• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • شہدائے اردو ۔۔ وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔سید عارف مصطفٰی

شہدائے اردو ۔۔ وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔سید عارف مصطفٰی

9 جولائی کی شام میں مسجد شہداء لیاقت آباد کے متصل احاطے میں مدفون 7 شہدائے اردو کی قبروں پہ فاتحہ خوانی کے لیے جا پہنچا کہ جو اقتدار کے نشے میں بدمست اور شدید متعصب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے زمانے میں رسوائے زمانہ لسانی بل کے خلاف 8 جولائی 1972 کو ایک جلوس نکالنے کا قصور کربیٹھے تھے اور سندھ پولیس کی وحشیانہ فائرنگ کا نشانہ بن گئے تھے۔ اسی روز ایک دوسرا احتجاجی جلوس ملیر کھوکھراپار میں بھی نکالا گیا تھا اور اسی انجام سے دوچار ہوا تھا اور 5 محبانِ  اردو اپنے ہی خون میں نہلادیئے گئے تھے کہ جنکی قبریں وہاں چوراہے پہ آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں ۔۔۔ اسی روز یعنی بمورخہ 9 جولائی کی سہ پہر لیاقت آباد 10 نمبر کے موڑ پہ واقع مسجد شہداء کے سامنے ہی وہاں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے ایک خصوصی دعائیہ تقریب کا بھی اہتمام کیا گیا تھا کہ جس کے بینر انہوں نے شہر میں جابجا آویزاں کیے تھے لیکن گرم دوپہر تو کیا شام ہوتے ہوتے بھی وہاں شرکاء کی تعداد نہایت قلیل اور مایوس کن تھی اور کیوں نہ ہوتی ۔۔۔ کیونکہ اہل شہر بھی خوب سیانے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن قریب ہیں اور اب ہر طرح کے جھانسوں کی بارات اترنے کو ہے ۔۔ ادھ متحدہ پاکستان کے گرو گھنٹال یہ سوچ رہے ہیں کہ اسی طرح کا سیاپا کرنے اور مہاجریت کی ڈفلی پہ مظلومیت کا راگ الاپنے ہی سے کچھ لوگوں کو بیوقوف بنایا جاسکے تو شاید کچھ نشستیں ہاتھ لگ جائیں ورنہ اب کے انکی کارکردگی تو جیتنے جتانے لا ئق ہرگز نہیں ۔۔۔

مصنف:سید عارف مصطفٰی

فاتحہ خوانی و گلپاشی کے بعد میں وہاں موجود متحدہ کے بڑے رہنماؤں میں سے ایک یعنی بلدیہ وسطی کے چیئرمین ریحان ہاشمی سے خصوصی طور پہ ملا – ان موصوف کے دور میں ہمارا ضلع یعنی ضلع وسطی پانی اور صحت و صفائی کے بدترین مسائل کے جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے ۔کیونکہ ناجائز تعمیرات کا گڑھ بنادیا گیا ہے خصوصاً فائیو ای اور فائیو  ڈی کے علاقے تو کنکریٹ کا بے ہنگم جنگل بنائے جاچکے ہیں – تو میں ان موصوف سے یہ پوچھ بیٹھا کہ جناب یہ 47 برس بعد آج فاتحہ خوانی تو کرلی آپ نے  لیکن   اب آپکی تنظیم 28 مئی 1990 کو پکاقلعہ حیدرآباد کے آپریشن کے ذمہ داروں کے خلاف کب ایف آئی آر کٹوا رہی ہے کہ جس میں اردو بولنے واوں کے جلوس پہ فائرنگ کرکے 100 کے لگ بھگ افراد قتل کردیئے گئے تھے تو موصوف نے پہلے تو نہایت سردمہری برتی اور میرے سوال کو ان سنا کردیا لیکن میں نے انکا پیچھا نہ چھوڑا اور میرے مسلسل پوچھنے پہ انہوں نے یہ جھوٹ بول دیا کہ اس سلسلے میں ایک کیس کرایا گیا تھا ۔۔۔ لیکن جب میں نے مزید یہ استفسار کیا کہ کب اور کہاں یہ پرچا کٹا تو انکے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور وہ وہاں سے ایک اور صاحب کی طرف لپک گئے ، واضح رہے کہ پکا قلعہ کے اس ظالمانہ آپریشن کے احتجاجی جلوس پہ فائرنگ سے مارے جانے والوں میں بھاری اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی اور یہ وہ مظلوم تھے جو کہ تین روز سے اپنے گھروں کی ناکہ بندی کرکے محصور کردیئے گئے تھے اور جن کی بجلی گیس ہی نہیں غذائی رسد بھی مسدود کردی گئی تھی اور جب اس ایذاء رسانی کی تاب نہ لاکر یہ لوگ اس ظالمانہ محاصرے کو توڑ کرباہرآکے احتجاجی جلوس نکالنے پہ مجبور ہوگئے تھے ، لیکن ہوا یہ کہ ایم کیوایم نے ان مظلومین کے خون کے سیاپے کے بل پہ اگلے الیکشن میں بھاری کامیابی پائی اور پھر انہی کےگھناؤنے قاتلوں سے جپھی ڈال کے انکی حکومت کا حصہ بن گئے کہ جو اس وحشیانہ قتل عام کے مرکزی ذمہ دار تھے –

 

ویسے دیکھا جائے تو 30 ستمبر 1988 کو حیدرآباد میں سندھی قوم پرستوں نے جیپوں پہ گھوم پھر کے 300کے لگ بھگ شہریوں‌ کو گولیوں کی بوچھاڑسے جو شہید کرڈالا تھا تو بظاہر وہ واقعہ بھی قتل عام ان واقعات کا حصہ ہی ہے لیکن عملاً اس لیے الگ اور مختلف ہے کہ اس کے علاوہ بیان کیے قتل عام کے 2 واقعات پیپلزپارٹی کی سندھ حکوت کی متعصبانہ پالیسی اور سندھ پولیس کی وحشت اور شدید نسلی تعصب کا نتیجہ تھے اور یوں کہا جائے تو ہرگز بیجا نہ ہوگا کہ ریاست نے اپنی طاقت کو اپنے ہی عوام کے خلاف استعمال کرنے کی درندگی دکھائی تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن آج بھی پکا قلعہ کے یہ شہدا اپنے قاتلوں کی سزایابی کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔۔ اس معاملے میں خواہ الطاف حسین والے ہوں  ، خالد مقبول اورعامر خان کی متحدہ پاکستان ہو یا فاروق ستار کا لاپتہ گروپ ہو یا پھر مصطفیٰ کمال کی سیاسی لانڈری کے دھلے دھلائے فرشتے ، سبھی نے اس قوم کو مل جل کر 35-40 سال لوٹا کھسوٹا ہے اور اس عرصے میں انکے مسائل سے زبردست غفلت بلکہ مجرمانہ بےحسی کے گناہ میں بھی برابر کے شریک ِمجرم ہیں ۔۔۔ تو ایسے میں جبکہ اس طویل عرصے میں ان سب کی یہ مظلومانہ شہادتیں بالکل بھلادی گئی ہیں اور اب تو یہ لوگ کئی گروپوں میں بَٹ کر تتر بتر بھی ہوچکے ہیں تو ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ 8 جولائی 1972 کے قتل عام یا پکا قلعے کے سانحے کے کیس کو عدالت میں لے کر جائینگے اور یہ کیس پھر سے کھل سکیں‌ گے نری خوش فہمی ہے اور رہی متحدہ تو وہ تو کم ازکم اس لحاظ سے منفرد اور ممتاز ہے کہ تاریخی طور پہ اپنے ووٹروں‌ کو ہمیشہ سے سوائے خوش فہمیوں میں مبتلاء رکھنے کے اور کوئی کام مستقل مزاجی سے نہیں کرتی ۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply