• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا شادی پر لگنے والے ٹیکس ہمیں اچھی سمت لے جا سکتے ہیں؟۔۔۔علی عمر عمیر

کیا شادی پر لگنے والے ٹیکس ہمیں اچھی سمت لے جا سکتے ہیں؟۔۔۔علی عمر عمیر

پچھلے دنوں بھائی کی شادی ہوئی۔ میری والدہ اور میں جہیز لینے کے حق میں نہیں تھے۔ جبکہ لڑکی والوں نے جہیز دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لڑکی کی بڑی بہن سے میری بات ہوئی تو وہ کہنے لگیں کہ لڑکی کہتی ہے “میں نے ایک مکمل گھر کا سامان لے کر جانا ہے ورنہ رخصت ہی نہیں ہونا۔” میں نے جیسے تیسے، معاشرتی، مذہبی اور اخلاقی حوالے دے کر انہیں قائل کیا۔ بالآخر یہ طے ہوا کہ ایک عدد سیف الماری لڑکی کو اس کے میکے والے لے کر دیں گے اس کے علاوہ ان سے کچھ نہیں لیا جائے گا۔ ہم تو یہ چاہتے تھے کہ سیف الماری بھی ہماری ہی طرف سے خریدی جائے لیکن مکمل جہیز سے تو گریز ہو ہی چکا تھا، اس لیے ایک آدھ الماری اُن کے کہنے پر انہیں خریدنے دی، تاکہ بدمزگی نہ ہو۔

بھائی کی شادی سادہ ترین شادی تھی۔ دو کمرے کے ایک مکان میں دعوت ولیمہ جس میں صرف نزدیکی رشتہ دار مدعو تھے۔ چونکہ انتظامات میرے ذمے تھے اس لیے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تیس لوگوں کے لیے بریانی اور چکن وائٹ قورمہ بنوانے پر ہمارا خرچہ صرف 15 سے 17 ہزار ہوا، کیوں کہ یہ سب ہم نے اپنی ذمہ داری اور نگرانی میں بنوایا۔ یعنی اس ولیمہ کے دن میری جیب سے کنوینس وغیرہ سمیت ٹوٹل 20 ہزار روپے خرچ ہوئے۔

لوگوں کو پُرتکلف انتظامات پر ہوتا ہو گا مگر سادہ اور خوبصورت انتظامات پر مجھے بہت فخر ہوا۔ اور یہ بات بھی نوٹ کیجیے کہ ہم نے اور لڑکی والوں نے بھی ہمارے کہنے پر، سلامی وغیرہ جیسے کسی سلسلے میں کسی سے پیسے وصول نہیں کیے۔

یہ کام تھا تو بہت مشکل۔۔ کیونکہ 2010 میں میرے ایک اور بھائی کی شادی پر لڑکی والوں نے 15 لاکھ روپے کا جہیز دیا تھا۔ جبکہ صرف ولیمے پر ہمارا خرچہ 4 لاکھ روپے تھا۔ مہندی، جگراتے وغیرہ وغیرہ جیسی رسومات کی بھرمار تھی۔ اس وقت میں 13 سال کا تھا اس لیے ایسے پُرتکلف انتظامات بڑے دلچسپ تھے۔ لیکن اب جی کڑھتا ہے جب دیکھتا ہوں کہ لاکھوں روپے ہوا میں اڑا کر بھی بھائی اور بھابی آپس میں خوش نہیں ہیں۔ سو اب اِس بھائی کی شادی پر تمام خاندان کی مخالفتیں وغیرہ جھیلیں، خود لڑکی والوں کی طرف سے شدید احتجاج ہوا، “شادی ہے یا فوتگی؟؟” جیسے بہت سے طعنے سننے کو ملے لیکن والدہ کی مہربانی کہ انہوں نے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹایا اور مجھے بھی ان کی وجہ سے تقویت ملی اور ہم نے اس شادی کو آسان ترین شادی بنانے کی ہرممکن کوشش کی اور بہت حد تک کامیابی حاصل کی۔

مہندی، سیج، گوڈا پکڑائی، جوتا چھپائی، گود بھرائی جیسی رسومات کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ بڑے دردِ دل سے لڑکی والوں سے گزارش کی تھی کہ خدارا آپ ہمارا ساتھ دیں، ہو سکتا ہے ایک ہمارے اس مشترکہ فعل سے کسی اور کو بھی تحریک ملے اور اس طرح معاشرہ شادی کی مشکلات سے باہر نکلے اور ان کی بھی مہربانی کہ طوعا کرہاً انہوں نے ہمارا ساتھ دیا۔

اتفاقاً آج کل شادی ہالز میں شادی کرنے پر ٹیکسز لگ چکے ہیں۔ اور اتنے زیادہ ٹیکس لگے کہ اتنے پیسوں میں ہم نے تو دو ولیمے کر لینے تھے۔ ان بے انتہا اور ظالمانہ ٹیکسز کی آڑ لے کر کیوں نہ ہم شادیوں کو آسان بنانے کی تحریک شروع کریں؟

ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی ہمت کے مطابق اپنے گھر، اپنے خاندان والوں کو قائل کرے، لوگوں کی باتوں کو پسِ پشت ڈال کر اپنی معاشرتی اور معاشی حالت پر رحم کھانے کی طرف توجہ دلائے، اپنے بچوں اور اپنی بچیوں کو خرچوں کی کمی کی وجہ سے گھر بٹھا بٹھا کر بوڑھا نہ کرنے کی ترغیب دلائے۔ اپنے بھائیوں کو سمجھائے کہ وہ اپنی شادیوں پر سادگی اور آسانی کا مطالبہ کریں، جہیز نہ لینے پر اصرار کریں اور جتنا خرچہ شادیوں کی تقریبات کے لیے نکالنا ہے وہی خرچہ اپنے گھر پر خرچ کریں، یوں اپنے گھروں میں آنے والی دلہن کے لیے سہولت پیدا کریں۔

سلامیوں کے نام پر قرضے جیسی غیر مناسب رسومات کا خاتمہ کرنا مشکل نہیں ہے، بس ایک دو مرتبہ ہی ایسا قدم اٹھانا ہو گا، بعد میں سب مسائل حل ہوتے جائیں گے۔ آپ کر سکتے ہیں، کوشش تو کریں، کسی سے مکالمہ تو کریں، بات چیت تو کریں۔ ہو سکتا ہے آپ لڑکی والوں کو یہ بات کریں تو ان کا بھی دل بڑا ہو جائے، انہیں زیادہ خوشی نصیب ہو جائے۔

میں یہ نہیں کہوں گا کہ آپ غریبوں کی بچیوں کی شادیاں کروائیں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ایسا ماحول پیدا کر دیں کہ غریبوں کی بچیوں کو بھی شادیوں میں جہیز اور اخراجات وغیرہ جیسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے اور شادیوں کے خرچوں کے لیے انہیں آپ، ہم جیسوں کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔ شادی پر لگنے والے ٹیکسوں کے بہانے ہم کچھ اچھا کر ہی سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور دعا کریں کہ کسی کی بیٹی صرف جہیز کی وجہ سے یا اخراجات کی وجہ سے گھر بیٹھے بیٹھے بوڑھی نہ ہو پائے۔

Facebook Comments

علی عمر عمیر
اردو شاعر، نثر نگار، تجزیہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply