• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کنٹرول لائن پر کھڑے فوجی بھی لڑنے سے انکار کردیں۔۔۔۔اسد مفتی

کنٹرول لائن پر کھڑے فوجی بھی لڑنے سے انکار کردیں۔۔۔۔اسد مفتی

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ 60اسرائیلی فوجیوں نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فوجی خدمات انجام دینے سے انکار کردیا ہے۔انہوں نے ایک پٹیشن تیار کی ہے جس میں اپنے فیصلے کی وجہ بیان کی گئی ہے۔کہ اسرائیلی فوج فلسطینیوں سے زیادتیاں اور توہین آمیز سلوک کررہی ہے۔
اخبار کے مطابق ستمبر2013میں فلسطینیوں کی تحریک انتخادہ دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 500اسرائیلی فوجی فلسطینی علاقوں میں جانے سے انکار کرچکے ہیں،جبکہ ان میں سے 400فوجیوں کو سزا بھی دی گئی ہے۔
میرے حساب سے یہودی ریاست اسرائیل میں مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں اور صیہونی سیاست کے حامل افراد میں عربوں سے تعلقات کے مسئلہ پر سخت نظریاتی اختلاف ہیں،مذہبی عقائد کے حامل یہودیوں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ جو ناانصافیاں ہورہی ہیں،اور ان پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں،وہ قطعاً مناسب نہیں ہیں۔کثیر عرب آبادی کے درمیان رہ کر ان کو اپنا مخالف بنا لینا درست نہیں،ان کا کہنا بھی معقولیت پر مبنی ہے کہ عرب ہمیشہ کمزور اور باہمی اختلافات کا شکار نہیں رہیں گے،اگر وہ متحد اور مضبوط ہوجائیں تو اسرائیل کا کیا حشر ہوگا؟۔۔۔لیکن صیہونی سیاست کے زیرِ اثر جن کے پاس فوجی قوت اور حکومت کی طاقت ہے مذہبی عقائد کے حاصل یہودیوں کی آواز موثر نہیں،اس کے باوجود مذہبی عقائد کے حامل یہودی(اب فوجی جوان بھی)اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہاں تک کہ فلسطینیوں کی تائید میں جو جللوس نکالے جاتے ہیں ان میں یہودی مذہبی رہنما (ربی)بھی شریک ہوتے ہیں۔جو سمجھتے ہیں کہ صیہونیت نہ صرف اسرائیل کے لیے بلکہ یہودیوں کے لیے بھی خطرناک ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ صیہونی سخت نسل پرست ہیں،دنیا کی غیر یہودی آبادی سے انہیں ذرہ برابر ہمدردی نہیں۔
امریکی اور عرب ان کی نظروں میں برابر ہیں،بارہ سو سال کی تاریخ میں یہ قوم اور ہر ملک نے یہودیوں کے ساتھ ناانصافیوں روا رکھیں اور ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔مسلمانوں کی پوری تاریخ میں کسی وقت بھی یہودیوں کے ساتھ کوئی بھی ناانصافی نہیں ہوئی۔اور نہ ہی کبھی یہودیوں کو شکایت کا موقع ملا،یہودیوں اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات کبھی بھی پوشیدہ نہیں رہے۔جب بھی کسی مکل میں بالخصوص عیسائی مملکت میں ان کے ساتھ ناانصافیاں حد سے بڑھیں تو وہ اسلامی ملکوں اور شہروں میں پناہ لیتے،ٓج اپنے اغراض کے تحت انہوں نے امریکی پشت پناہی حاصل کی ہے،لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ دل سے ان کے دوست ہوں،صیہونی لابی یہ جانتی ہے کہ وہ تنہا عربوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔اس لیے امریکہ جیسی سُپر پاور کی بھرپور تائید حاصل کرنا ان کے لیے ناگزیر ہے۔
صیہونی ادارے یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اُس کی دوگنی تیزی سے وہ ان کی نفرت کا شکار ہورہے ہیں،صرف مقبوضہ فلسطین کی مجموعی ٓبادی میں فلسطینیوں کی افزائشِ نسل کی شرح تقریباً 5فیصد سے اوپر ہے۔ٓبادی میں اضافہ کی رفتار اگر ایسی ہی رہی تو 2020مقبوضہ فلسطینی مجموعی آبادی میں فلسطینیوں کی آبادی کا تناسب 58فیصد ہوجائے گا۔
اس بات کا انکشاف اسرائیلی یونیورسٹی کے ایک سروے میں کیا گیا ہے۔اسی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ فلسطین کی سرزمین پر فلسطینیوں کی حالیہ آبادی 18سالوں میں 13لاکھ سے بڑھ کر 24لاکھ ہوجائے گی۔جبکہ مغربی کنارہ اور غذہ پٹی میں ان کی آبادی 30لاکھ سے بڑھ کر 56لاکھ ہوجائے گی۔
اس سروے کی وجہ سے جہاں ایک طرف اسرائیل کی صیہونی لابی مستقبل میں فلسطین میں “آبادیاتی بم”سے اندیشے محسوس کررہی ہے،وہیں یورپ کے یہودیوں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔انہیں خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ مغربی یورپ میں ہونے والی ہوش رپا آبادیاتی تبدیلی کے منفی اثرات اور خطرناک نتائج وہاں کے (مغربی یورپ) کے یہودی باشندوں پر ضرور مرتب ہوں گے،مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے گھبرا کربین الاقوام ییہودی کا نگریس نے اپنی ایک رپورٹ میں “یورپ میں اسلام کا فروغ “کے نام سے ایک سروے کیا ہے۔اس رپورٹ میں یہودی کانگریس نے لکھا ہے کہ”بیسویں صدی کے آخر میں یورپ ” میں مسلمانوں کے احوال و کوائف میں غیر معمولی انقلاب رونما ہاو ہے۔اسی رپورٹ میں آگے چل کر کہا گیا ہے کہ آج کل یورپ میں مذہب اسلام کو زبردست فروغ حاصل ہورہا ہے۔چنانچہ یہاں  یورپی  یونین میں شامل ممالک میں 2 کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں ۔(لفظ “سمجھتے “پر غور کیجیے)

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ عرصے میں یورپ کے مسلمان قابلِ لحاظ حد تک سیاسی طاقتکی نمائندگی کررہے ہیں ۔

اگر مستحکم  سیاسی نمائندگی کا یہی رجحان رہا تو 2020 میں یورپ کی تمام آبادی میں ان کا شرح تناسب 10 فیصد ہوگا ۔یورپی ممالک میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد سے لاحق ہونے والے خظرات کے ثبوت میں یہودی عالمی اکانگریس نے دو مثالیں پیش کی ہیں ۔پہلی مثال برطانہ کی ہے،رپورٹ  کے مطابق برطانیہ میں 1961 میں مسلمانوں کی تعداد 82 ہزار تھی ،اوراب وہاں کی تعداد 50 لاکھ سے بھی زیادہ ہے ۔۔دوسری مثال فرانس کی ہے۔رپورٹ کے مطابق فرانس میں اس وقت قانونی طور پر بسنے والے مسلمانوں کی تعداد 68 لاکھ ہے جبکہ غیر قانونی طور پر لاکھوں تارکینِ وطن مقیم ہیں ۔

بہت کچھ دوستو بسمل کے چپ رہنے سے ہوتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

فقط اس خنجرِ دستِ جفا سے کچھ نہیں ہوتا

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply