔۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”“درد کی تُم”۔رمشا تبسم کی ڈائری “خاک نشین” سے “خود کلامی کی اذیت” کا اقتباس

  1. پسم اللہ الرحمن الرحیم
    اسلام علیکم !
    خود کلامی کا
    ہر لفظ درد اور محبت کے ملے جلے امتزاج سے مزین دل میں اترتا محسوس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت میں “میں” سے” تم ” کا کٹھن سفر اور پھر منزل پر پہنچ کربھی دربدری کامقدر ٹھہرنا۔۔۔۔ جو محبوب کے در( منزل ) سے رد کی ٹھوکر کی صورت ملتی ہے بہت ہی نفاست سے لفظوں میں ” درد” کو پرویا ہے آپ نے “رمشا جی ” Supper سے بھی اوپر ہے آپ کی تحریر ۔۔۔ پڑھ کر۔۔۔۔ یوں لگا کہ جیسے کوئی مصور بہت محبت و خلوص سے کسی کے عکس کو کینو س پہ پینٹ کرتے کرتے ادھورا چھوڑ دے اور تصویر اپنے ادھورے پن پہ ماتم کناں ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا پھر کوئی آپ کو محبت کی ریشمی ڈوری سے باندھ کر آپ کو مکمل ہونےکا احساس دلائے اور منزل کے قریب پہنچ کر وہ سرا چھوڑ کرآپ کوادھورے رہ جانے کی اذیت سے دوچار کر دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکمل ہوتے ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نامکمل رہ جانے کی اذیت۔۔۔۔ ادھوری محبت۔۔۔۔ادھورا ساتھ۔۔۔ نہ مکمل اپنا بنائے ۔۔۔نہ چھوڑے ۔۔۔بے بسی اور اختیار کی ملی جلی کیفیت ۔۔۔۔۔جیسے محب محبوب سے کہہ رہا ہو۔۔۔۔
    بقلم خود?
    تمھارا ساتھ مکمل تھا چاہیے مجھے۔۔
    ادھورے ساتھ سے محبت ادھوری رہتی ہے
    محبت ہم سفر نہ ہو محبت سنگ سنگ نہ ہو
    تو منزل کے لیے ہر مسافت ادھوری رہتی ہے
    نہ مکمل چھوڑتے ہو” تم “،نہ دل میں بساتے ہو
    ذرا سوچو تو ایسے میں قیامت ادھوری رہتی ہے
    میری چاہت پھر پوری ہو ، تجھےپانا جو ممکن ہو
    بنا تیرے میری یہ چاہت ادھوری رہتی ہے ۔۔۔
    رمشا جی ! اآپکی تحریر اپنے اندر اترنے پہ مجبور کر دیتی ہے اور آپ کے موتی جیسے لفظ خود کو چننے کی طرف راغب کرنے کی بھر پور استطاعت رکھتے ہیں ۔۔۔۔ اللہ پاک آپ کو ہمیشہ خوشیوں سے ہمکنا ر کرے آمین ۔۔۔۔

Leave a Reply to Uzma A G Cancel reply