مجھے قرآنِ پاک معصوم کیوں لگتا ہے؟۔۔۔۔میاں جمشید

یقین مانیں کہ میں نے قرآن پاک کا مطالعہ صرف اس وجہ سے نہیں کیا کہ میں جدی پشتی مسلمان ہوں اور اس کو پڑھنا میرے لیے  فرض ہے ۔ یا پھر اس کو پڑھنے کے فضائل کی دھاک سے بھی اس کی طرف مائل نہیں ہوا ۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر میں مسلمان نہ بھی ہوتا تو قرآن کو پڑھ اور سمجھ کر تب بھی اس پر فدا ہو چکا ہوتا ۔ اس حوالے  سے میرا پیدا ہوتے ہی مسلمان کہلایا جانا ایک اضافی نعمت ہے جو مجھے بغیر کسی تگ و دو کے حاصل ہو گئی ۔

قرآن مجھے ہمیشہ اپنے ایک یوزر مینول کی طرح لگتا ہے۔ جو مجھے میری بنیاد اور اوقات کے بارے آگاہی دیتا ہے۔ میں کیا تھا ، ہوں اور کیا ہوں گا جیسے سوالوں کا جواب دیتا ہے۔ جو کہیں مثالوں سے ، کہانیوں سے ،کہیں ڈانٹ ڈپٹ کے جلد باز ، نا شکرا کہتے ہوئے اور کہیں ڈراتے ہوئے مجھے سیٹ رکھتا ہے۔ تبھی جو باتیں اور احکامات واضح ہیں ان پر عمل کرنے میں لگا اور جو متشابہات ہیں اس پر غور و فکر کی سعی جاری رکھی کہ یہی قرآن کا بھی فرمان ہے۔

ہمیشہ اس کو کہیں نفاست سے لپٹے یا بہت ساری کتابوں کے درمیان پڑے ہوئے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ کتنا معصوم ہے ۔ ہم نے اسے اپنے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ، اپنی مرضی کی تشریح کرتے ہوئے، اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا ہے۔ ایک آسان سی کتاب کو اتنا مشکل بنا کر پیش کیا یا پھر صرف ثواب کمانے کا ذریعہ بنا دیا۔ عزت و احترام سے لپیٹ کر اونچائی  پر  رکھ دیا۔ اسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں کا ٹیگ لگا کر عام لوگوں سے دور کر دیا ۔ جو کتاب اس کائنات کے ہر فرد کے لیے  ہے اسے صرف مسلمانوں کی مذہبی کتاب کہہ کر صرف انہی کے لیے مخصوص کر دیا

یہ قرآن کی معصومیت ہی تو ہے کہ اسے جس نے جیسے چاہا استعمال کیا مگر اس نے کچھ نہ کہا اور چپ چاپ وہی بیان کرتا رہا جو اس میں ازل سے ہے ۔ قاتل کو بھی وہی پیغام جو مقتول کو ، شریف کو بھی ویسا ہی سمجھایا جو بدمعاش کو، حرامی ، حلالی ، زناکار ، بدکار ، پرہیزگار ، ایمان دار ، کرپٹ، سود خور ، امیر ، لا دین ،غریب، کرسچن ، یہودی غرض کہ  ہر انسان کے لیے  ایک جیسا پیغام، احکامات اور رہنمائی ۔ کوئی فرق روا نہیں رکھا ۔۔ جو مرضی پڑھے،مگر ہم مسلمانوں نے ہی اس کو  اکیلا کر ڈالا ۔۔ اوروں سے الگ تھلگ کر کے اسے بے زبان کر ڈالا۔اس کا مفہوم جاننے کی بجائے اپنی پسند کی تشریح کرتے فرقہ واریت میں الجھ کر خود کو اقوامِ عالم سے تنہا کر کے کمزور بنا لیا۔

کیا ہی اچھا ہو اگر اس عظیم کتاب کو اسی کی مرضی کے مطابق رہنے دیں ۔ وہ جو بیان کرتی ہے اس کو سنیں اور سمجھیں۔ اس کو تنہائی کا شکار نہ بنائیں۔ جو مرضی اس سے فائدہ اٹھائے ہمیں کیا ہے۔کیوں نہیں ہم اس کو کسی غیر مسلم کو بھی اسی چاہت سے پڑھنے دیتے جیسے ہم پڑھتے ہیں ، کیا اس کا صرف مسلمانوں کے گھروں میں ہونا ہی باعثِ برکت ہے؟ کسی غیر مسلم کو کوئی نفع نہیں مل سکتا ؟ کیا اس کی زندگی میں بدلاؤ نہیں آ سکتا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

تو صاحبو !اس تحریر کی وجہ ایک بک شاپ پر ایک مسلمان صاحب کا ایک غیر مسلم کو یہ کہا گیا  جُملہ تھا کہ ” اوے یار توں تا تھوڑی آں تیرا کی کم قرآن نال ( اؤ بھائی تم تو تھوڑی “ہندوں کی نچلی ذات” ہو آپ کا قرآن سے کیا واسطہ) ۔ تو اس ہندو صاحب نے تھوڑا ڈرتے ہوئے  کہا کہ میری بیٹی کی شادی ہے تو برکت کے لیے  ساتھ دینا ہے۔ تو وہ مسلمان پھر بولا کہ مسلمان ہو جا ، اس کو پڑھ کے دیکھ ایسے رکھنے کا کیا فائدہ ۔ خیر میرے لیے  یہ ایک تکلیف دہ مکالمہ تھا۔ تبھی خیال آیا کہ اسے صرف شیلف پر سجانے والی کتاب کس نے بنایا؟ صرف اس کے رکھنے کو ثواب کس نے بنایا؟ صرف مسلمانوں کے  ہی پڑھنے والی کتاب کس نے بنایا؟ کیا قرآن نے خود ؟ نہیں نا ؟ تو  پھر ہُوا نا  قرآن معصوم ؟

Facebook Comments

میاں جمشید
میاں جمشید مثبت طرزِ زندگی کے مختلف موضوعات پر آگاہی ، رہنمائی اور حوصلہ افزائی فراہم کرتے ہیں ۔ ان سے فیس بک آئی ڈی jamshades پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply