• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • حمیّت  نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے۔ ۔۔ربیعہ فاطمہ بخاری

حمیّت  نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے۔ ۔۔ربیعہ فاطمہ بخاری

فی زمانہ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہےجس کے ذریعے آپ کسی بھی معاشرے میں جس طرح کی تبدیلی لانا چاہیں بہت آسانی سےاور بہت تیزی سے لا سکتے ہیں۔ ہر طبقے اور ہر پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگ سوشل میڈیا کو اپنےاپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا معاشرہ چونکہ ویسے ہی اخلاقی طور پر بہت تیزی سے روبہ زوال ہے، تو حسب توقع عوام الناس کی ایک بڑی تعداد شوبز انڈسٹری کے لوگوں کو follow کرتی ہے۔ اور یہ طبقہ فی زمانہ واضح طور پر رجحان سازی اور اخلاقی اقدار کی تشکیل میں بہت بڑا کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ اگر میں اپنے بچپن کے ٹی وی ڈراموں اور کمرشلز کو ذہن میں دہراوءں توبا پردگی نہ سہی لیکن کم از کم ایک وقار اور شائستگی واضح طور پر نظر آتی تھی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ خواتین کے لیے استعمال کیے جانے والے سینیٹری پیڈز کا جو پہلا اشتہار پی ٹی وی پہ چلا تھا وہ اتنا subtle اور مبہم پیغام لیے ہوئے تھا کہ صرف انہیں خواتین کو بات سمجھ آئی ہوگی جو انہیں استعمال کرتی رہی ہوں گی۔ پھر وقت بدلا، حالات بدلے اور آج کے اشتہارات میں مشتہر کمپنیوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ کس کس حد تک اپنا مدعا کھول کھول کے بیان کردیں۔ اس وقت صابن کے اشتہار میں ماڈل کا چہرہ دھلتا ہوا دکھایا جاتا تھا اور آج آدھی سے زیادہ ماڈل برہنہ ہوتی ہے۔ وقار اور شائستگی آج کے کسی ڈرامے، کسی اشتہار کے قریب تک سے نہیں گزرتی۔ اور اگر آپ تجزیہ کریں تو اس وقت کے نوجوان اور آج کے نوجوان میں بھی اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ شوبز انڈسٹری کے پروڈکشن کے معیار میں ہے ۔ وہی حیا باختگی وہی کم لباسی وہی بے شرمی وہی دین سے دوری ہمیں اپنے اردگرد ہر طرف بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہے جو ہماری رجحان ساز انڈسٹری میں ہے۔
اس سارے عمل میں میرے جیسے لوگوں کے لیے ، جن کے بچے اس وقت بچپن کے آخری چند سال گزار کر سن بلوغت میں پہنچ جائیں گے (انشاءاللّٰہ)، ایک مسلسل اضطراب اور بے چینی کی کیفیت ہے۔ شوبز انڈسٹری دن بدن شترِ بے مہار بنتی جا رہی ہے۔ جس کا دین کے ساتھ تو دور دور تک کوئی واسطہ ہے ہی نہیں، ساتھ ہی ان کی کوئی معاشرتی اور اخلاقی حدود بھی نہیں رہیں۔ لیکن یہ لوگ مسلسل ہماری معاشرتی اخلاقیات کا جنازہ نکالنے میں مصروف ہیں۔
سوشل میڈیا پر آج کی وائرل ویڈیو یقیناً سبھی نے دیکھی ہو گی۔یاسر حسین نے اپنی ساتھی اداکارہ اقرا عزیز کو آن کیمرہ شادی کی پیشکش کی اور اسے گلے لگا کر کئی دفعہ چوما۔ اب مجھے کوئی بتائے کہ بس یہی کسر رہ گیء ہے ہمارے معاشرے میں؟؟ باقی تو اسی انڈسٹری اور انہی اداکاروں کے طفیل dating culture، گرل فرینڈ ،بوائے فرینڈ ویلنٹائن ڈے پر محبت کے نام پر نا محرمات کے درمیان تحائف کا تبادلہ ، بے پردگی، بے شرمی جیسی اور بہت سی قباحتیں ہمارے ماحول کا حصہ بن چکی ہیں۔ کیا اب یہی کمی رہ گئی ہے کہ مغرب کی طرح پاکستان میں بھی عوامی مقامات پر بوس و کنار کے مناظر دیکھنے کو ملیں گے؟؟؟

Advertisements
julia rana solicitors


گزشتہ دنوں میں یاد ہوگا ایک بے ضررسا اعلان ہوا تھا کہ پاکستان سے حرمین شریفین جانے والی پروازوں میں قصیدہ بردہ شریف چلایا جائے گا۔ اور یہ بھی سب کو یاد ہوگا کہ سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوگیا تھا ہر بے دین و بے حمیت یہ راگ الاپ رہا تھا کہ آپ کون ہوتے ہیں کسی پر بھی اس طرح کی چیز مسلط کرنے والے؟؟ بہت سے لوگ اس طرح کی چیزوں کو پسند نہیں کرتے۔
شاہد آفریدی نے کہا کہ میں اپنی بیٹیوں کو آوءٹ ڈور گیمز کھیلنے کی اجازت نہیں دوں گا، پھر ایک طوفان اٹھا اور اسی قبیل کے لوگوں نے آسمان سر پر اٹھالیا کہ اپنی دقیانوسی سوچ اپنے پاس رکھیں آپ اس طرح کی سوچ کا کھلم کھلا اظہار کرکے آوٹ ڈور گیمز کھیلنے والی لڑکیوں کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں اور نجانے کیا کیا۔۔۔
اے آر رحمان کی بیٹی حجاب میں اسٹیج پر آئ اور پھر وہی طنز ، طعن و تشنیع کا بازار گرم ہوگیا کہ آپ کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اپنی عورتوں کو زبردستی پردہ کروائیں؟؟ ( حالانکہ ان عقل کے اندھوں کو کوئی بتائے کہ پردہ کرنے والی عورت صرف اور صرف ربِ کائنات کی رضا کی خاطر پردہ کرتی ہے۔ اسے کبھی بھی کوئی بھی زبردستی مجبور نہیں کرسکتا )
تو کیا میں یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں کہ فی زمانہ صرف اسلام اور اسلام پسندہی ہمارے معاشرے کے لئے ایک taboo کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ جہاں اسلام اور شعائر اسلام کا نام آیا غلاظت تعفن اور بدبو کے گٹر ابل پڑتے ہیں۔ اور دشنام اور طعن و تشنیع کا ایسا بازار گرم ہوتا ہے کہ رہے نام اللہ کا۔ باقی سیکولرازم کے نام پر، فیشن کے نام پر، روشن خیالی کے نام پر، لبرل ازم کے نام پر جو کوئی بھی اٹھے اور جو کچھ مرضی کر گزرے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کیا اسلام پسندوں کا حق نہیں کہ بے حیائی، بے پردگی اور بے شرمی کوان پر مسلط نہ کیا جائے ؟؟ جو کہ چوبیس گھنٹے مین سٹریم میڈیا کی شکل میں سب کے سروں پر مسلط ہے۔ مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث پاک کا مفہوم یاد آرہا ہے کہ قیامت کے قریب اسلام کا نام لینا ایسا ہی ہوگا جیسے ہاتھ پردہکتا ہوا انگارہ رکھنا۔ اور آج ہم بلاشبہ اسی دور سے گزر رہے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں اور ہماری آئندہ نسلوں کو ہر سطح پر شیطان کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین ۔

Facebook Comments

ربیعہ فاطمہ بخاری
لاہور کی رہائشی ربیعہ فاطمہ بخاری پنجاب یونیورسٹی سے کمیونی کیشن سٹڈیز میں ماسٹرز ہیں۔ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں لیکن اب ایک خاتونِ خانہ کے طور پر زندگی گزار رہی ہوں۔ لکھنے کی صلاحیت پرانی ہے لیکن قلم آزمانے کا وقت اب آیا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”حمیّت  نام تھا جس کا، گئی تیمور کے گھر سے۔ ۔۔ربیعہ فاطمہ بخاری

  1. زبردست یاسر صاحب۔ آپ نے نام نہاد اسلامی کلچر کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ وہ جو اسلام کے مالک ہے وہ ان خرافات سے نکل کر نیکی مناج کو سعودی عرب میں کانسرٹ کروا رہے ہے اور یہ زنگ زدہ سوچ والے لوگ ایک آدمی کو اپنا سچا احساس اور دل کی بات کرنے اور اپنے عشق کو گلے لگانے پر آگ بگولا ہو رہے ہے ، یاد رکھے یہ وہی لوگ ہے جنہوں نے معاشرے کو اس قدر تنگ اور تاریک کر دیا ہے جہاں سانس لینا تک مشکل ہو گیا ہے اور یہ لوگ بھی اس کا شکار ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بلکہ اقلیتوں کے لئے پر امن اور آزاد ملک بنا تھا جسے بعد میں ان لوگوں نے اسلام کے نام پر عقوبت خانے میں تبدیل کیا ہے۔

Leave a Reply to Musa Cancel reply