داستانِ زیست۔۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط24

“انسان کی جبلت ہے کہ وہ اپنے ساتھ رہنے والوں کوتسخیر کرنے میں لگا رہتا ہے لیکن فطرت کا قانون ہے کہ ہر انسان کو زندگی کے ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی ایسا شفیق رفیق مل جاتا ہے جو اسکے کردار کی تعمیر میں معاون بن جاتا ہے”۔۔۔۔۔
زمانہ قدیم میں جب سے ریاست اور سلطنت کے دربار وجود میں آئے سفارت کاری بھی ساتھ شروع ہوئی۔سفارت کار ہر زمانے میں بڑے زیرک، زمانہ ساز،مردم شناس ، ذہین اور معاملہ فہم لوگ ہوتے ہیں ۔ ہماری یہ خوش نصیبی تھی کہ قریب نو سال ایسی ہستیوں کے ساتھ سفارت خانے میں کام کرنے کا موقع ملا ۔جنہوں نے ہماری تربیت کو مزید جِلا بخشی۔چھوٹی آرگنائزیشن میں جہاں کل ملا کے30،35 مرد و زن کام کرتے ہوں وہاں باہمی مسابقت ،رقابت اور حسد بہت ہوتا ہے۔ سفیر صاحب کے گھر ہوئی میٹنگ میں انہوں نے اس بات کا اشارہ دیا کہ وہ سٹاف کی باہمی
پوشیدہ چپقلش سے بھی آگاہ ہیں۔

اگلے روز مجھے بلڈنگ مینٹیننس کنٹریکڑ کو بلانے کا حکم ہوا۔ عین ِپیک ورکنگ آورز میں سفیر صاحب نے اسے اور مجھے ساتھ لے کے چانسری بلڈنگ کے ہر کمرے کا معائنہ کیا۔ عقبی صحن ، گیراج، سرونٹ کوارٹرز،لان اور ویزہ سیکشن کی انٹری، گزرگاہ سب چیک کیں، ساتھ ہر جگہ ہونے والے مطلوبہ کاموں کا بتاتے گئے اور میں سب نوٹ کرتا رہا۔
اب ہر بندہ اپنی جگہ الرٹ تھا۔ اور ریسپشن کے ارد گرد موجود تھا۔ جب وہ مجھ سے مخاطب تھے اور ہدایات دے رہے تھے تو سب سن رہے تھے۔ میں نے بھی چھٹی سے پہلے کچھ میٹریل منگوا کے بندے کام پہ لگا دیے ۔
ہفتہ بھر کام چلتا رہا ۔ سفیر صاحب روزانہ آتے جاتے مجھے بلا کر مزید ہدایات دیتے رہے۔اس ایڈونچر کا فائدہ یہ ہوا کے چانسری میں میری لوکل سٹاف میں چوہدراہٹ مصمم طور پہ تسلیم ہو گئی۔سب کی کانا پھوسی بند ہو گئی ۔ ڈپلومیٹس کے آگے میری دبی دبی شکایتیں بھی بند ہو گئیں ۔سفیر صاحب کی انتظامی مہارت کا یہ ادنٰی سا نمونہ تھا۔ جس سے ڈسپلن صحیح ہو گیا، ساتھ چانسری کی عمارت کی تزئین ِنو بھی ہو گئی۔ ہمارا اعتماد بحال ہو گیا۔

پنڈی سے شبیر صاحب ملنے آئے۔ ہم نے سفیر صاحب سے اجازت لے کر ویزہ انچارج چوہدری کے ہمراہ اس سے کورڈ مارکیٹ کے ریستوران میں ملاقات کی۔ ڈاکٹر ارشاد نے شکیل صاحب جو شبیر کے قریبی دوست تھے،مل کر یہ ویزہ فروشی کا کام شروع کیا۔ کچھ عرصہ شکیل مڈل ایسٹ جاتا ،ویزے لاتا اور دونوں مل کے بندے بھجوا دیتے ۔
ڈاکٹر جلدی کروڑ پتی بننے کے چکر میں ہیرا پھیری میں پڑھ گیا۔ شکیل سے جھگڑا ہوا ۔ ڈاکٹر نے اپنے اثر ورسوخ سے اس پر کیس بنوا کے اسے گرفتار کرا دیا۔ خود مارکیٹ میں فعال تو تھا، یہ چار سو ویزوں کی بات مشہور کی اور لوگوں سے فارم پُر کراتے پیسے جمع کرنے لگا۔ جس کے لیے اس نے پنڈی ہوٹل میں بھی قیام کیا اور ہم سے ملاقات کی۔
ڈاکٹر نے جتنے فارم جمع کیے وہ بائی ایئر کارگو کرا کے فرضی پتے پر بھجوا دیئے کہ لوگ مطمئن رہیں۔
شکیل نے ضمانت کرائی ۔۔ باہر آ کے خفیہ طور پہ ڈاکٹر کے دھندے کی تفصیل لی۔ کارگو سلپ کی کاپی بھی لے لی۔
وہ تین دن کے لیے مڈل ایسٹ گیا۔ وہاں سے وہ تین کارٹن کسی طرح لے کے واپس آ گیا۔ ایف آئی اے والوں سے تو اپنی گرفتاری میں وہ یاری بنا چکا تھا۔ یہ تفصیل شبیر صاحب نے بتائی ۔ چوہدری بہت پریشان ہو گیا لیکن اسے شبیر نے تسلی دی کہ کہیں بھی ایمبیسی یا اس کا نام نہ آیا ہے ،نہ آ سکتا ہے، میں نے چوہدری کو حوصلہ دیا اور سمجھایا کہ جب اس نے ڈاکٹر کو پیسے بھی نہی دیے تو جن سے لیے ان کو واپس کر دے، فکر کی بات نہیں ۔
میں نے اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا کہ سفیر صاحب کے علم میں یہ کیس ہے ۔۔۔
شبیر نے بتایا کہ ڈاکٹر ابھی گرفتار ہے۔ اور ہو سکتا ہے شکیل کے ساتھ اسکی صلح ہو جائے ۔ اور دونوں دوبارہ مل کے کام کرنے لگیں ۔ ہم نے تعجب سے پوچھا۔ ۔۔ وہ کیسے؟؟

شبیر نے بڑی شفقت سے کہا۔ تم ابھی بھی بچے ہو۔ بھئی اس طرح ہی ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔۔
یوں کافی پی کے، شبیر کو رخصت کیا۔ چوہدری اور میں واپس چانسری میں آ رہے تھے کہ چوہدری نے کاندھے پر ہاتھ رکھ کے میرا شکریہ ادا کیا۔ دعائیں دیں اور کہا۔۔ ویری سوری ۔ خان میں تمہیں غلط سمجھتا رہا،نیکی کو دریا میں ڈالنا آسان ہے لیکن بے وجہ کی گئی بدی بھولنا مشکل ۔ میں نے کہا۔ آپ میرے بڑے بھائی ہیں !
سیکرٹری صاحبہ اور چوہدری سے عفّو و درگزر چکوال کی دعاؤں ، سفیر صاحب اور شبیر صاحب کی شفقت کا پرتُو تھا۔۔
ورنہ ہم تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے قائل ہیں ۔۔۔

چکوال ، صادق کو اِنکم ٹیکس پریکٹیشنر ،آئی ٹی پی کے لائسنس بنوانے کے لیے ہم بھی اپنی مارک شیٹ دے آئے تھے۔ اس نے وہاں کے ٹیکس آفس میں کچھ یاری گانٹھ لی تھی۔ انسپکٹر کے ہاتھ اس نے درخواستیں سنٹرل بورڈ آف ریونیو میں بھجوائیں۔ جن پر اصل ڈگری پیش کرنے کا حکم بائی پوسٹ موصول ہوا۔ صادق نے اسی انسپکٹر کے ہاتھ فائل اصل ڈگری سمیت مجھے اسلام آباد بھیج دی۔ ہم نے بورڈ میں جاننے والے کا سراغ لگا لیا تھا۔
کورڈ مارکیٹ سے واپسی پر چوہدری سے کہا کہ میں میلوڈی تک جا رہا ہوں کوئی پوچھے تو دھیان رکھنا۔
کار پہ ہم دو منٹ میں سی بی آر میں تھے۔ ریاض نقوی صاحب جو بعد میں چیئرمین بنے اس وقت چیف تھے۔۔۔دوسری منزل پہ ان کے آفس پہنچے۔ چپڑاسی بھی گرائیں نکلا۔ اس نے جھٹ سے اندر بھیج دیا،شاہ جی کی پرسنائلٹی بہت رعب دار تھی۔۔ لیکن بہت ہی خوش مزاج تھے، مجھے دیکھا اور کہنے لگے ۔
تم لگتے تو چکوال کے ہو۔۔ چلو اپنا ڈاکخانہ بتاؤ۔۔
ہم نے یوں تعارف کرایا۔ شاہ جی میں محمد خان ، آپ کے کلاس فیلو، دوست بریگیڈیر افتخار کا ۔۔۔
میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ کرسی سے اٹھے ،مجھے گلے ملے۔ کہنے لگے، اوہ اچھا تو تم وہ ہماری بھابھی کے پھوپھی زاد جسے باقی سب کو چھوڑ کے افتخار زیارت پہ ساتھ لے گئے تھے ۔۔
چپڑاسی کو بُلایا ۔۔ اوئے شیر دل یہ گرائیں ہے چل جلدی سے جا دودھ پتی بنا کے لا۔ ساتھ کھانے کو بھی کچھ۔۔
فائل دیکھ کے پوچھا ، کیا امپورٹ کیا ہے کچھ ؟ کسٹم کا مسئلہ ہے کیا ؟
میں نے فائل کھول کے سامنے رکھی اور بتایا کہ اِنکم ٹیکس کی وکالت شروع کرنی ہے ۔ اتنی دیر میں وہ سی بی آر کا خط پڑھ چکے تھے۔ کسی کو فون ملا کے اپنے دفتر آنے کو کہا۔ تھوڑی دیر میں متعلقہ افسر صاحب حاضر ہو گئے۔
نقوی صاحب نے فائل انہیں دی اور کہا۔ سب کام چھوڑ کے یہ لائسنس بنا کے لے آئیں ۔۔
ہمارے دودھ پتی کے ساتھ پکوڑے کھانے تک اصل ڈگریاں اور لائسنس اسی فائل کور میں ہمارے پاس تھے۔
اجازت مانگی تو شاہ جی نے پیروں والے انداز میں رزق میں برکت کی دعا دی ۔ ہم نے انکے گھٹنے چھوئے اور واپس چانسری آ گئے۔ اس دوران ایمبیسی میں خیر خیریت رہی ۔

ہم اپنے دفتر میں براجمان ہوئے۔ ڈاک چیک کی،اسسٹنٹ صاحب آ گئے ،کچھ دفتری امور پہ بات ہو رہی تھی کہ انٹر کام پہ سفیر صاحب نے طلب کر لیا۔ہم نے ان کے پوچھے بغیر ڈاکٹر کی ویزہ واردات کا انجام گوش گزار کیا۔ وہ بس مسکراتے رہے ۔
سی بی آر سے آئی ٹی پی لائسنس کی خوش خبری سنائی تو بڑی دل کھول کے مبارک باد دی اور فرمایا ۔۔So now you won’t be coming to my country !
میں نے انتہائی احترام سے جواب دیا I would love to work for you if it would be possible
انہوں نے فرمایا۔ چلو یہ بھی دیکھیں گے، تمہاری ایک بات درست ثابت ہوئی ، میں چھ ماہ تک یہیں رہوں گا ۔۔۔

آئیے اب آپ کو سونے پہ سہاگہ کی بات سناتے ہیں ۔
شام پانچ بجے ہم فارن آفس کے سامنے ڈپلومیٹک انکلیو کے کمرشل ایریا میں بریگیڈیر صادق نواز کے آفس میں ان سے ملنے پہنچے۔ کار پارک کی تو سامنے نئے ماڈل کی ہنڈا اکارڈ کھڑی تھی ملک وائیٹ کلر، مخروطی نئی شیپ۔ ہم اسے دیکھنے لگے، سفید وردی پہنے ڈرائیور نے آ کے سلام کیا۔ پوچھا بھائی یہ گاڑی ہے کس کی۔ بولا جن سے آپ ملنے آئے ہیں !
غور سے اسے دیکھا۔ یاد آیا اس سے بنک میں ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ہمیں گائیڈ کرتے دفتر کے اندر لے گیا۔دفتر بالکل فلموں میں دیکھے امریکی طرز پہ سیٹ کیا ہوا تھا۔ مین آفس حال تھا، ورکنگ ڈیسک،کانفرنس ٹیبل، ریسٹ ایریا،کافی بار، واش روم اور ہر شے شفاف چمکدار، بریگیڈیر صاحب ایزل کے ساتھ کھڑے ٹیلیکس پڑھ رہے تھے، سلام کیا متوجہ ہوئے ۔۔عینک اتار کے دیکھا اور بڑے تپاک سے ملے، کافی کا کہہ کے،ہمیں ساتھ لے کے ریسٹ ایریا میں صوفے پر بیٹھ گئے۔ گپ شپ ہوتی رہی۔
دفتر بنیادی طور پہ امریکہ کی کمپنی ٹیلی ڈائن ایس اے کا تھا جس میں بریگیڈیر صاحب وائس پریزیڈنٹ تھے۔ ابو ظہبی سے اسلام آباد شفٹ کیا گیا یہ دفتر ٹیلی ڈائن کے مارکیٹنگ نیٹ ورک ، مڈل ایسٹ سے فار ایسٹ کا تھا۔
صادق صاحب نے اس بارے بریف کیا۔ اکاؤنٹس بنانے اور فنانس کی سپرویژن مجھے کرنا تھی، جس کے لیے ہفتے میں چار ،پانچ دن شام کو گھنٹہ بھر درکار تھا۔ تنخواہ بارے کوئی بحث نہ ہوئی انہوں نے بتایا بجٹ میں تین ہزار ماہانہ ہے۔
میں نے ہنس کے کہا اس کے بغیر بھی میں اتنا کام کر سکتا ہوں ۔ دو فل ٹائم کلرک جو تھے، وہ بھی ہنس دیئے۔۔۔
کہنے لگے اب میرے ذاتی دو پراجیکٹ ہیں ۔ ایل پی جی مارکیٹنگ اور ڈی ایچ ایل کوریئر سروس ۔۔۔
میں نے بہت ادب اور سنجیدگی سے کہا، سر یہ سارا کام میرا بھی ذاتی ہے، آپ میرے بزرگ ہیں ان کے لیے کوئی اُجرت نہیں لوں گا۔ بس آپکی شفقت اور دعا کافی ہے۔۔
ان کے چہرے پہ طمانیت بکھر گئی ۔ فرمایا وہ ہم دیکھ لیں گے ۔۔
گیس پراجیکٹ کا لاہور کے مشہور سونے کے سوداگر سیٹھ کے ساتھ ڈرافٹ ایگریمنٹ کی کاپی مجھے دی۔ دو دن بعد میٹنگ طے تھی۔ میں نے اجازت طلب کی کہ اس کا متبادل تجویز کر سکتا ہوں ! فرمایا کیوں نہیں ۔
اس کے ساتھ وہ گھر روانہ ہونے کو نکلے۔
میں نے سٹاف سے ملاقات کی۔ حفیظ سے فون پہ بات ہوئی تھی اور اس نے ہی میرے ساتھ اکاؤنٹس میں کام کرنا تھا، وہ تو مجھے پسند آنا تھا دیگر بھی بہت خوش اخلاق اور مؤدبانہ روش کے احباب تھے۔
ہم نے بے تکلفی کے لیے کہا۔ کل آپ سب کو مٹھائی کھلائیں گے ۔۔ وہ سب اس اپنائیت سے خوش ہوئے ۔
ایگریمنٹ کی کاپی اور ٹیلی ڈائن کا کاپی ٹائپ بروشر لے کے ہم بھی ان سے رخصت ہوئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply