اس حادثے کے لے دے کر دو ہی متاثرین تھے، ایک میں، دوسراسہراب، سہراب کسی زمانے میں سائکل تھا، نجانے کب ڈارون کو پڑھ لیا، آجکل موٹر سائیکل ہے۔
میرا خیال مختلف ہے، سائیکل سے موٹر سائیکل بننے کی وجہ جنک فوڈ اور کلیسٹرول بھی ہوسکتی ہے، سائیکل موٹی ہو کر موٹر سائیکل بن گئی۔
بعض خواتین اس موٹاپے کی وجہ زچگی بھی بتاتی ہیں، یہ وہی خواتین ہیں جو شوہر کو دس بار انکار کرتی ہیں،اور عموما ً ان کے بچے دس سے کم نہیں ہوتے ۔
مجھے رستم سہراب کی تاریخ سے قطعا دلچسپی نہیں، نہ ڈارون مشیر خزانہ تھا کہ میں اس کا نوحہ لکھوں،بس مجھے یہ موٹر سائیکل فری ملی ہے۔جیسے موجودہ حکومت عوام سے فری ہوکر مل رہی ہے، ڈر یہ ہے کہ کہیں عوام زیادہ فری ہوکر “ہتھ چلاکی “پہ نہ اتر آئیں۔
یہ موٹر سائکل میرے بڑے بھائی نے اس نائی سے خریدی جو میرے بڑے بھتیجے کو مشرف بہ اسلام کرنے آیا تھا، خریدا تو اس سے ایک عدد استرا بھی تھا مگر مورخ اس بارے میں خاموش ہے،اب اس بھتیجے کا بڑا بیٹا میٹرک کے قریب پہنچ گیا تو فرط ِ مسرت سے میرے بھتیجے نے یہ موٹر سائیکل مجھے دےدی۔
سڑک پہ حادثے میں گری موٹر سائیکل تھی ۔میں گری ہوئی حرکت نہیں کرتا ۔میں گول گول گھومتا ہوا گیا تھا ۔لوگ گرتا دیکھ کر رکے تھے ۔ہم دونوں کو کسی نے نہیں اٹھایا ۔عموماً لوگ سوچتے ہیں جس کا ہے وہی اٹھا ئے گا ۔شکر ہے پروردگار کا موڈ نہیں تھا اور آپ کی بھابھی گھر تھی ۔
خود سے اٹھا تو مومنین تماشائیوں نے استغفار اور ملحدین نے خوشی کا اظہار کیا ۔
ہسپتال سے مرمت ہوکر پہلے میں گھر آیا ۔۔گوکہ بیگم آج تک اس ریپئرنگ سے مطمئن نہیں ہے ۔اس کاخیال ہے کہ جہاں نئے نٹ پیچ لگائے ہیں وہاں پرانے بھی کَس دیتے ۔کم ازکم عقل تو آجاتی
موٹر سائیکل سیدھی گھر آئی، اسے بغیر مرمت کے بطور مذمت صحن میں کھڑا کیا گیا ۔احباب میرے بازو کی سرسری،اور موٹر سائیکل کی بغور عیادت کرتے اور اس نتیجے پہ پہنچتے کہ میرا تو صرف بازو ٹوٹا ہے۔
موٹر سائیکل کی لائٹ، ٹینکی، ٹاپے وہیل اور مڈگارڈ تک سب تباہ ہوئے ہیں۔۔۔
رشتہ داروں کی اکثریت نے اس بات پہ جوا بھی کھیلا کہ حادثے کے بعد میرے دماغ اور سہراب کے انجن میں سے کون ابھی تک چالو ہے؟
چار ماہ کا طویل عرصہ میں نے بستر پہ اور سہراب نے صحن میں فضول بالترتیب پڑے اور کھڑے رہ کر گزارا۔۔۔آخر کار سہراب کوجتنا ہو سکا مرمت کروا لیا گیا، اب اسے چلاتے ہوئے اگر میرے بازو میں درد اٹھتا تو سہراب کو بھی مجھے دیکھتے پرانی “پیڑیں “یاد آجاتیں۔
اس کی ہر چیز اب خود کو۔۔حکومتی ترجمان سمجھنے لگے تھی ۔ جہاں بجنے کا موقع نہ بھی ہوتا بجنے لگتی، سائیلنسر کے گلے میں پرانی ٹیوب لپیٹ کر اسے سُر میں لانے کی کوشش کی، نورجہاں کو ایسا کرتے دیکھا تھا، لیکن جیسے ہی ٹیوب گرم ہوتی سائیلنسر کا “گاٹا “کھل جاتا، اور وہ عطاءاللہ بن جاتا۔۔۔
میری نیت اور سہراب کی وائرنگ کچھ یوں خراب ہوئے کہ جہاں ضرورت ہوتی مجھے نظر آنا بند ہو جاتا اور اس کی لائٹ جواب دے جاتی ۔
ایک رات جب ایک تابڑ توڑ، اوبڑ کھابڑ اندھیرےراستے پہ ہم دونوں آہ وبکا کرتے جارہے تھے ۔ہاتھ کو پاؤں دکھائی نہیں دے رہا تھا، دو کتے انتہائی تیزی سے قریب آکر یوں بھونکے کہ موٹر سائیکل ڈر کر لہرا گئی۔۔
میں نہیں ڈرا، مجھے کتوں سے ڈر نہیں لگتا، کتے کے بچوں سے لگتا ہے۔۔۔سیانوں کے پاس چونکہ ان کی اندھیرے میں بلوغت جانچنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، لہذا دونوں پاؤں ٹینکی پہ رکھ لیے۔
تب انکشاف ہوا کہ ٹانگیں اوپر کرنے سے سیٹ پہ موجودہ حکومت جتنی گرفت بھی نہیں ربتی۔
پھروہی ہوا ۔۔۔میں دائیں طرف والے کتے پہ بائیں جانب گرا، غلطی اسی کی تھی اسے اپنی سائیڈ پہ رہ کر بھونکنا چاہیے تھا،کتا موٹر سائیکل پہ گرے یا موٹر سائیکل کتے پہ ،نقصان ہمیشہ سوار کا ہو تا ہے،
میں اس انداز میں زمین پہ گرا جیسے پلاسٹک کی کرسی ٹوٹنے پہ گرتے ہیں ۔موٹر سائیکل کے نیچے والا کتا اب بھونک نہیں چیخ رہا تھا ۔گرم سائیلنسر کسی ایسی جگہ لگا تھا کہ وہ اب بچوں اور ان کی ٹیوشن فیس سے آزاد ہوچکا تھا ۔
آخر نائی کی موٹر سائیکل تھی ناں ۔
اندھیرے میں اٹھنے کی کوشش کی تو ایک آدھی اینٹ ہاتھ آگئی ۔اندازے سے دوسرے کتے پہ دے ماری ۔وہ اینٹ پڑتے ہی بھاگ نکلا ۔۔اُمید ہے اسے وہاں لگی ہوگی جہاں گر نے کے بعد مجھے درد ہورہا تھا ۔
ریسکیو ٹیموں کے آنے تک دشمن کے دو اور ہماری طرف سے میں زخمی ہوا ۔۔۔۔سہراب بچ گیا!
میں اب الٹا لیٹ سکتا ہوں ،الٹا سوچ سکتا ہوں ،الٹاسیدھا کچھ کر نہیں سکتا ۔۔
کیونکہ جیتنے کے باوجود اپوزیشن میں ہوں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں