لا لہ باجی۔۔۔رفعت علوی/دوسری قسط

مہتاب منزل میں ہر وقت ایک سناٹا طاری رہتا، اس لق و دق پھولوں سے بھرے گھر میں جہاں ایک طرف سرخ گلاب اپنی بہار دکھلاتے تو دوسری طرف خوش رنگ ٹیولپ اپنے رنگ بکھیرتے رہتے، آفس ٹائم کی کیاریوں میں تتلیاں منڈلاتی رہتیں، پام کے لمبے درختوں پہ پرندوں کی چہکار تو سنائی دیتی مگر انسانوں کی آوازیں کم کم ہی سننے میں آتیں، وہاں نہ تو سُریلی آوازیں سنائی دیتیں، نہ قہقہوں کے ارغنوں بجتے اور نہ ہی چھوٹی موٹی معصوم شرارتوں سے فضا رنگین اور شوخ رہتی۔۔

تم کو یاد تو ہے نا وہ مہتاب منزل؟ لالہ باجی نے اپنی یادوں کی بازیافت سے باہر نکل کر مجھ سے پوچھا
ہاں۔۔۔ ہاں۔۔! تم کیوں بھولے ہوگےاس کو، بھوت بنگلہ جو کہتے تھے تم اور تمھارے سارے دوست، وہ میرے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ دیکھ کر خود ہی بولیں۔۔
وہاں مہتاب منزل میں شاید میرا دوسرا دن تھا، مہتاب منزل کی اونچی چاردیواری پہ ڈھلتی دھوپ آہستہ آہستہ دوسری طرف اتر رہی تھی، تنہائی اور خاموشی سے اکتا کر میں کسی کتاب کی تلاش میں لائبریری کی طرف نکل گئی، دروازے پر ہی کسی کی آواز نے میرے قدم روک دیئے، کوئی بہت ہی دل سوز آواز میں گنگنا رہا تھا
کم سےکم مجھ پہ وہ خوشی ہے حرام،
جو کسی کے لیے  ضرر ٹھہرے”
میں نے دروازے پہ پڑے دبیز ریشمی پردے کو ایک طرف ہٹا کر اندر جھانکا، وہاں کوئی تھا ،دروازے کی طرف پیٹھ کیے، کتابوں کی شیلف پہ جھکا ہوا، میں ٹھٹھک گئی، میرے قدموں کی آواز پر وہ میری طرف مڑا، فراخ اور کشادہ پیشانی پہ سجی دو سیاہ آنکھیں اوپر اٹھیں اور میرے چہرے پہ آ کر ٹک گئیں۔
“یہ اپولو کا مجسمہ یہاں کیسے آگیا” میرے دل نے بےساختہ کہا
“اسے تو یونان میں کسی سائیکی کے قدموں میں ہونا چاہیےتھا”
نہیں معلوم کتنا وقت گزرا، میں یونہی پردے کو تھامے کھڑی رہی، سیاہ چمکدار آنکھیں میرے چہرے تک آتی رہیں اور واپس لوٹتی رہیں
آخر کار وہ اپولو کا مجسمہ اپنی جگہ سے ہِلا اور اپنی دل آویز آواز میں بولا
“آئیں اندر آجائیں”۔۔۔
میں کسی سحر زدہ انسان کی طرح بیخودی میں دو قدم آگے بڑھی
” گھبرائیں مت، میں آفتاب ہوں، نجمی اور عدمی کا بھیا”۔۔
“جی مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ اس وقت یہاں ہونگے” میں نے بےخیالی میں آگے بڑھ کر ایک کرسی کی بیک پر ہاتھ رکھ دیا
مسکراہٹ کی ایک کرن ان کے چہرے پہ طلوع ہو کر غروب ہوگئی
تشریف رکھیے، انھوں نے اپنی چوڑی کلائیاں ہلا کرکرسی کی طرف اشارہ  کیا
میں کھڑی رہی سحر زدہ بےبس، جیسے اپنے بس میں نہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کوئی بچی نہیں تھی رفعت، لالہ باجی ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بولیں۔۔
نہ تو کچی عمر کی کوئی ٹین ایجر تھی اور نہ ہی کمزور، تجسس اور خوابوں کی دہلیز پر کھڑی کم عمر لڑکی، کالج اور یونیورسٹی دونوں جگہ کوایجوکیشن میں پڑھ چکی تھی، لڑکوں سے باتیں کرنے کا سلیقہ تھا مجھے، کتنے ہی اسمارٹ لڑکے خود مجھ سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈا کرتے تھے ان دنوں، مگر میری ایسی حالت کبھی نہ ہوئی تھی، لگتا تھا کتاب عقل طاق پہ دھری رہ گئی ہے، میں تم کو کیسے بتاؤں کس طرح بتاؤں؟ بتا ہی نہیں سکتی کیونکہ چاک پیرہنی گُل کو صرف صبا ہی جانتی ہے۔۔
میں کھڑی رہی سحر زدہ، جیسے اپنے بس میں نہ تھی۔
ارے بھئی بیٹھیے نا، اس بار اپولو کے مجسمے نے ذرا زور دے کر کہا
“اپنے قدموں پہ بیٹھنے کی اجازت دو، زندگی بھر بیٹھی رہوں گی” میرے لبوں پہ بات آ کر ٹوٹ گئی اور میں چپ چاپ کرسی پہ ٹک گئی۔۔
مجھے آج بھی یاد نہیں رفعت کہ اس وقت کیا گفتگو ہوئی مگر جب وہ کیفیت یاد آتی ہے تو دل میں ستارے سے اترنے لگتے ہیں،

میرےہونٹوں پہ تحیر کا سکوت اور کبھی زمزمہ خوانی انکی،

میرے بیتاب تکلم کا جواب صرف محتاط بیانی انکی۔ ۔

کتنی بےربط رفاقت سے بنی اتنی مربوط کہانی میری،

نہ ڈھلا وقت سے مہتاب جمال، نہ ھوئی بات پرانی اپنی۔

وہ کیا پوچھتے رہے، میں کیا جواب دیتی رہی مجھے کچھ یاد نہیں۔۔ بس اتنا یاد ہے کہ جب میں واپس آرہی تھی تو گل لالہ وہیں رہ گئی تھی اسی کمرے میں ، اسی کرسی پہ جس کے سامنے وہ اپولو کا مجسمہ ایک شان ِدل ربائی سے کھڑا اس سے کچھ کہہ رہا  تھا اور میرے ہاتھ میں کسی مصنف کی کتاب تھی، مصنف کا نام تو یاد نہیں مگر کتاب کا نام تھا “شکست”
وہ شکست جس پر میں مسرور تھی، ایسی شکست جس پر مجھے کبھی ندامت نہیں ہوئی۔۔
وہ ایک گہری سانس لے کرخاموش ہوگئیں اور اپنی کتھئی آنکھیں سائیڈ ٹیبل پر بچھی شطرنج کی بساط پر جما دیں۔
کاش میں اس دن وہاں اس لائبریری نہیں گئی ہوتی، کاش اس دن آفتاب وہاں نہ ہوتے، کاش میں مہتاب منزل نہ آئی ہوتی، کاش پی آئی اے کی فلائیٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی آواز بھرا گئی
آفتاب، آفتاب احمد، مجھے اس شخص پر رشک آنےلگا۔۔
تم کون تھے آفتاب احمد۔۔۔۔۔۔۔۔
لالہ باجی جیسی لڑکی کی ساحر آنکھوں نے جس شخص کی بے سود عبادت کی تھی، وہ آفتاب احمد اب کہاں تھا جس نے لالہ باجی کے دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا، وہ شخص جس کے تصور میں ایک پری زادی نے اپنی زندگی لٹا دی، جس سے بچھڑ کر گل لالہ کے سب سنگھار ونگار، کپڑے وپڑے، زیور ویور، آنکھوں کے ساغر واغر سب پھیکے پڑ گئے، وہ آفتاب کہیں تو چمک رہا ہوگا،
آفتاب ۔۔۔۔۔۔
تم کون ہو آفتاب اور اب کہاں ہو؟
تم کتنے خوش نصیب تھے!
خوش نصیب یا بد نصیب۔۔؟
یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی تھا، بے نیاز وقت کا فیصلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہی لائبریری تھی،
کرسی بھی وہی
وہی کمرہ جہاں پہلی بار محبت میرے دل پہ وحی کی طرح اتری تھی
مگر وہ قاتل دل و جاں آج وہاں نہیں تھا۔۔
ان کی مخصوص پڑھنے لکھنے والی میز پر دست صبا الٹی رکھی تھی۔
میں نے کتاب اٹھا کر دیکھی، چار مصرعوں کو ہائی لائٹ کیا گیا تھا

تنہائی میں کیاکیا نہ تجھے یاد کیا ہے
کیاکیا نہ دلِ زار نے ڈھونڈھی ہیں پناہیں
آنکھوں سے لگایا ہے کبھی دست صبا کو
ڈالی ہیں کبھی گردنِ مہتاب میں بانہیں

میں نے بےاختیار جھک کر ان اشعار کو چوم لیا پھر شرم سے سرخ ہو کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔۔
کھڑکیوں سے پردے ہٹے ہُوئے تھے نرم دھوپ اور جالیوں سے چھن چھن کر خوشگوار ہوا کے جھونکے اندر آ رہے تھے، خنک ہوا آتی تو اپنے ساتھ چٹخے  ہوئے غنچوں کی بھینی بھینی پُر کیف مہک بھی ساتھ لاتی۔
اور سامنے رکھی ہوئی میز پر شطرنج کی بساط بچھی تھی۔۔
مجھے شطرنج سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، کبھی بھی نہ تھی، مگر اس وقت میں شطرنج کی بساط پر جھک کر اس کے مہروں سے جان پہچان کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔
پیادہ جو صرف آگےبڑھ سکتا ہے، اس کے نصیب میں واپسی نہیں ہوتی لیکن اگر وہ بساط کے مقتل سے گزرکر صفیں اُلٹ پلٹ کر اپنا سر بچا لے جائے، ہاتھی، گھوڑوں اور توپوں سے جان بچا کر اوپر تک پہنچ جائے تو بادشاہی کا تاج بھی اس کے سر پر سج سکتا ہے۔۔
کتنی قریب ہےاس پیادے کی قسمت ہماری حقیقی زندگی سے، میں نے سوچا
ہاتھی، گھوڑے اور توپ سب کے سب قربان ہونے کو تیار۔۔
ایک محصور ملکہ اور ایک بےبس بادشاہ جو صرف ایک خانہ چل سکتا ہے
عجیب کھیل تھا۔۔۔۔

دروازے پہ آہٹ ہوئی ایک مخصوص پرفیوم کی خوشبو کمرے میں در آئی، میں نے پلٹ کر دیکھا، وہی غارت گرِایماں اپنی ملکوتی مسکراہٹ کے ساتھ کھڑا تھا، میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی
آپ کو شطرنج کھیلنا آتا ہے، انھوں نے مجھے شطرنج کی ٹیبل کے پاس بیٹھے دیکھ کر پوچھا
جی نہیں، مجھے تو مہروں تک کا پتا نہیں، میں انکی طرف دیکھے بغیر کہا، کتنا مشکل تھا ان سے آنکھیں ملا کے بات کرنا
ذرا مشکل کھیل ہے، مگر ایک مرتبہ کھیلنا آگیا تو گیم چھوڑنے کا دل نہیں چاہتا آپ سیکھیے گا؟ وہ  ذرا قریب آگئے
جی، میں نے اثبات میں سر ہلادیا۔۔۔مگر  ذرا زیادہ ٹائم لگ سکتا ہے اس کو سیکھنے میں، کافی دیر بیٹھنا پڑے گا میرے ساتھ، انھوں نے مسکرا کے کہا، وہی ظالم مسکراہٹ جس پر کسی معصوم بچے کی مسکراہٹ کا گماں ہوتا تھا۔۔۔
تمھارے ساتھ!! کیوں نہیں، تمہارے ساتھ بیٹھنا تو حاصل ِزندگی ہے، میں نے دل میں کہا اور خاموشی سے گردن ہلا دی۔
وہ سامنے بالکل میرے سامنے کرسی پر بیٹھ کر نرم لہجے میں مجھے بچوں کی طرح سمجھانے لگے، جانے کتنا وقت گزرا مجھے پتا نہیں چلا، میں اپنے آپ ڈوبتی رہی ابھرتی رہی، الجھتی رہی، مہروں کی چالوں پہ باتیں کرتےکرتے یک لخت ایک حساس سی خاموشی کا وقفہ آیا، ایسی خاموشی کہ میری چوڑیوں کی کھنک کی آواز اور بس، کچھ سنہرے لمحے جنکی گرہوں سے بندھی سانس کی مہک اور بس، ایسا لطیف لمحہ جب صرف دل باتیں کرتے ہیں اور بس، کسی لمس کی کرنیں، نظر کے زاویے  اور دل کی دھڑکن بس!
اچانک دروازے پر ایک شور ہُوا، آندھی اور طوفان کی طرح وہ اندر داخل ہوا اور ہم اپنی بے خبر دنیا سے باہر نکل آئے
یہ نجمی تھا۔۔۔۔
نجمی، جتنی دیر گھر میں رہتا اسی طرح شور ہنگامہ اُدھم، دھماچوکڑی  مچی رہتی۔۔
بوٹی بوٹی تھرکتی تھی اس کی، نچلا بیٹھنا تو آتا ہی نہیں تھا، بجلی سی بھری تھی اس کی رگ رگ میں، ہر وقت کچھ نہ کچھ ہنگامہ، کیرم کے ساتھ آئس کریم، تاش کے ساتھ چائے اور بیڈ مینٹن کے ساتھ کولڈ ڈرنک اس کا پسندیدہ کمبی نیشن تھا۔۔
دو بھائیوں کی فطرت میں اتنا فرق میں نے پہلے کبھی  نہیں دیکھا   تھا۔۔
اس وقت بھی وہ سفید پتلون قمیض پہنے اور سفید موزے جوتے چڑھائے ہاتھ میں بیڈمنٹن کا ریکٹ گھما رہا تھا
افوہ، اس قدر بور کھیل، اس نے میراہاتھ پکڑ کر کرسی سے کھڑا کر دیا
ارے ارے میرا بادشاہ۔۔۔۔پٹ جائے گا
“بادشاہوں کے تختے تو الٹتے ہی رہتےہیں، ویسے بھی ان کو ملکہ سے زیادہ اپنے تخت و تاج سے محبت ہوتی ہے” اس نے شرارت سے مسکرا کے کہا
میں نے سہم کر آفتاب کی طرف دیکھا جو چہرے پہ ایک شفیق مسکراہٹ سجائے اپنے چہیتےبھائی کی طرف دیکھے جا رہے تھے۔
چلو یار لالی باہر چلو، اتنا زبردست موسم چل رہا ہے، دو چار گیم ہو جائیں، کل وائی ایم سی میں چمپئن شپ شروع ہو رہی ہےکچھ پریکٹس بھی ہوجائے گی، نجمی نے میرا ہاتھ تھام کر کہا
“چل رہی ہوں میرا ہاتھ تو چھوڑو”، میں نے کسمسا کر اپنا ہاتھ اس سے چھڑایا۔۔
آفتاب۔۔۔۔۔میں نے شکایتی نظروں سے انکی طرف دیکھا
“شام کو سیکھ لیجیے  گا”میری دل کی کیفیت سے بے خبر وہ بے نیازی سے شطرنج کی بساط پر جھک گئے
ارے سنگدل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے آفتاب جہاں تاب۔۔۔۔۔۔۔
ذرا اپنےآشفتہ مزاجوں کی خبر  رکھ
اے مرے شہرزاد۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں بیدلی سے باہر نکل آئی، میں کیسی دل گرفتہ تھی یہ سوچ سوچ کر، یہ سلسلہ جو ہے رگِ گُل کا، شاخ ِتمنا کا، یہ ساعت جو ہے گُل تر کی سی، یہ شام جو گزری جارہی ہے سُبک سر سی، کہیں رائیگاں نہ چلی جائے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں مبہوت بیٹھا لالہ باجی کی داستان زندگی کا ورق ورق سنتا رہا۔۔
ان کی یادوں بھرے اچھے دن، ہنستے گاتے مسکراتے دن، سب کے سب ہوا کے جھونکے اور رنگ بھرے پھولوں کے موسم کی طرح میرے دل میں خوشبوؤں کی طرح آتے رہے جاتے رہے اور ان کے سارے خواب، سنہرے خواب میرے دیدہ نمناک میں لہراتے رہے۔۔
اے گُلِ لالہ تیری ان کہی داستان میں کئی چاند ہیں، کئی پھول ہیں، تیری زندگی کی راہگزر میں بہت دھول ہے، کچھ خواب ہیں کچھ سراب ہیں، ابھی درد آئے گا دبے پاؤں لیے سرخ چراغ،
میں کیا کروں آپ کے لیے لالہ باجی؟ اور میں کر بھی کیا سکتا ہوں؟۔۔۔

 

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply