• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کے پہلے آئین کی تاریخ/محترمہ فاطمہ جناح۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط13

پاکستان کے پہلے آئین کی تاریخ/محترمہ فاطمہ جناح۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط13

محترمہ فاطمہ جناح، قائداعظم محمد علی جناح کی صرف بہن ہی نہیں تھیں بلکہ وہ ان کی فلسفہ حیات اور ان کی جمہوری اور سیاسی فکر کی بھی امین تھیں۔ ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ اپنے عظیم بھائی کی رفاقت میں بسر ہوا، قائداعظم کے آخری19 برس میں محترمہ فاطمہ جناح نے ہر قدم پر اپنے بھائی کا ساتھ دیا۔ بہن نے بھائی کے فلسفہ حیات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تھا۔ وہی جذبۂ خدمت، وہی جرأت و بے باکی اور وہی یقین محکم محترمہ فاطمہ جناح کی زندگی کا بھی حصہ تھے۔

انھوں نے قائداعظم کے آخری دنوں میں ان کی پوری طرح دیکھ بھال کی اور وہی اس بات کی چشم دید گواہ تھیں کہ قائداعظم محترم لیاقت علی خاں کے طرزِ حکومت سے پوری طرح مطمئن نہیں تھے۔ جیسا کہ انھوں نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے ۔ ان کی کتاب سے جو باتیں حذف کی گئیں تھیں ان میں ایک واقعہ وزیرخزانہ ملک غلام محمد کے حوالے سے ہے مسٹر غلام محمد نے کہا، “مس جناح میں ایک بات آپ کو ضرور بتانا چاہتا ہوں۔ یوم پاکستان پر قائداعظم نے قوم کے نام جو پیغام دیا تھا، اسے خاطر خواہ اہمیت اور تشہیر نہیں دی گئی۔ اس کے برعکس وزیراعظم کے پیغام کے پوسٹر چھاپ کر انہیں نہ صرف شہر شہر دیواروں پر چسپاں کیا گیا ہے، بلکہ ہوائی جہازوں کے ذریعے اسے بڑے بڑے شہروں پر پھینکا بھی گیا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے ان کی بات سن کر خاموشی اختیار کی کیونکہ ان کو پبلسٹی کی ضرورت نہیں تھی انھیں بھائی کی صحت کی فکر تھی۔

یہاں یہ اہم بات سامنے آتی ہے کہ بعض لوگ محترمہ فاطمہ جناح اور وزیر اعظم لیاقت علی خاں کے درمیاں غلط فہمیوں کو ہوا دے رہے تھے۔پاکستان بننے اور قائداعظم کی وفات کے بعد محترمہ فاطمہ جناح کے پیش نظر ہمیشہ یہ رہا کہ کس طرح اس مملکت خداداد کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے اور اسے دنیا کی ایک بہترین مملکت کے قالب میں ڈھالا جائے۔ اس حوالے سے انہوں نے مسلسل جدوجہد کی اور وہ مختلف مواقع پر قوم سے مخاطب بھی ہوتی رہیں۔ انہوں نے پاکستان کے مختلف قومی دنوں اور تہواروں کے مواقع پر ریڈیو پاکستان سے بھی عوام سے خطاب کیا۔ اس سلسلے کا آغاز قائداعظم کی زندگی ہی میں ہوچکا تھا۔
ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ اور محترمہ کی تقاریر کے ایک نایاب مجموعے ’’گلبانگ حیات‘‘ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ریڈیو پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کی پہلی تقریر 5 نومبر 1947ء کو نشر ہوئی تھی۔ قائداعظم کی زندگی ہی میں محترمہ فاطمہ جناح کی دوسری تقریر 28 مارچ 1948ء کو ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے نشر ہوئی۔ محترمہ فاطمہ جناح نے قائداعظم کی رحلت کے بعد ریڈیو پاکستان سے جو پہلی تقریر کی اس کی تاریخ نشریہ27 ستمبر 1948ء ہے۔
ریڈیو پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کی تقاریر کا یہ سلسلہ جاری رہا اور یوم آزادی، یوم وفات قائداعظم اور عیدالفطر کے مواقع پر وہ اپنی نشری تقریروں کے ذریعہ قوم کی راہ نمائی کا فریضہ انجام دیتی رہیں۔ ان تمام تقاریر اور بیانات کے مسودے محترمہ کی تقاریر کے پہلے مجموعے ’’گلبانگ حیات‘‘ میں محفوظ ہیں۔
مگر 11 ستمبر 1951ء کو قائداعظم کی تیسری برسی کے موقعے پر محترمہ فاطمہ جناح کی ایک تقریر کے قضیے نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا۔ جس میں انہوں نے نام لیے بغیر وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت پر تنقید کی۔۔۔۔۔تقریر کی ریکارڈنگ سے قبل ریڈیو پاکستان کے کنٹرولر زیڈ اے بخاری نے، جو تقریر کا مسودہ دیکھ چکے تھے، محترمہ فاطمہ جناح سے درخواست کی کہ وہ اس تقریر کے بعض ’’قابل اعتراض‘‘ حصے حذف کردیں، مگر محترمہ نے یہ بات ماننے سے انکار کردیا اور اصرار کیا کہ ان کی تقریر کو یا تو بلاترمیم نشر کیا جائے یا اعلان کردیا جائے کہ آج وہ تقریر نہیں کرسکیں گی۔۔۔۔۔زیڈ اے بخاری اس وقت تو خاموش ہوگئے کہ مگر عملی طور پر یہ ہوا کہ جب تقریر نشر ہوئی تو سننے والوں نے دو مواقع پر محترمہ فاطمہ جناح کی آواز کو ڈوبتا ہوا محسوس کیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دونوں مواقع ان دو جملوں سے مطابقت رکھتے تھے جن پر زیڈ اے بخاری کو اعتراض تھا۔
یہ معاملہ جونہی محترمہ فاطمہ جناح کے علم میں آیا، انہوں نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور پریس نے بھی فوراً ہی اس کے حوالے سے خبریں چھاپنی شروع کردیں۔

قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں اس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
’’(محترمہ فاطمہ جناح کی) تقریر نشر ہورہی تھی کہ ایک مقام پر پہنچ کر اچانک ٹرانسمیشن بند ہوگئی۔ کچھ لمحے ٹرانسمیشن بند رہی۔ اس کے بعد خود بخود جاری ہوگئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مس جناح کی تقریر میں کچھ فقرے ایسے تھے جن میں حکومت پر کچھ تنقید تھی۔ وہ تو بدستور ان فقروں کو مائک پر پڑھتی گئیں، لیکن ٹرانسمیشن بند ہوجانے کی وجہ سے وہ فقرے براڈ کاسٹ نہ ہوسکے۔ اس بات پر بڑا شور شرابہ ہوا۔ اگرچہ ریڈیو پاکستان کا مؤقف یہی تھا کہ ٹرانسمیشن میں رکاوٹ کی وجہ یہ تھی کہ اچانک بجلی فیل ہوگئی تھی، لیکن کوئی اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ مس جناح کی تقریر میں ضرور کوئی ایسی بات تھی جسے حذف کرنے کے لیے یہ سارا ڈھونگ رچایا گیا ہے۔ اس ایک واقعے نے حکومت کے اعتماد کو جتنی ٹھیس پہنچائی، اتنا نقصان مس فاطمہ جناح کے چند تنقیدی جملوں سے نہیں پہنچ سکتا تھا۔

وزیر داخلہ و اطلاعات کے کمرے میں یہ بات طے کرنے کے لیے میٹنگ ہوئی کہ اس قصے کے متعلق پبلک میں جو چہ میگوئیاں ہورہی ہیں، ان پر کس طرح قابو پایا جائے۔ بے حد طویل اور بعیداز کار بحث و تمحیص کے بعد آخر مسٹر جی احمد نے تجویز پیش کی کہ کسی نام ور شخصیت سے انکوائری کروا کے یہ ثابت کیا جائے کہ مس جناح کی تقریر کی براڈ کاسٹنگ کے دوران بجلی فیل ہوگئی تھی۔ اس انکوائری رپورٹ کی اشاعت کے بعد زبان خلق خود بخود بند ہوجائے گی۔ اس کے برعکس وزیر اطلاعات خواجہ شہاب الدین کو اصرار تھا کہ انکوائری بے لاگ اور غیرجانب دار ہونی چاہیے۔ اگر یہ ثابت ہواکہ بجلی فیل نہیں ہوئی، تو اس کا بھی برملا اعتراف کرنا ضروری ہے، تاکہ عوام کے ذہن میں مزید بدگمانیاں پیدا نہ ہوں۔
تاہم اس جمہوری اور سیاسی دور میں محترمہ فاطمہ جناح نے عملی سیاست سے خود کو الگ رکھا مگر ایوب خاں کے دور میں وہ پاکستان کے آئین کی بحالی اور بالغ رائے دہی کے لئے عملی سیاست میں نکلیں۔

اسکندر مرزا نے اکتوبر 1958 میں فوج کو ملک کے مختلف حصوں میں تعینات کرتے ہوئے پہلی بار آئین کو معطل کر دیا، جبکہ وزیراعظم فیروز خان نون کو بھی عہدے سے ہٹا دیا، ساتھ ہی انہوں نے ملک میں مارشل لگانے کا اعلان کیا جبکہ جنرل ایوب کو اپنا چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر (سی ایم ایل اے) تعینات کیا
تاہم سکندر مرزا کو جلد اندازہ ہوگیا کہ اس نے جس مقصد کے لئے یہ قدم اٹھایا ہے وہ کبھی پورا نہیں ہوگا ایوب خاں اب اس کا پرانا دوست نہیں جس سے مل کر اس نے یہ سب محلاتی سازشوں کا کھیل کھیلا تھا۔ اس کی پناہ وہ آئین تھا جس کو اس نے ردی کے ٹکڑے سمجھا تھا اور اب ایوب خاں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہے اصل اختیار اب اس کے پاس ہے۔ انہوں نے جنرل ایوب کو ہٹانے کے لیے فوج میں اپنے قابل بھروسہ لوگوں کی تلاش شروع کی تاکہ جنرل ایوب خان کو اس عہدے سے ہٹانے کے لیے دباؤ میں لیا جائے، اسی دوران ایوب خان کو ملک کا وزیراعظم بنانے کی ناکام کوشش کی گئی جبکہ انہیں اپنی کابینہ میں ٹیکنوکریٹ کابینہ بنانے کو کہا گیا، تاہم جنرل ایوب خان نے ان کے مذکورہ فیصلے کی بھرپور مخالفت اور مزاحمت کی۔
جب تنازع شدت اختیار کرگیا، تو جنرل ایوب خان نے فوج کو صدارتی محل پر تعینات کرکے اسکندر مرزا کو برطانیہ بے دخل ہونے پر مجبور کر دیا یہ اس شخص کا انجام تھا جس نے ملک کے سیاسی اور جمہوری نظام کو کھیل اور تماشا بنا رکھا تھا اور جس نے ملک کے پہلے آئین کو روند ڈالا تھا۔ بہت سے سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ملک کے سیاسی اور جمہوری نظام کو تباہ کرنے والا، آئین اور قاعدے کی بجائے ملک کو نظریہ ضرورت اور ریاستی ادارے کے حوالے کرنے والا یہی سکندر مرزا تھا اور یہ مغربی پاکستان کے کسی علاقے سے تعلق نہیں رکھتا تھا بلکہ بنگالی تھا میر جعفر کا پڑپوتا۔.

اس طرح جو جمہوریت پہلے ہی سسک سسک کر جی رہی تھی آئین کی منسوخی نے اس کا گلا اور بھی گھونٹ دیا۔ مرکزی اورصوبائی کابینہ برطرف اور قومی اور صوبائی مقنّہ تحلیل کردی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ قوم سے خطاب کرتے ہوئے جنرل ایوب نے کہا کہ ہمارا پہلا اورآخری مقصد جمہوریت کی بحالی ہے لیکن ایسی جمہوریت جسے لوگ سمجھ سکیں اور جو لوگوں کے کام آسکے۔

اس مسلح کارروائی کے بارے جسٹس محمد منیر کا ایک حیرت انگیز فیصلہ سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’کامیابی کے ساتھ حکومت کا تختہ الٹ دینا دستور تبدیل کرنے کا مسلمہ بین الاقوامی طریقہ ہے۔ اس کے بعد انقلاب قانون کا ماخد بن جاتا ہے اور عدالتیں اس کی معینہ حدود کے اندر کام کرسکتی ہیں‘‘۔ اس فیصلے نے ایوب خان کے جاری کیے ہوئے آرڈیننس اور فیصلوں کو قانونی تحفظ فراہم کردیا تھا۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ منسوخ شدہ دستورِ پاکستان کے تحت لوگوں کو حاصل تمام حقوق ختم ہوتے ہیں اور اس کے خلاف کوئی رٹ بھی دائر نہیں ہوسکتی۔
بعد ازاں جنرل ایوب خان نے جنرل موسیٰ کو آرمی چیف مقرر کرتے ہوئے خود کو فوج میں فائیو اسٹار جنرل اور فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے دی،
ایوب خان نے سب سے پہلے اخبارات پر سخت قسم کا سنسر لگوا دیا جس میں مارشل لا اور اس کے قوانین کے خلاف، یا حکومتِ وقت کے خلاف کوئی بھی بات کرنا سخت ترین جرم قرار پایا۔ یہی نہیں بلکہ اُسی دور کی بات ہے کہ چائے خانوں اور عوامی جگہوں پر تختیاں / بورڈ آویزاں کرنے کا حکم تھا جس پر تحریر ہوتا کہ ’’یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘‘۔
ساتھ ہی ساتھ ایوب خان نے اپنے مارشل لا کو عوامی بنانے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر نظامِ حکومت (سسٹم) میں اصلاحات لانے کا اعلان کیا۔ ان اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے جو کمیشن ایوب خان نے تشکیل دیے، ان کی تفصیل اس طرح ہے:
زرعی اصلاحات کمیشن، جہازرانی کمیشن، اسلحہ قانون کمیشن، انتظامیہ کی تنظیمِ نو کمیٹی، قومی تعلیم کمیشن، صدر مقام کے محلِ وقوع کی کمیٹی، کمیشن برائے قرضہ جات، غذائی و زرعی کمیشن، سائنس کمیشن، پولیس کمیشن، کمپنی قانون کمیشن، میڈیکل کمیشن، کھیل و ثقافت کمیشن، آئین کمیشن، قیمتوں کا تعین کرنے کا کمیشن، فلمی بورڈ، فالتو افراد (سر پلس۔ سرکاری ملازمت میں) کا بورڈ، سماجی برائی کمیشن، بجلی کمیشن، مالیاتی کمیشن، قومی آمدنی کمیشن، اقلیتی کمیشن، پریس کمیشن، شکر کمیشن، شادی بیاہ کا عائلی کمیشن وغیرہ وغیرہ۔
ایوب خان نے دو قوانین فوری طور پر نافذ کروائے۔ پہلا قانون
’’پوڈو‘‘
(public office disqualification order)
کے نام سے مشہور ہوا۔ اس قانون کا اطلاق سیاسی عہدیداروں اور سرکاری ملازمین پر ہوسکتا تھا، جس کی سزا پندرہ سال تک تھی۔
اس کے ساتھ ایوب خان نے سیاسی رہنماؤں پر اس سے ملتا جلتا قانون نافذ کیا جو
’’ایبڈو‘‘
(Elective bodies disqualification order)
کے نام سے مشہور ہوا۔ ایبڈو کے جرم میں سزا پانے والے سیاست دانوں کو چھ برس تک کی سزا تجویز کی گئی تھی، مگر اس میں ایک رعایت یہ بھی حاصل تھی کہ سیاست دان ازخود چھ سال کے لیے سیاست سے اپنی دست برداری کا حلف جمع کروائے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے قومی و صوبائی سطح پر 98 سیاست دانوں کو (جو کسی نہ کسی وقت حکومت کا حصہ رہے تھے) نامزد کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی شروع کی گئی۔ ان میں سے 70 سیاست دانوں نے رضاکارانہ طور پر چھ سال کے لیے سیاست سے دست برداری کا اعلان کیا۔ سیاست سے توبہ کرنے والوں میں پنجاب سے میاں ممتاز دولتانہ، سندھ سے ایوب کھوڑو، سرحد سے خان عبدالقیوم خان کے نام قابل ذکر ہیں، جبکہ 28 سیاست دانوں نے اگلا راؤنڈ کھیلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی صفائی کا مقدمہ لڑا، جن میں سے 22 کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور صرف چھ سیاست دان ایسے تھے جو اس عجیب و غریب قانون کی گنگا سے ’’پاک صاف‘‘ ہوکر نکل سکے۔

ان 98 سیاست دانوں کے علاوہ بھی کم سطح یا دوسرے درجے کے دو ہزار سے زیادہ سیاست دان اس قانون کی بھینٹ چڑھے۔
جنرل ایوب خان نے 1960 میں ریفرنڈم کرایا اور اس میں 95.6 فیصد کامیابی کے بعد صدارتی نظام میں تبدیلیاں کیں اور آئندہ 5 سال کے لیے ملک کے صدر منتخب ہوگئے۔
17 فروری 1960 کو ایوب خان نے ملک کے سیاسی مستقبل کا منظر نامہ وضع کرنے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا، جس کی سربراہی چیف جسٹس محمد شہاب الدین کر رہے تھے، اس کمیشن میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے نمائندے جبکہ ریٹائرڈ جج، وکلاء، صنعت کار اور دیگر طبقہ زندگی کے افراد شامل تھے۔
کمیشن نے 6 مئی 1961 کو صدر ایوب خان کو ایک رپورٹ پیش کی، جس کا انہوں نے اور ان کی کابینہ نے تفصیلی جائزہ لیا جبکہ کابینہ نے جنوری
1962
میں ملک کےدوسرے آئین کو حتمی منظوری دے دی،
مذکورہ آئین کے مسودے پر صدر ایوب خان نے یکم مارچ 1962 کو دستخط کیے اور اسے 8 جون 1962 کو نافذ کردیا گیا، 1962 کا آئین 250 آرٹیکلز پر مشتمل تھا، جسے 12 حصوں اور 3 شیڈول میں
دوسرے آئین میں ملک کا طرز حکومت صدارتی رکھا گیا۔
ان حالات کے نتیجے میں قومی جمہوری محاذ
(N.D.F )تشکیل پایا جس کا اہم مشاورتی اجلاس طلب کیا گیا جس میں چھ سیاسی جماعتوں کے پچیس نمائندے شریک ہوئے۔
اس کے تین ماہ بعد مشرقی و مغربی پاکستان کے بااثر سیاستدانوں کا اجلاس کراچی میں ہوا اور جمہوری و بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔ حکومت نے اس اجلاس میں شرکت کرنے والے رہنماؤں پر غداری کا مقدمہ بناتے ہوئے ان کو گرفتار کرلیا۔ گرفتار ہونے والوں میں نواب زا دہ نصراللہ خان ، شیخ عبدالمجید سندھی ، محمود الحق عثمانی ، میاں محمود علی قصوری ، مولانا عبدالستار نیازی ، عطا اللہ مینگل ، ،چودھری غلام محمد ، اور میاں طفیل محمد شامل تھے۔ ان تمام گرفتار شدگان کو پاکستان کی مختلف جیلوں میں منتقل کروادیا گیا۔
ایک طرف تو ایوب خان نے اپنے مارشل لا کی ابتدا میں سیاسی جماعتوں کو ملک و قوم کیلئے شجر ممنوعہ کہتے ہوئے نقصان دہ قرار دیا تھا دوسری طرف” کنونشن لیگ ” بنا کر اس کے صدر بن بیٹھے۔ پرانی مسلم لیگ کو توڑ کر اس کے کچھ لوگوں کو خرید نے کے بعد ان سب کو کنونشن لیگ میں شامل کروایا گیا۔

بی ڈی ممبری نظام میں بی ڈی ممبران کی تعداد اسی ہزار سے زائد تھی، ان ممبران کو حلقہ انتخابات بناکر صدارتی الیکشن کروانے کا اعلان کردیا گیا
ایوب خان کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا بھرپور اتحاد وجود میں آچکا تھا۔ اس اتحاد کے قائدین نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح سے درخواست کی کہ وہ ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخابات میں حصہ لیں، جسے محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی بیماری اور پیرانہ سالی کے باوجود منظور کرلیا۔
ایوب خان کو اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ پانچ جماعتی متحدہ اپوزیشن محترمہ فاطمہ جناح کو ان کے مقابلے میں میدان میں اتار دے گی۔

فاطمہ جناح کے مقابلے پر ایوب خان کنونشن مسلم لیگ کے امیدوار تھے۔ صدارتی امیدوار کے لیے ضروری تھا کہ اس کی نامزدگی کے کاغذات پر بھی بی ڈی ممبر ہی تجویز کنندہ ہو۔ انتظامیہ کو یقین تھا کہ کوئی بھی بی ڈی ممبر محترمہ کے کاغذات پر اپنی گارنٹی نہیں دے گا، اور اگر کسی نے ہمت بھی کی تو اُسے اغوا کرکے ڈرا دھمکا کر کاغذاتِ نامزدگی سے دست بردار کروا لیا جائے گا۔
ایسے میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے بااثر مسلم لیگی اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن نثار احمد نثار نے جو اپنے علاقے کے منتخب بی ڈی ممبر تھے، کسی بھی خطرے کی پروا کیے بغیر محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی امیدوار کے انتخابی کاغذات پر بطور بی ڈی ممبر تجویز کنندہ دستخط کردیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رات ہی کو پولیس نے نثار احمد نثار کو اُن کی حویلی سے اٹھا لیا… اور جب اس بات کی خبر محترمہ فاطمہ جناح کو پہنچی تو انہوں نے ایوب حکومت کے خلاف ایک سخت بیان دیا۔ اس بیان کے بعد نثار احمد نثار کو رہا کردیا گیا اور ساتھ ہی انہیں محترمہ کا چیف پولنگ ایجنٹ بھی بنا دیا گیا۔

متحدہ اپوزیشن نے جب صدارتی انتخابات میں جنرل ایوب خان کے مقابلے پر محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو صدارتی امیدوار نامزد کیا تو شیخ مجیب الرحمن نے فاطمہ جناح کی مشرقی پاکستان میں انتخابی مہم کی قیادت سنبھالی۔ انھوں نے انتخابی مہم کو پورے مشرقی پاکستان میں منظم کیا۔ فاطمہ جناح نے مشرقی پاکستان میں تاریخی جلسوں سے خطاب کیا۔
مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور دیگر مخالف جماعتوں کے کارکنوں کی مزاحمت کی بناء پر انتخابات میں دھاندلی کی کوشش ناکام ہوگئی اور مشرقی پاکستان سے فاطمہ جناح بہت زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئیں مگر پورے ملک سے فاطمہ جناح کی ناکامی سے مشرقی پاکستان کی عوام میں مایوسی پھیلی۔ بنگلہ دیشی دانشوروں نے یہ تجزیہ کیا کہ 1962ء کے صدارتی آئین کے تحت مشرقی پاکستان کی اکثریت کی نمایندگی کبھی بھی اقتدار حاصل نہیں کرسکے گی۔

اب حکومتی مسلم لیگ اور اس کے رہنماؤں کی جانب سے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ایسا گندا پروپیگنڈا کیا گیا کہ شرفاء کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہوگئے۔ اس منفی پروپیگنڈے میں اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا تھا۔ اخبارات، ریڈیو، ٹی وی سب پر مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف مہم اپنے جوبن پر تھی اور سرکاری اور خریدے ہوئے علما کے ذریعے اس بات کو پھیلایا گیا کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی کا کوئی تصور نہیں ہے۔

فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کی خاص بات یہ تھی کہ ملک کے بیشتر جید سیاستدان محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ تھے۔ جماعت اسلامی کی تمام قیادت اور پاکستان کے قومی و علاقائی رہنما جن میں سرحد کے ولی خان، اجمل خٹک، ارباب سکندر خلیل، ڈیرہ اسماعیل خان کے مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالستار خان نیازی، کوئٹہ کے میر غوث بخش بزنجو اور محمود خان اچکزئی ، لاہور کے میاں محمود علی قصوری، ممتاز محمد خان دولتانہ، ملک غلام جیلانی، بیگم افتخار الدین، محمد حسین چٹھہ، ملتان کے علاقے سے نوابزادہ نصراللہ خان، مولانا شاہ سندھ کے عبدالحمید جتوئی، رسول بخش تالپور، کراچی کے محمود الحق عثمانی، حسن اے شیخ ایڈووکٹ، چوہدری محمد علی، بنگال سے خواجہ ناظم الدین، شیخ مجیب الرحمان، یہ تمام رہنما، مادرملت کے ساتھ ان کی انتخابی مہم چلا رہے تھے۔

انتخابی مہم کے دوران ہی سابق گورنر جنرل وزیراعظم خواجہ ناظم الدین دل کے دورے کے سبب انتقال کرگئے۔ خواجہ ناظم الدین ایوب آمریت کے خلاف ہر محاذ پر سرگرم عمل تھے۔

محترمہ کے جلسوں میں انقلابی شاعر حبیب جالب کے اشعار ماحول پر سحر طاری کردیتے تھے۔ ان کی عام فہم شاعری، عوام کے دلوں میں اترتی چلی جاتی تھی۔ حکمرانوں سے یہ سب برداشت نہیں ہوپایا ا ور بالآخر عوام کے محبوب انقلابی شاعر حبیب جالب کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کرکے اقدام قتل کی دفعہ 207 کے تحت سات سال قید بامشقت سناکر جیل بھیج دیا گیا۔
انتخابات کے نتائج آنا شروع ہوئے اور محترمہ فاطمہ جناح کو ان دیکھے ہاتھوں کے ذریعے ہرادیا گیا۔
حبیب جالب نے الیکشن کے نتائج آنے پر کہا کہ
“دھاندلی‘ دھونس‘ دھن سے جیت گیا
ظلم پھر مکر و فن سے جیت گیا”

معروف کالم نگار سعید پرویز محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے حوالے سے اپنی یادداشت میں لکھتے ہیں کہ ” پورے پاکستان کے گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں میں مادر ملت کا انتخابی نشان لالٹین سر شام روشن کردیا جاتا۔ میں نے خود کراچی شہر میں یہ منظر دیکھا ہے کہ برنس روڈ، صدر ، ریگل، سعید منزل،جوبلی، رنچھوڑ لائن، لیاری، لانڈھی، کورنگی، ڈرگ کالونی (اب شاہ فیصل کالونی) محلے محلے لالٹینیں گھروں کے دروازوں، کھڑکیوں پر لٹکتی نظر آتی تھیں۔ مادر ملت جس شہر جلسہ کرنے جاتیں، پورا شہر جلسہ گاہ بن جاتا تھا
محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم نے ایوب خان کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کردیا تھا۔ ایوب نے فاطمہ جناح کے بارے میں انتہائی درجے کی عامیانہ زبان استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ مگر اس کے جواب میں اپوزیشن نے اخلاقیات کا دامن نہ چھوڑا،البتہ فاطمہ جناح ایوب خان اور اُن کے خاندان کی بدعنوانیوں پر کڑی تنقید کرتی رہیں۔
ایوب خان کو یہ بات اتنی ناگوار گزری کہ انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی مہم چلانے والے مشرقی پاکستان کے نوجوان طالب علم رہنما شیخ مجیب الرحمان کو سیاسی غنڈہ، اجڈ اور گنوار، جبکہ میاں ممتاز دولتانہ کو مکار لومڑ قرار دیا۔

ایوب خان نے اپنی تقاریر میں بارہا اس بات کا ذکر کیا کہ فاطمہ جناح بھارتی اور امریکی ایجنٹ ہیں۔ ظاہر ہے یہ بات عوام کو کسی طور پر بھی ہضم نہیں ہورہی تھی، چنانچہ مشرقی پاکستان میں ایوب خان کی مخالفت میں اپوزیشن کو خوب پذیرائی ملی۔ فاطمہ جناح کی مخالفت میں ایوب خان نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’لوگ انہیں مادرِ ملت کہتے ہیں، اس لیے انہیں مادرِ ملت ہی بن کے دکھانا چاہیے‘‘۔ جب جب ایوب خان اپنی تقریر میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف کوئی بدتہذیبی کرتے، اس کا الٹا ہی اثر ہوتا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کسی کی شخصیت کس طرح مجروح کرسکتی ہے اس بات کا اندازہ اس سے لگائیے کہ انتظامی مشنری نے انتہائی درجے کی گھٹیا حرکت یہ کی کہ راتوں کو آبادیوں کے کتوں کے گلے میں لالٹین ٹانگ دی جاتی اور ان پر مادر ملت لکھ کر چھوڑ دیا جاتا، جس کا ردعمل فطری تھا۔ ملک بھر میں طلبہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ جلوس نکلتے چلے گئے۔ ڈھاکا میں اسی طرح کے ایک جلوس پر پولیس نے فائر کھول دیا جس میں ایک طالب علم ہلاک ہوا۔ اس کے ردعمل میں ڈھاکا میں مظاہرے ہوئے جن میں مظاہرین پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جن پر لکھا تھا ’’ایوب کی ڈکٹیٹرشپ کا خاتمہ کردو‘‘۔ ان خبروں کو انٹرنیشنل میڈیا نے خوب نمایاں جگہ دی۔ فاطمہ جناح کا یوم پیدائش بھی پہلی مرتبہ ڈھاکا کے طلبہ نے نہایت جوش و خروش سے مناکر محترمہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ یہ سب ایوب خان کی حکومت کے خلاف جارہا تھا، جبکہ کراچی شہر میں طلبہ کے احتجاج کی بدولت امنِ عامہ میں خلل کے پیش نظر حکومت نے تعلیمی ادارے بند رکھنے کا حکم نامہ جاری کیا۔

ایوب خان اپنی تقاریر میں بنیادی جمہوریت کا جواز پیش کرتے تھے۔ ایوب خان کے مطابق وہ بنیادی جمہوریت کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں فاطمہ جناح سوال کرتی تھیں ’’یہ کون سی جمہوریت ہے؟ ایک آدمی کی جمہوریت یا پچاس آدمیوں کی جمہوریت؟‘‘
ایک موقع پر جب ایوب خان نے کہا تھا کہ ’’میری شکست ملک میں دوبارہ بدامنی پیدا کردے گی‘‘ تو محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان پر اس طرح گرجیں کہ ’’آپ زبردستی، اتھارٹی اورڈنڈے کے زور پر ملک میں استحکام پیدا نہیں کرسکتے۔‘‘
مشرقی پاکستان میں تو محترمہ فاطمہ جناح کی مہم اتنی کامیابی کے ساتھ چل رہی تھی کہ چھوٹے بڑے ہر شہر میں انتخابی نشان ’لالٹین‘ بازاروں اور گھروں میں لگادی گئیں۔ بنگالی زبان بولنے والے تو محترمہ کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے ہی رہے تھے، مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ اردو زبان بولنے والے بااثر اساتذہ اور دیگر افراد بھی تھوڑی بہت بنگلہ زبان سیکھ کر، کچھ نظمیں اور لوک کہانیاں یاد کرکے عام دیہاتیوں کو سناتے، جن میں یہ بتایا جاتا کہ ’’ایک رحم دل بادشاہ کو اُس کے وزیر نے سلطنت پر قبضہ کرنے کے لالچ میں قتل کردیا اور سلطنت پر قابض ہوگیا۔ اس نے رعایا پر ظلم و ستم کا بازار گرم کردیا، اور بادشاہ کی بہن کو بھی قید خانے میں ڈال دیا۔ پھر کسی ہمدرد غلام نے بہن کو قید خانے سے آزادی دلائی، اور بادشاہ کی بہن اپنی سلطنت کی آزادی کے لیے ظالم وزیر کے خلاف عوام میں آگئی‘‘۔ اس طرح کی کہانیا ں آسان فہم ہوتی تھیں اور عوام کے دلوں میں پوری کہانی رچ بس جاتی تھی۔ اس طرح ہر فرد نے اپنے اپنے طور پر محترمہ کی انتخابی مہم میں اپنا کردار ادا کیا۔
جنوری 1965 کو صدراتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ تھا جس میں حزب مخالف کی صدراتی امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کو بدترین دھاندلی کے ذریعے ہروا دیا گیا۔ اور اس کامیابی کی خوشی میں 4 جنوری کراچی میں ایوب خان کے صاحبزادے جناب گوہر ایوب نے ایک جلوس نکالا۔ یہ جلوس کم اور مقامی آبادی پر حملہ زیادہ تھا۔ جلوس کے شرکا مشتعل تھے ،انھوں نے مقامی آبادی کے ساتھ بدسلوکی کا مظا ہرہ کرتے ہوئے مقامی لوگوں کو تنگ کرنا شروع کیا جس کے نتیجے میں تصادم ہوا اور اسی اثنا میں مظاہرین نے رکشوں ، کاروں اور بسوں کو آگ لگانی شروع کردی۔ دکانیں جلا دی گئیں اور ان کا سامان لوٹ لیا گیا۔
ان انتخابات کے بعد حزب مخالف کے پانچ جماعتی اتحاد نے اپنا اہم اجلاس کراچی میں طلب کیا جس میں صدراتی انتخابات کے دوران حکومت کی مبینہ دھاندلیوں اور غندہ گردی پر تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی۔
اس صدراتی انتخاب کے بعد 21۔ مارچ 1965 کو قومی اسمبلی کے انتخاب ہوئے جن میں سرکاری پارٹی کو کامیابی ملی اور حیرت انگیز طور پر قومی سطح کی تمام قد اور شخصیات کو شدید ترین ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔

ان انتخابات میں صدر پاکستان ایوب خان کے سیاسی نووارد صاحبزادے گوہر ایوب خان کو (جو کراچی فسادات کے مرکزی کردار تھے) سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔ سردار شوکت حیات ، چودھری ظہور الہی ، نواب زا دہ نصراللہ خاں ، ملک غلام جیلانی ، مولوی فرید احمد ، مولانا عباس علی خان ، میا ں عبدالباری جیسی قد آ ور شخصیا ت انتخاب ہار چکی تھیں۔
ممتاز دانشور جناب الطاف گوہر کے مطابق ” ایوب خاں جو ابھی تک اپنے اوسان جمع نہیں کر پائے تھے نے لکھی ہوئی تقریر کسی جذبے کے بغیر ریڈیو پاکستان کے مائیکروفون کے سامنے پڑھ کر سنادی۔ ان کے چہرے پر حیرت کے آثار نمایاں تھے، جس چیز نے انہیں ہلا کر رکھ دیا تھا، وہ یہ تھی کہ وہ شکست سے بال بال بچے تھے۔ (دھاندلی کے باوجود) مادرِ ملت کی شکست آبرو مندانہ تھی ، کہ 80 ہزار ووٹرز (بی ڈی ممبروں) میں سے ایوب خاں نے 49951 اور مادرِ ملت نے 38691 ووٹ حاصل کر لیے تھے۔ مشرقی پاکستان میں فرق اور بھی کم تھا ، صرف 2578ووٹوں کا فرق، جہاں ایوب خاں نے 21012 اور مادرِ ملت نے18434ووٹ حاصل کیے تھے۔ کراچی میں شکست ایوب خاں کے لیے خاص طور پر باعثِ تشویش تھی جس کا انتقام گوہرایوب کی زیرقیادت ایک جلوس نے کراچی والوں پر گولیاں برساکرلیا۔

آغا شورش نے لکھا: ’’نہروکی بیٹی تھی، ہندوستان میں الیکشن لڑا جیت گئی، قائداعظم کی بہن تھیں، پاکستان میں الیکشن لڑا، ہارگئیں‘‘۔ دھاندلی زدہ الیکشن کے نتائج حزب اختلاف کے لیے مایوسی سے زیادہ غصے کا باعث تھے۔ مادرِ ملت نے تو ان نتائج کو مسترد کر کے، متوازی حکومت بنانے کی تجویز بھی دے دی تھی (لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس انتہائی اقدام پر آمادہ نہ ہوئیں )۔

انتخابات سے کچھ دن پہلے 1958ء کے الیکشن ایکٹ کے قواعد کو ختم کرنے کا فیصلہ صادر کردیا گیا۔ مطلب تھا کہ اب کھلم کھلا اور اخلاقی حدود سے آزاد ہوکر انتخاب لڑا جائے گا۔ انتخابی حلقوں، فہرستوں اور حد بندیوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے ازسرنو ترتیب دیا گیا، جعلی ووٹرز اور غنڈوں کی فوجِ ظفر موج تیار کی گئی، سرکاری وسائل اور انتظامی مشنری کو ہر ممکن طریقے سے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا گیا۔

مشرقی پاکستان میں اپوزیشن کی مہم اور فاطمہ جناح کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بیوروکریسی نے ایوب خان کو مشورہ دیا کہ کسی طرح فاطمہ جناح کی مہم کو سبوتاژ کیا جائے یا روکا جائے۔ چنانچہ ایک اور حربہ اختیار کیا گیا، اور انتخابات کو جو کہ مارچ میں ہونا تھے، دو ماہ پہلے ہی کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس طرح نئی تاریخ 2 جنوری 1965ء کو کروانے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا۔
وقت سے پہلے انتخابات کے نوٹیفکیشن کا براہِ راست اثر محترمہ کی انتخابی مہم پر پڑا اور انہیں مختلف علاقوں میں دورے کرنے کا موقع ہی نہیں مل پایا۔ ایک اور بدمعاشی یہ ہوئی کہ بڑے پیمانے پر حکومت مخالف امیدواروں کو اغوا کیا جانے لگا۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان جو اُس وقت نوجوانوں کا رہنما تھا، اپنی بھرپور مہم کے ساتھ محترمہ کے حق میں جذباتی فضا بنارہا تھا، پاکستان کی انتخابی تاریخ کی بدترین دھاندلی اور غنڈہ گردی کے سامنے شرفا کی ایک نہ چل سکی اور انتخابی نتائج کو راتوں رات تبدیل کرتے ہوئے ایوب خان کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ نتائج کے مطابق ایوب خان کو پچاس ہزار اور فاطمہ جناح کو اٹھائیس ہزار ووٹ ملے۔ مادرِ ملت فاطمہ جناح کو زیادہ تر ووٹ مشرقی پاکستان سے ملے، جبکہ مغربی پاکستان میں صرف کراچی سے فاطمہ جناح کامیاب ہوئیں۔ نتائج آجانے کے بعد کراچی کے بے شمار ممبرز کوحکومت نے روپے پیسے اور زور زبردستی سے خرید کر ان کی حمایت اپنے نام کروالی۔ جبکہ کراچی کے یہ ممبرز فاطمہ جناح کے نام پر انتخاب جیتے تھے۔ صدارتی جھرلو اور جعلی مینڈیٹ کے بعد قومی اسمبلی کا چناؤ تھا جو دو ماہ بعد مارچ میں ہوا، اس میں بھی پرانی حکمت عملی اپنائی گئی اور سرکاری مسلم لیگ جو کنونشن لیگ تھی، کو کامیاب کروایا گیا۔ کراچی میں لسانی فسادات کی ابتدا بھی ایوب خان کے دور میں ہوئی اور پہلا اردو اور پختون جھگڑا بھی اسی دور میں ہوا،

Advertisements
julia rana solicitors london

محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے بارے میں بھی عوام میں بے چینی کے جذبات تھے جس کے پیچھے متضاد خبریں تھیں، کہ محترمہ فاطمہ جناح کی موت طبعی نہیں تھی بلکہ انہیں ان کے بستر پر تشدد کرکے جان سے مارا گیا ہے۔
اس ضمن میں پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل اور بانیٔ پاکستان محترم قائداعظم کے سیکریٹری جناب شریف الدین پیرزادہ کی اسلام آباد والی پریس کانفرنس کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ ’’محترمہ فاطمہ جناح کی موت طبعی نہیں تھی، بلکہ انہیں ان کے گھریلو نوکر کے ہاتھوں قتل کروا دیا گیا تھا، حالانکہ سرکاری سطح پر ان کی موت کا سبب دل کا دورہ بتلایا گیا۔‘‘
کتاب ’’ایک تاثر دو شخصیات‘‘ (مصنفہ سائرہ ہاشمی) میں بھی فاطمہ جناح کی موت کو قتل ہی قرار دیا گیا۔کتاب میں کہا گیا ہے کہ محترمہ کے گلے پر نشانات تھے اور ان کے بستر پر خون کے چھینٹے بھی تھے۔ اسی طرح کی خبر انتقال والے دن کچھ اخبارات نے بھی لگائی تھی۔
ممتاز صحافی اور محقق اختر بلوچ نے بھی اس حوالے سے تحقیق کی ہے، جس کے مطابق محترمہ کی موت کا سبب قتل یا تشدد تھا۔
شریف الدین پیرزادہ نے مزید یہ انکشاف بھی کیا کہ ’’محترمہ فاطمہ جناح انتقال والی شب ایک شادی میں گئی ہوئی تھیں جہاں سے واپسی میں بہت تاخیر ہوگئی اور گھر واپس پہنچ کر انہوں نے گھرمیں تالا لگایا اور چابی دراز میں رکھ کر حسب عادت سونے کے لیے چلی گئیں۔صبح کوجب وہ معمول کے وقت تک بیدار نہیں ہوئیں تو ان کی پڑوسن بیگم ہدایت اللہ نے پولیس کمشنر آف کراچی اور انسپکٹر کی موجودگی میں دروازہ کھلوایا اور انہیں مُردہ حالت میں پایا۔‘‘
شریف الدین پیرزادہ کہتے ہیں ’’قائداعظم کے بھانجے اکبر پیر بھائی نے ایوب خان سے کہا تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا ہے، مگرتحقیقات کے لیے ان کی درخواست مسترد کردی گئی تھی۔‘‘
تدفین کے موقع پر بھی انتظامیہ کی جانب سے ہجوم کو بلا وجہ محترمہ کی میت سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی، جس پر صدمے سے دوچار شہری مشتعل ہوگئے اور ہلڑ بازی شروع ہوگئی۔ فاطمہ جناح نے اپنی زندگی میں یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ مرنے کے بعد انہیں قائداعظم کے پاس دفن کیا جائے۔ بقول مرزا ابوالحسن اصفہانی صاحب: اس وقت کی حکومت محترمہ کو میوہ شاہ قبرستان میں دفنانا چاہتی تھی (ایم اے ایچ اصفہانی، انٹرویو 14 جنوری 1976ء، کراچی) جس کی مخالفت کی گئی اور کمشنر کراچی کو متنبہ کیا گیا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح کو قائداعظم کے مزار کے قریب دفن نہ کیا گیا تو بلوہ ہوجائے گا۔
بالآخر عوام کے مشتعل جذبات کو دیکھتے ہوئے رات دیر سے کمشنر کراچی نے اعلان کیا کہ تدفین وصیت کے مطابق اُسی جگہ پر ہوگی جہاں کی خواہش ظاہر کی گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ چھ لاکھ سے زیادہ عورتوں، بچوں اور مردوں کا ایک سیلاب تھا جو قائداعظم کے مزار کی جانب بڑھ رہا تھا۔ راستے میں میت پر پھول کی پتیاں نچھاور کی جاتی رہیں۔ لوگ کلمۂ طیبہ، کلمۂ شہادت اور آیاتِ قرآنی کی تلاوت کررہے تھے۔ جنازے کا جلوس مزارِ قائد کے احاطے میں داخل ہوا۔ جیسے ہی میت کو بھائی کی قبر کے قریب رکھا جانے لگا، اچانک کچھ لوگوں نے جنازے کے قریب آنے کی کوشش کی۔ پولیس نے پُرامن طریقے سے انہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا، آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ جوابی کارروائی میں پولیس پر پتھراؤ ہوا۔ پولیس کے کئی سپاہی زخمی ہوئے۔ ایک پیٹرول پمپ اور ڈبل ڈیکر بس کو آگ لگا دی گئی۔ ایک شخص اس حادثے کا شکار ہوا اور کئی بچے، عورتیں اور مرد زخمی ہوئے۔ محترمہ فاطمہ جناح کی تجہیز و تکفین کے وقت عوام کو جنازے کے قریب نہیں جانے دیا گیا، یہاں تک کہ انہیں سپردِ خاک کرنے تک ان کے آخری دیدار کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔ اس دوران جو آخری دیدار کرنا چاہتے تھے اُن پر لاٹھی چارج کیا گیا اور آنسو گیس پھینکی گئی۔
اخبارات میں یہ خبریں بھی آتی رہیں کہ محترمہ کو راستے سے ہٹانے کے لیے تشدد کے ذریعے قتل کروایا گیا ہے۔ یہ معاملہ اخبارات میں نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کیا گیا اور اداریے بھی لکھے گئے۔
(حوالہ: ’’قصہ فاطمہ جناح کی تدفین کا‘‘۔ مصنف،محقق اختر بلوچ)
محترمہ کے انتقال کے اصل سبب کو تو حکومتِ وقت نے دبا لیا تھا، مگر عوام اس معاملے پر ایوب کے خلاف ہوچکے تھے۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply