• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عظیم برادر (کش) ہمسایہ ملک افغانستان کے عظیم کمیونسٹ حکمران ڈاکٹر نجیب اللہ ۔۔۔۔رانا اظہر کمال/دوسری،آخری قسط

عظیم برادر (کش) ہمسایہ ملک افغانستان کے عظیم کمیونسٹ حکمران ڈاکٹر نجیب اللہ ۔۔۔۔رانا اظہر کمال/دوسری،آخری قسط

افغانستان میں پے در پے ناکامیوں پر سوویت قیادت جھنجھلاہٹ کا شکار تھی۔ سوویت یونین کی قیادت برزنیف سے یوری آندروپوو کو منتقل ہو چکی تھی لیکن وہ بھی ببرک کارمل کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔ سوویت قیادت نے کارمل انتظامیہ پر عدم اعتماد کا پہلا اظہار 1983 میں کیا تھا لیکن ابھی افغان پولٹ بیورو میں کارمل کی کافی حمایت تھی اور دوسری جانب روسی بین الاقوامی محاذ پر اپنے لیے حفیظ اللہ امین کے واقعے جیسی بدنامی سمیٹنے کے خواہشمند نہیں تھے۔ افغانستان کی داخلی سیاست میں نجیب اپنے قدم مضبوطی کے ساتھ بڑھا رہا تھا۔ نومبر 1985 میں اسے پی ڈی پی اے کے مرکزی سیکرٹریٹ میں نامزد کر دیا گیا اور جنوری 1986 میں اس نے خاد کو ایک ایجنسی سے ترقی دلوا کر ایک مکمل وزارت کا درجہ دلا دیا۔ یہ نجیب کا اقتدار کے ایوان میں ایک بڑا قدم تھا۔ اس وقت سوویت یونین میں کمیونسٹ پارٹی کی سیکرٹری شپ میخائیل گورباچوف کے ہاتھ میں تھی اور گوربا چوف افغان مسئلے کا ایسا حل چاہتا تھا جس میں سوویت یونین کی کم سے کم سبکی ہو سکے۔ سوویت یونین کی حمایت سے 4 مئی 1986 کو نجیب پی ڈی پی اے کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ اگرچہ اس وقت ببرک کارمل ملک کا صدر ہونے کے ساتھ انقلابی کونسل کے پریذیڈیم کا چئیرمین بھی تھا لیکن اس کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی تھی۔ روسی بھی جانتے تھے کہ کابل حکومت کا واحد ستون خاد ہے لہٰذا ان کی نظروں میں کارمل کی اہمیت نہیں رہی۔ دوسری جانب نجیب نے سوویت قیادت کو افغان مسئلے کے حل کے لیے اپنا ایک فارمولا پیش کیا جس کے تحت ملک میں ایک مصالحتی منصوبہ بروئے کار لایا جانا تھا اور نجیب کے مطابق کارمل اس منصوبے میں رکاوٹ پیدا کر رہا تھا۔ سوویت مشیروں نے ببرک کارمل کو اقتدار چھوڑنے پر آمادہ کر لیا اور نومبر 1986 میں پی ڈی پی اے نے کارمل کو انقلابی کونسل کی قیادت سے ہٹا دیا۔ ببرک کارمل نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور خاموشی سے ماسکو چلے جانے میں ہی عافیت جانی کیونکہ اسے ترہ کئی اور امین کا انجام پوری طرح یاد تھا۔ ببرک کارمل کی جگہ حاجی محمد چمکنی کو عارضی طور پر انقلابی کونسل کا سربراہ مقرر کر دیا گیا جو 30 ستمبر 1987 کو نجیب کے صدارت سنبھانے تک یہ ذمہ داری انجام دیتا رہا۔

کارمل کی رخصتی سے قبل ہی ستمبر 1986 میں نجیب نے ایک “نیشنل کمپرومائز کمیشن” قائم کر دیا تھا جس کا مقصد انقلاب مخالف قوتوں کے ساتھ رابطہ کرکے ملک میں مصالحت پیدا کرنا تھا تاکہ کسی نہ کسی طرح اسلام پسند مجاہدین کی پیش قدمی کو روکا جا سکے۔ اس مقصد کے تحت سوویت ایجنسیوں اور افغان حکومت کی طرف سے مجاہدین سمیت کم و بیش 40000 جنگجوؤں سے رابطہ کیا گیا اور انہیں بھاری مراعات کے عوض حکومت کا ساتھ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ نیز یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ منصوبے کی کامیابی کی صورت میں ان لوگوں کو آئندہ حکومت میں حصہ دار بھی بنایا جائے گا۔ یہ کوشش جزوی طور پر کامیاب رہی۔ اس کے دو بڑے نتائج برآمد ہوئے ۔۔۔۔ ایک، افغانستان کے شہروں سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد جو برسوں کی خانہ جنگی سے تنگ آ چکے تھے، حکومت کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو گئے اور کابل کی سرکاری فوج کی شہروں میں مزاحمت میں کچھ کمی آگئی۔ دوسرا بڑا اور منفی نتیجہ یہ نکلا کہ متعدد ایسے جنگجو گروہ وجود میں آگئے جن کا مقصد صرف مفادات کا حصول تھا۔ یہ گروہ اپنے وار لارڈز کی سربراہی میں صرف مالی مفادات کے لیے وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے تھے۔ یہ گروہ آئندہ چل کر افغان معاشرے میں کشت خون کا ایک نیا سلسلہ شروع کرنے کے ذمہ دار بھی بنے۔

اسی نیشنل ری کنسلیئیشن کمیشن نے 1986 میں ملک کے لیے ایک نیا آئین بھی ترتیب دیا جس میں کئی بنیادی تبدیلیاں تجویز کی گئیں۔ جولائی 1987 میں ملک کا سرکاری نام ڈیموکریٹک ریپبلک  اَو افغانستان سے تبدیل کر کے ریپبلک اَو افغانستان کیا گیا، گویا کمیونزم سے مراجعت کا سفر شروع کیا گیا۔ نئے آئین کے تحت جس کا نفاذ نومبر 1987 میں ہوا، صدارتی اختیارات میں کمی کی گئی تاکہ دوسرے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ پاور شئرنگ کی جا سکے۔ جون 1988 میں انقلابی کونسل کی جگہ ایک قومی اسمبلی قائم کی گئی۔ انقلابی کونسل کی نامزدگی پارٹی قیادت کیا کرتی تھی تاہم قومی اسمبلی کے ارکان عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آنے تھے۔ سوویت یونین اس جنگ میں اپنا بھاری نقصان کروا چکا تھا اور افغانستان سے واپس جانے کا محفوظ راستہ چاہتا تھا۔اسی سلسلے میں 14 اپریل 1988 کو اقوام متحدہ کے جنیوا دفتر میں ایک معاہدے پر افغانستان، سوویت یونین، پاکستان اور امریکا نے دستخط کیے جس کے تحت سوویت افواج کو 15 مئی 1988 سے 15 فروری 1989 کے درمیان اپنی افواج کا انخلاء مکمل کرنا تھا تاہم گورباچوف نے کابل انتظامیہ کو یقین دہانی کروائی کہ اسے مالی امداد اور اسلحے کی فراہمی جاری رہے گی۔ دوسری طرف افغان مجاہدین اس معاہدے کا حصہ نہیں تھے لہٰذا انہوں نے کابل انتظامیہ کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ گویا اب صرف افغانوں کو آپس میں لڑ کر اس قضیے کا فیصلہ کرنا تھا ۔افغانستان کے داخلی محاذ پر نجیب کو مجاہدین کے علاوہ پی ڈی پی اے کے اندرونی حلقوں سے بھی مخالفت کا سامنا تھا جو کمیونزم سے مراجعت کو اپنی اور حکومت کی ناکامی گردان رہے تھے لیکن نجیب کے پاس اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ 1989 میں افغان وزارت تعلیم کو ہدایات دی گئیں کہ یونیورسٹیوں کو سوویت اثرات سے پاک کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے جائیں۔ یہ کمیونزم کی بطور نظریہ ایک بڑی شکست تھی۔ اسی طرح 1990 میں پی ڈی پی اے کے بعض ارکان نے مارکسزم سے مکمل قطع تعلق کا اعلان کر دیا اور قرار دیا کہ پارٹی کے تمام ارکان مسلمان ہیں (قہقہہ)۔ اس سے قبل نئے آئین کے تحت ملک سے یک جماعتی نظام ختم کر کے سیاسی جماعتیں بنانے اور انتخابات لڑنے کی آزادی دی گئی۔ 1987 میں بلدیاتی اور 1988 میں پارلیمانی انتخابات ہوئے جن میں حکومت مخالف مجاہدین نے حصہ ہی نہیں لیا اور یوں ایک برائے نام سی پارلیمان وجود میں آئی جس کی عملی طور پر کوئی حیثیت نہیں تھی۔

نجیب کو معلوم تھا کہ کمیونسٹ انقلاب کے باوجود افغان عوام سے اسلامی عقائد اور کلچر کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ اسلام پسند حلقوں کو مطمئن کرنے کے لیے 1987 میں اس نے اپنے نام کے ساتھ “اللہ” کا لفظ واپس جوڑ لیا جو برسوں پہلے کمیونزم سے وابستگی کی بنا پر ہٹا دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ نجیب نے ملک میں متعدد ایسے اقدامات کی منظوری بھی دی جس سے حکومت کو اسلامی قرار دیا جا سکے۔ 1987 کے آئین کی شق 2 کے تحت ملک کا سرکاری مذہب اسلام اور شق 73 کے تحت ملک کے سربراہ کا مسلم خاندان میں پیدا ہونا لازم قرار دیا گیا۔ لیکن عملی طور پر ان اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ عوام نجیب کی “اسلامی پسندی” سے بخوبی آگاہ تھے۔ کچھ ایسا ہی حشر اس کی اقتصادی پالیسیوں کا بھی ہوا جہاں روس کے ساتھ 1986 کے پانچ سالہ اقتصادی معاہدے کے بعد معاشی ترقی کی شرح کو 25 فیصد تک لے جانے کے دعوے کیے گئے تھے لیکن یہ شرح محض دو فیصد ہی رہی۔

نجیب کے اقتدار کو سب سے بڑا سہارا سوویت افواج کا تھا۔ 14 فروری 1989 کو آخری سوویت فوجی نے افغان سرزمین سے اپنے قدم باہر رکھے تو نجیب کو اپنا انجام سامنے نظر آنے لگا۔ صرف چار دن بعد یعنی 18 فروری 1989 کو نجیب نے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ پی ڈی پی اے جس نیا نام وطن پارٹی تھا، کے اندر بھی نجیب کی مخالفت بڑھ رہی تھی۔ کمیونسٹ ارکان خصوصاً کارمل کے حامی نجیب کے مصالحتی پروگرام کے خلاف تھے اور اسے انقلاب ثور سے بے وفائی سمجھتے تھے۔ دوسری جانب مسلم عوام بھی نجیب کے اقدامات سے مطمئن نہیں تھے۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے دس روز کے اندر اندر تحریر و تقریر اور آزادی اظہار رائے پر پابندی عاید کر دی گئی اور 1700 سے زاید ایسے افراد کو گرفتار کر لیا گیا جو نجیب کے اقدامات کی کسی طرح بھی مخالفت کر رہے تھے۔گرفتار شدگان میں بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو افغانستان کے وسائل پر نجیب اور اس حواریوں کے تسلط کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ان میں ایک بڑی تعداد ملک و قوم کے خیر خواہ دانشور طبقے کی بھی تھی۔ افغانستان کی اپنی پیداوار اور وسائل تو نہایت معمولی تھے البتہ سوویت یونین سے اسے بھاری امداد مل رہی تھی اور ہر شکل میں مل رہی تھی۔ سوویت یونین کی افواج کا انخلا مکمل ہو چکا تھا لیکن خوراک، ایندھن، اسلحہ، گولہ بارود اورمشینری کے بھاری ذخائر کابل حکومت کو دیے گئے۔ صرف 1990 میں سوویت یونین نے 3 ارب امریکی ڈالر کی امداد نجیب کو دی لیکن اس کا بڑا حصہ بھی کرپشن اور وار لارڈز کی وفاداریاں خریدنے کی نذر ہو گیا۔ جب دسمبر 1991میں سوویت یونین کا انہدام ہوا تو افغان حکومت کے پاس سردیوں کا موسم گزارنے کے لیے بھی راشن اور ایندھن نہیں تھا۔ مجبوراً نجیب کو نو آزاد وسطی ایشیائی ریاستوں سے اسلامی مجاہدین کا خوف دلا کر 5 لاکھ ٹن گندم اور 6 ملین بیرل تیل کی بھیک مانگنا پڑی۔

سوویت انخلا کے بعد جہاں افغانستان کو روسی امداد جاری تھی، وہیں افغان مجاہدین کے پاکستانی مدد و تعاون بھی موجود تھا ۔۔۔۔ گویا دونوں جانب سے جنیوا معاہدے کی خلاف ورزی ہو رہی تھی۔ نجیب نے سوویت امداد کے بل پر ملکی افواج کی تعداد ایک لاکھ تک بڑھا لی لیکن یہ غیر تربیت یافتہ اور جذبے سے عاری فوج کابل انتظامیہ کا دفاع کرنے کے قابل نہیں تھی۔ اگرچہ مجاہدین کی جلال آباد کو فتح کرنے کی پہلی کوشش ناکام رہی اور انہیں بھاری جانی نقصان کے ساتھ پیچھے ہٹنا پڑا لیکن افغان فوج میں بد دلی بڑھ رہی تھی۔ دوسری جانب ماسکو میں واقعات تیزی سے رونما ہونے لگے۔ دسمبر 1991 میں سوویت یونین تحلیل ہوا ،گوربا چوف کی جگہ بورس یلسن صدر بن گیا جسے افغانستان اور نجیب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ نجیب نے سابق سوویت وزیر خارجہ ایڈورڈ شیورناٹزے کو خط لکھا اور اپنی خدمات اور سوویت وعدے یاد دلائے لیکن جہاں سوویت یونین کی اپنی ریاستیں آزاد ہو رہی تھیں، وہاں افغانستان میں کسے دلچسپی ہو سکتی تھی۔ شیورناٹزے نے نجیب کے خط کا جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔

جنوری 1992 میں نئی روسی حکومت نے افغانستان کے لیے امداد ختم کر دی جس کے اثرات فوری طور پر افغان حکومت اور فوج پر نظر آئے۔ افغان فضائیہ کی کارروائیاں روکنا پڑیں اور اسلحے کی کمی کا سامنا ہونے لگا۔ 1990 اور 1991 میں ہی سوویت یونین کے مشیر نجیب کو خبردار کر چکے تھے کہ کابل حکومت عملی طور پر افغانستان کے صرف 20 فیصد حصے پر کنٹرول کر رہی ہے اور وہ بھی صرف بڑے شہری علاقوں پر۔ اب روسی امداد ختم ہونے کے بعد مجاہدین کی پیش قدمی میں تیزی آ رہی تھی اور شہر ایک کے بعد ایک نجیب کے ہاتھوں سے نکلنے لگے۔ 1992 کے اوائل میں “افغان قومی مصالحتی منصوبے” کی پانچویں سالگرہ (یا برسی) کے موقع پر نجیب کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا۔ اس نے افغانستان کی تباہی کا ذمہ دار سوویت یونین کو قرار دیتے ہوئے سوویت افواج کے انخلا کے دن کو “یوم نجات” کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔

اب نجیب کی قسمت پر مہر لگ چکی تھی۔ اس کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کا وقت قریب آچکا تھا۔مجاہدین کی پیش قدمی جاری تھی۔ مارچ 1992 میں نجیب نے رضا کارانہ طور پر استعفیٰ دینے کی پیش کش کی تاکہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک ایسی حکومت بنائی جائے جس میں تمام فریقین کی نمائندگی ہو۔ یہ پیشکش مجاہدین نے مسترد کر دی۔ 14 اپریل 1992 کو مجاہدین نے کابل سے70 کلومیٹر دور بگرام کے اڈے پر قبضہ کر لیا۔ نجیب حکومت صرف کابل تک محدود ہو چکی تھی۔ وطن پارٹی کے ارکان کی میٹنگ میں نجیب کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا تاکہ مجاہدین کے انتقام سے محفوظ رہا جا سکے۔ کابل کی فوج کے چار جرنیلوں نے نجیب سے استعفیٰ لے کر احمد شاہ مسعود کو کابل آنے کی دعوت دی۔ مسعود کا ساتھ رشید دوستم بھی دے رہا تھا جو کبھی نجیب کا ساتھی بھی رہ چکا تھا۔ نجیب کے بعد مجاہدین کی باہمی چپقلش اور لڑائی ایک الگ کہانی ہے جو پھر کبھی سہی۔

نجیب نے استعفیٰ دینے کے بعد اقوام متحدہ سے معافی (ایمنیسٹی) کی درخواست کی جو منظور کر لی گئی۔ اس کا ارادہ تھا کہ اقوام متحدہ کی چھتری تلے وہ بھارت چلا جائے جہاں اس کی اہلیہ اور بیٹیاں پہلے ہی پناہ لے چکی تھیں لیکن اس کے کابل چھوڑ کر بھارت فرار ہونے میں جو وجہ رکاوٹ بنی، وہ خود اس کی پیدا کردہ تھی۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ نجیب نے مجاہدین کا زور توڑنے کے لیے بھاری رقوم اور مراعات سے کئی وار لارڈز کو کھڑا کیا تھا، انہی میں سے ایک رشید دوستم بھی تھا۔ 17 اپریل 1992 کو اگر نجیب بھارت فرار نہیں ہو سکا تو اس کی وجہ بھی یہی دوستم تھاجس کے قبضے میں کابل کا فضائی اڈہ تھا۔ نجیب نے اقوام متحدہ کے نمائندے بینن سیوان کے ساتھ خفیہ طور پر بھارت جانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ بینن نے متوقع سفارتی بدمزگی سے بچنے کے لیے اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو بھی اس سلسلے میں اعتماد میں لے لیا تھا اور بھارتی وزیر اعظم نرسمہا راؤ سے بھی نجیب کے لیے سیاسی پناہ اور سرکاری مہمان کا درجہ دینے کی یقین دہانی حاصل کر لی تھی۔ صبح تین بجے نجیب اپنے محافظوں اور اقوام متحدہ کے عملے کے ساتھ کابل ائرپورٹ پہنچا لیکن رشید دوستم کے ازبک سپاہیوں نے اسے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ رن وے پر طیارہ موجود تھا، بینن سیوان طیارے کے اندر منتظر تھا،تیاری مکمل تھی لیکن قسمت کو منظور نہیں تھا۔ دوستم نے ائر پورٹ کو آئندہ 24 گھنٹوں تک ہر قسم کی آمد ورفت کے لیے بند کرنے کا حکم دے دیا۔ غصے سے بھرا ہوا نجیب دوستم کے سپاہیوں کو گالیاں دیتا واپس مڑا لیکن اسے اطلاع ملی کہ اس کے وزیر سٹیٹ سکیورٹی جنرل غلام فاروق یعقوبی کی لاش گھر سے ملی ہے۔ اسے قتل کیا گیا یا کچھ اور ہوا، یہ معلوم نہیں ہو سکا لیکن اس سے نجیب کو یہ احساس ضرور ہو گیا کہ وہ اب صدارتی محل یا اپنے گھر میں محفوظ نہیں۔ چنانچہ اس نے اقوام متحدہ کے دفتر جانے کو ترجیح دی۔

جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق نجیب کے ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ افغان فوج کے سربراہ جنرل عظیمی اور وزیر خارجہ عبد الوکیل نے بینن سیوان کو سخت سست کہا اور عبدالوکیل نے ریڈیو کابل سےاعلان کیا کہ نجیب اللہ کے بھارت فرار ہونے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔ آمر کو افغان عوام کےخلاف جرائم کا حساب دینا ہوگا تاہم ان کی جان کو کوئی (فوری) خطرہ نہیں۔سفارتی حلقوں کے مطابق نجیب کے فرار کی ناکام کوشش بھارتی ایجنسیوں کی نا اہلی تھی کیونکہ انہوں نے صرفایک منصوبہ بنایا تھا اور اس منصوبے کی ناکامی کی صورت میں ان کے پاس کوئی متبادل منصوبہ نہیں تھا۔ اقوام متحدہ کے افسروں نے بھارت سے درخواست کی کہ نجیب کو بھارتی سفارتخانے میں سیاسی پناہ دے دی جائے لیکن بھارت نے انکار کر دیا۔ افغانستان اور پاکستان میں بھارت کے سابق سفیر جے این ڈکشٹ کے مطابق نئی دلی حکام کو خدشہ تھا کہ معاملہ کھل جانے کے بعد نجیب کو سیاسی پناہ دینے سے بھارتی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا تھا ۔۔۔۔ ہاں اگر پہلے منصوبے کے مطابق نجیب بھارت پہنچ جاتا تو اسے سیاسی پناہ دی جا سکتی تھی۔ نجیب کے دوستوں نے بھارت سے درخواست کی کہ بھارتی فضائیہ کے کسی طیارے کے ذریعے نجیب کو کابل سے نکالا جائے لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بطروس غالی کو مطلع کیا کہ ایسا صرف اسی صورت ممکن ہے کہ بطروس غالی اس سلسلے میں پاکستان اور مجاہدین سے کچھ یقین دہانیاں حاصل کر لیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا ممکن نہیں تھا چناچہ بھارت نے نجیب کی اہلیہ اور بیٹیوں کو پناہ دینے پر ہی اکتفا کیا۔ اس واقعے کے برسوں بعد رشید دوستم نے ایک بھارتی انٹیلیجنس افسر سے کہا تھا کہ اگر بھارت واقعی نجیب اللہ کو بچا کر لیجانا چاہتا تھا تو اسے (دوستم کو) اس کی صحیح قیمت ادا کی جانی چاہیے تھی جو نہیں کی گئی۔

بھارت نے نجیب کو بچانے کی ایک اور کوشش 1994 میں کی جب بھارتی وزارت خارجہ کے ایک سیکرٹری بھدرکمار کو احمد شاہ مسعود کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھجوایا گیا کہ بھارت کابل کے ساتھ تعلقات کا احیا چاہتا ہے، افغانستان میں بھارتی مشن دوبارہ کھولنے کی اجازت دی جائے اور نجیب کو بھارت بھیج دیا جائے۔ لیکن مسعود نے بھارتی پیشکش کو اس باعث مسترد کر دیا کہ اس طرح نجیب آئندہ مسعود کے اقتدار کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
افغانستان کی خانہ جنگی جاری تھی پاکستانی حمایت یافتہ طالبان گزشتہ مجاہدین کے زیر کنٹرول علاقے قبضے میں لیتے جا رہے تھے۔ ستمبر 1996 میں جب طالبان کابل کے قریب پہنچ چکے تھے تو احمد شاہ مسعود نے نجیب کو کابل سے فرار ہونے میں مدد کی پیشکش کی لیکن نجیب کو احمد شاہ مسعود پر اعتماد نہیں تھا۔ مسعود اس سے قبل اقوام متحدہ کے اس دفتر پر متعدد بار حملے کرا چکا تھا جہاں نجیب پناہ گزین تھا۔ 26 ستمبر 1996 کو طالبان نے اقوام متحدہ کے اس دفتر پر دھاوا بول دیا اور نجیب اور اس کےبھائی کو گولی ماردی۔ دونوں بد نصیبوں کی لاشوں کو گاڑی کے پیچھے باندھ کر کابل کی گلیوں میں گھسیٹا گیا اور آخر کار لے جا کر چوک میں لٹکا دیا گیا۔ لاشوں کے ساتھ بد سلوکی بہرحال ایک غیر انسانی سلوک تھا لیکن افغانستان میں عوام کی اکثریت کو نجیب سے ہمدردی نہیں کیونکہ جن ہزاروں لوگوں کو نجیب نے تشدد سے مارا اور معذور بنایا تھا، ان کے لواحقین میں بہت سے زندہ تھے اور اس سلوک کو جائز سمجھتے تھے۔

کمیونزم نے افغانستان کو کیا دیا اور کیا چھینا ۔۔۔۔ اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ افغان کمیونسٹ حکمرانوں نے اپنے عوام کو کس طرح عذاب سے دوچار کیا ؟

حوالہ جات:

The Russians in Afghanistan 1979-1989 by Rodric Braithwaite
US-Pakistan Relationship: Soviet Intervention in Afghanistan by A. Hilali 2005
War, Politics and Society in Afghanistan by Antonio Giustozzi 2000

Advertisements
julia rana solicitors london

US-Pakistan Relationship: Soviet Invasion of Afghanistan by A. Z. Hilali 2005
War Without End: The Rise of Islamist Terrorism and Global Response by Dilip Hiro 2002
qz.com/…/najibullahs-failed-escape-how-india-and-the-un-mu…/
Revolution & Counter Revolution in Afghanistan by Dixon Norm 2012
The Fall of Kabul 1992, Library of Congress
Afgantsy: The Russians in Afghanistan, 1979–1989 by Rodric Braithwaite

Facebook Comments

ژاں سارتر
کسی بھی شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا اصل تعارف ہوتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply