جانور اور انسان کا ازلی ساتھ۔۔۔۔ڈاکٹر شفیق احسن بٹ

جانوروں اور انسانوں کا تعلق صدیوں پرانا ہے۔ گزرے زمانے میں دیہی طرز ِ زندگی کچھ ایسا تھا کہ ہر انسان کا جانوروں کے ساتھ کسی نہ کسی صورت میل جول رہتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ لوگوں نے شہروں کا رخ کر لیا اور جانوروں سے انسان کا تعلق کم ہوتے ہوتے تقریباً  معدوم ہو گیا ۔

گائے برصغیر میں رہنے والے لوگوں کی زندگی کا ایک اہم حصہ تھی۔ اسی طرح اونٹ عربوں کی زندگی کا حصہ تھے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہندو گائے کے پیشاب کو مقدس سمجھتے ہیں۔ اس کو جمع کرتے، جسم پہ  ملتے اور بعض اوقات پی بھی لیتے ہیں۔ عربوں کے بعض قبائل میں بھی یہ رواج ہے کہ وہ اونٹنی کے پیشاب کو عین اسی طرح مقدس سمجھتے اور اہمیت دیتے ہیں جس طرح ہندو گائے کے پیشاب کودیتے ہیں۔ یہ رویہ عقیدت کی ایک شدید قِسم ہے جو راتوں رات جنم نہیں لے سکتااور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صدیوں جن جانوروں کے ساتھ انسان نے وقت گزارا، وہ اس کی زندگی کا اہم حصہ تھے۔ انسان ان کی محبت میں اِس انتہا کو پہنچ گیا کہ ان کے فضلہ کو بھی اس نے تکریم کے لائق سمجھنا شروع کر دیا۔ یہ انسان کی جانوروں سے محبت کی انتہا ہے جو عقیدت اور عبادت کے مرتبے تک جا پہنچی۔آج بھی فلموں میں ہیرو’ ہیروئین کاپالتوجانور دکھایا جاتا ہے ۔جب ہیرو، ہیروئن دنیا کے معاملات کی الجھنوں سے تنگ آ جاتے ہیں تو پالتو جانوروں سے باتیں کرتے دکھائے جاتے ہیں ذی روح ہونے کی وجہ سےجانور ‘ انسانوں کی طرح چھونے اور محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ جانور کو چھونے اور اس کی دیکھ بھال کرنے سے انسان کے دل میں لطیف جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ ایک بہت ہی خوبصورت جذبہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ  نے بھی جانوروں کے ساتھ صلہ رحمی اور اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔ روایات میں نبی پاک ﷺ  کی اونٹنی کا ذکر آتا ہے جس کے ساتھ آپ کو بہت لگاؤ تھا ایک دفعہ کسی سفر پہ  جانا ہوا تو اونٹنی آپ کی غیر موجودگی میں بیمار پڑ گئی آپ کے واپس لوٹنے پر دوبارہ سے کھانا پینا شروع کیااور رو بصحت ہوگئی۔

اگر ہم تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ بہت سے پیغمبر، صحابہ، اللہ کے برگزیدہ بندے اور ایسے لوگ جنہوں نے تاریخ میں ناقابل فراموش کارنامے انجام دیےان کا جانوروں کے ساتھ نہ صرف بہت قریبی تعلق تھا بلکہ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ انہوں نے جانوروں کو پال پوس کر گزارا، ہم جانتے ہیں رحمت دو عالمﷺ  نے بکریاں چَرائی ہیں اسی طرح عمر ابن خطاب جیسے جلیل القدر صحابی نے فرمایا کہ “میں تو ایک بکریاں چَرانے والا چرواہا تھا ،مجھے اللہ رب العزت نے اس قوم کا سربراہ بنا دیا”۔۔۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ پہ ایک ڈرامہ ارطغرل دیکھتے ہوئے معلوم ہوا کہ عثمانی بھی خانہ بدوش ہونے کے ساتھ بنیادی طور پہ  جانور پالنے کا کام ہی کرتے تھےاور یہ بھید کُھلا  کہ قبیلے کا سردار ارطغرل جب دنیا کی مشکلات میں گھر کے مایوس ہو جاتاتو   جہاں وہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع کرتا وہیں وہ اپنے گھوڑے کو لے کر کہیں تنہائی والی جگہ پہ  چلا جاتا اور اس کے ساتھ لمبی گفتگو کرتا ۔

انسان کا جانور سے لگاؤایک فطری عمل ہے ۔پالتو جانور نہ تو بحث کرتا ہے اور نہ ہی کوئی مزاحمت کرتا ہے’ انسان جیسا اسے چلانا چاہے چلا سکتا ہے۔ یہ وہی کرتا ہے جو اسکا مالک اس سے چاہ رہا ہوتا ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ سدھائے ہوئے جانور مالک کے اشاروں پر چلتے ہیں’ مالک جب گھر میں داخل ہوتا ہے تو جانور فرطِ جذبات میں اس کی طرف لپکتا ہے۔ اس کے مالک کے لیے  محبت کے جذبات ایسے ہوتے ہیں جیسے وہ اسی کے انتظار میں تھا۔جانوروں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان کی بات اطمینان سے سنتے ہیں ‘ جس سے انسان کویہ محسوس ہوتا ہے کہ اس جیتی جاگتی مخلوق کو میں جو چاہے کہہ سکتا ہوں اور جتنی دیر چاہے باتیں کر سکتا ہوں’ جبکہ انسان سننے کی اس صلاحیت سے تقریباًمحروم ہو چکاہے۔ انسان عموماً  کسی کی بات سننے اور سمجھنے کے لیے  نہیں بلکہ اس کا جواب دینے کے لیے  سنتے ہیں۔ جانوروں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انسان انہیں روزانہ ایک ہی برتن میں ایک ہی جیسی خوراک بھی ڈالے تو وہ کبھی شکایت نہیں کریں گے نہ ہی ناشکری کریں گے بلکہ صبر شکرکر کے خاموشی سے کھا لیں گے۔ اس کے برعکس روزانہ نِت نئے کھانے اور لوازمات پیش کیے  جانے کے باوجود انسان کے مطالبے اور شکایتیں کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ پالتو جانور کو جو دائرہ کار بتادیا جاتا ہے جو سکھااور سدھا دیاجاتا ہے وہ اس سے کبھی تجاوز نہیں کرتا۔ یہ وہ چند خصوصیات ہے جن کی بنا پر انسان اور جانور کے مابین بے مثال تعلق قائم رہتا ہے۔ آپ کتوں کی مثال لیجیے۔ مالک کے پیچھے سر جھکائے چلتے نظر آتے ہیں۔ اس کو دیکھنے پر اس کی جانب لپکتے’دم ہلاتے اور پیار کااظہار کرتے ہیں اور اکثر اوقات مالک بھی جھک کے ان سے پیار کا اظہار کرتے ہیں۔ وفاداری کا یہ احساس اور لگاؤ انسان کے لیے اطمینان کا باعث ہوتا ہے ۔

دنیا نےجانوروں سے کیا کیا فوائد حاصل نہیں کیے ۔ آج کل یورپ میں گائیڈ ڈاگز کا ایک تصور ہے۔ جس میں معذوروں یا آ ٹیزم کا شکار بچوں کی مدد کے لیے کتوں کو تیار کیا جاتا ہے۔ عسکری مہمات کے لیے  کتوں اور کبوتروں کا استعمال کئی صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے ۔آج بھی دنیا کے تمام ممالک کی فوجوں میں کتوں کی بٹالین موجود ہیں اور ان کتوں کو رینک فوجی افسروں کی طرح ہی دیے جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عمومی طور پرپالتو جانور رکھنا اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔معلوم نہیں کتے پالنے کے متعلق اہل مذہب کیا رائے دیں گے لیکن نہ صرف مغربی معاشرے بلکہ کئی دوسرے معاشروں میں بھی کتے پالنے کا رواج رائج ہے۔ جو اس بات کا مظہر ہے کہ انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ کوئی تو ایسا ہو جو اس کے اشاروں کی زبان کو سمجھے، اس کے دل کی بات کو من و عن تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعمیل بھی کرے۔

جہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے جانور پال رکھے ہیں وہیں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو اسے ایک فضول قسم کی سرگرمی اور وقت کا ضیاع گردانتے ہیں ۔فارسی کا ایک مقولہ بھی ہے “اگر کوئی شخص بالکل فارغ ہے تو وہ بکری پال لے” ۔ یہ دیکھا گیا ہے جن لوگوں کے ہاں پالتو جانور ہوتے ہیں اور وہ ان جانوروں سے پیار کا اظہارکرتے ہیں ایسے لوگ عموماً نرم دل واقع ہوتے ہیں ان میں ہمدردی، رحم دلی، تکریم اور عزت دینے کا جذبہ ان لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے جنہوں نے جانوروں کے بارے میں یہ رویہ اختیار کر لیا ہے کہ جانور منحوس اور پلید ہیں اور ان کو پالنا ایک فضول کام ہے ۔ ہمارے معاشرے میں راہ چلتے جانوروں مثلاً کتے اور بلی کوپتھر مارنے کا رواج عام ہے۔ ایسے کئی مناظر سوشل میڈیا پر وڈیوز میں اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔یہ رویہ اسی بنیاد پر قائم ہوا ہے کہ یہ نجس ہیں اور جہاں یہ موجود ہوں وہ جگہ رحمت سے محروم ہو جاتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ کتوں سے ایک شدید قسم کے خوف میں مبتلا ہیں، بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ کتے پڑ جاتے ہیں اور اور کاٹ کے بھاگ نکلتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ کتا ایک ایسا جانور ہے جو نہ صرف مغربی معاشروں میں خاندان کے ایک فرد کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ بسا اوقات گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں مدد بھی دیتا ہے۔

انسان نے جب روایتی دیہاتی ماحول کو ترک کر کے شہروں میں سکونت اختیار کی’ اس کے ساتھ ہی اس کی فطرت میں شامل جانوروں کے ساتھ تعلق اپنے اختتام کو جا پہنچا جس سے انسانی رویوں کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو بھی مخلوق پیدا کی ہے اس سے انسان کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور حاصل کر سکتا ہے۔ سارے فائدے مادی  ہی  نہیں ہوتے بہت سے نہ نظر آنے والےفوائد بھی ہوتے ہیں جیسے احساسات، انس و محبت کے جذبات اور اپنائیت کا احساس۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جو آج انسانوں میں نا پید ہوتی جا رہی ہیں۔ ایسا قیاس کیا  جاسکتا ہے کہ آنے والے وقت میں انسان مشینوں سے اکتا جائیں گے اور دوبارہ سے جانوروں کا دور واپس آئے گا۔ آج جس روبوٹ کی ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کی ہے اس میں بھی یہی فلسفہ ہے کی انسان کے اشارے کو کوئی سمجھے ۔ لیکن ظاہر ہے روبوٹ میں وہ احساسات ہونا ممکن نہیں جو کسی جانور میں ہو سکتے ہیں۔

جانوروں کی کمی کبھی ریڈیو سے پوری کی گئی، کبھی ٹی وی و سینما سے اور آج اس کی جگہ لیپ ٹاپ، موبائل اور ٹیبلیٹ لے چکے ہیں لیکن یہ کمی پورے ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانوں کا جانوروں کے ساتھ تعلق بحال کرنے کی کوئی صورت نکالی جائے تا کہ انسان کوپھر سے جانوروں سے کچھ سیکھنے کو مل سکے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : جانوروں کے متعلق گفتگو اس تصویر سے شروع ہوئی جو میرے بھائی حماد صدیق نے مجھے بھیجی جس میں بن علی یلدرم جو کہ ترکی کے وزیراعظم اور اسپیکر اسمبلی کے عہدوں پہ فائض رہ چکے ہیں’ کتے سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شفیق احسن بٹ
.تعارف : ڈاکٹر شفیق احسن بٹ چائلڈ اسپیشلسٹ اور آئر لینڈ میں مقیم ہیں .انسانی رویّوں' نفسیات اور سماجی مسائل پر بات کرنے میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply