انسانیت ایک دوراہے پر!
ایک امن پسند انسان دوست ہونے کے ناطے جب میں انسانوں کے صدیوں کے ارتقا ء کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسانیت اکیسویں صدی میں ایک دوراہے تک آ گئی ہو اور اب اسے فیصلہ کرنا ہو کہ وہ ان دو راہوں میں سے کس راہ کا انتخاب کرے۔
ایک راستہ غصہ ’نفرت‘ تلخی ’تضاد‘ تشدد اور جنگ کی طرف اور دوسرا راستہ محبت ’پیار‘ دوستی ’امن‘ دانائی اور آشتی کی طرف جاتا ہے۔
اگر انسانوں نے پہلا راستہ اختیار کیا تو خطرہ ہے کہ کہیں وہ خانہ جنگی اور ایٹمی ہتھیاروں سے اجتماعی خود کشی کے مرتکب نہ ہو جائیں
اگر انسانوں نے دوسرا راستہ اپنایا تو امید ہے کہ وہ کرہِ ارض پر ایک پرامن معاشرہ تعمیر کر سکیں گے جہاں ہر رنگ ’نسل‘ زبان اور مذہب کے لوگ خوشی سے مل جل کر رہ سکیں گے اور اپنے تضادات کا پر امن حل تلاش کر سکیں گے۔
انسانی ارتقا میں بیسویں صدی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا جو انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور وہ واقعہ ایٹم بم کی ایجاد تھا۔ اس ایجاد نے انسان کی اجتماعی نفسیات پر ایک گہرا اثر ڈالا۔ ایک ماہرِ نفسیات ہونے کے ناطے میں انسانوں کی اس اجتماعی نفسیات کا موازنہ انسانوں کی انفرادی نفسیات سے کرنا چاہتا ہوں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دو سال کا بچہ خودکشی نہیں کر سکتا اور چار سال کی بچی بھی خود کشی نہیں کر سکتی لیکن جب کوئی بچہ یا بچی چودہ پندرہ سال کے ہو جاتے ہیں اور adolescence کے دور سے گزر رہے ہوتے ہیں تو وہ اگر چاہیں تو خودکشی کر سکتے ہیں اور بعض نوجوان نفسیاتی مسائل سے مجبور ہو کر خود کشی کر بھی لیتے ہیں لیکن اکثر نوجوان اس دور سے گزر کر جوان ہوتے ہیں ’زندگی کے تجربات سے سیکھتے ہیں‘ عاقل اور بالغ ہوتے ہیں ’اور پھر زندگی سے محبت کرنے لگتے ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اکیسویں صدی میں سات ارب انسان اجتماعی طور پر adolescence سے گزر رہے ہیں۔ ماضی کی جنگوں میں انسان چند سو یا چند ہزار انسانوں کا قتل کرسکتے تھے۔ انسانوں کی تاریخ میں ایٹم بم بنانے کے بعد یہ پہلی دفعہ ممکن ہوا ہے کہ انسان اجتماعی طور پر خود کشی کر سکتے ہیں اور پوری انسانیت کو کرہِ ارض سے نیست و نابود کر سکتے ہیں۔
میں انسان دوست ہونے کے ناطے یہ امید رکھتا ہوں کہ انسان جنگ کی بجائے امن کے راستے کا انتخاب کریں گے ’محبت‘ پیار اور دانائی کا راستہ اپنائیں گے اور کرہِ ارض پر ایک پرامن معاشرہ قائم کریں گے۔ کرہ ِ ارض پر انفرادی اور اجتماعی طور پر پرامن زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ملک میں عوام کا سماجی شعور اس سطح پر لایا جائے جہاں وہ جنگ پر امن کو ترجیح دیں۔
ہر قوم میں ایسے سیاسی ’مذہبی اور سماجی رہنما پیدا ہوں جو عوام کی امن کی طرف رہنمائی کریں ۔ بین الاقوامی سطح پر ہمیں ایک ایسی اقوامِ متحدہ چاہیے جو ایک امن کی فوج اور PEACE FORCE رکھتی ہے جو ساری دنیا کے ممالک کے فوجیوں سے مل کر بنی ہو اور کرہِ ارض پر امن قائم کرنے میں ایک فعال کردار ادا کر سکے۔
ایک انسان دوست ہونے کے ناطے میں اس دن کا خواب دیکھتا ہوں جہاں ساری دنیا میں ہر مرد ’عورت اور بچے کی جان اور مال محفوظ ہوگی اور اسے جنگ کا بالکل خطرہ نہ ہوگا۔ میں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں کہ یہ ایک خواب ہے لیکن ہم سب پہلے خواب دیکھتے ہیں اور پھر مل کر اس خواب کو شرمندہِ تعبیر کرتے ہیں۔
پچھلے چند سالوں سے میں امن کا نوبل انعام پانے والے دانشوروں کی تقاریر کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ ان دانشوروں نے اپنی تقاریر میں جنگ کی وجوہات پر روشنی بھی ڈالی ہے اور امن قائم کرنے کے مشورے بھی دیے ہیں۔ ان دانشوروں کا کہنا ہے کہ دنیا میں امن ایک قوسِ قزح کی طرح ہے جس کے کئی رنگ ہیں۔ معاشی امن ’سماجی امن اور سیاسی امن اس قوسِ قزح کے صرف تین رنگ ہیں۔
بنگلہ دیش کے محمد یونس معاشی امن کے نمائندے ہیں۔ ان کا کہنا کہ غربت امن کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اگر ہمیں اس دنیا میں امن قائم کرنا ہے تو ہمیں امیر اور غریب کے فرق کو کم کرنا ہوگا
امریکہ کے مارٹن لوتھر کنگ سماجی امن کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نسلی تعصب امن کے لیے خطرہ ہے۔ ہمیں ایسا معاشرہ قائم کرنا ہوگا جہاں رنگ ’نسل’ جنس’ زبان اور مذہب سے بالاتر ہو کر انسان ایک دوسرے کو گلے لگائیں اور انسانی حقوق کا احترام کریں۔
جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا سیاسی امن کے آئینہ دار ہیں۔ انہوں نے ایک ربع صدی جیل میں گزارنے کے باوجود اپنے دشمن سے ہاتھ ملایا اور کالوں اور گوروں نے مل کر جنوبی افریقہ میں الیکشن اور جمہوریت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایک پر امن معاشرہ قائم کیا۔
ہر قوم ’ہر ملک اور ہر عہد میں ایسے رہنما پائے جاتے ہیں جو عوام کو امن کے خواب دکھاتے ہیں اور پھر ان خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے دانشور سماجی ارتقا میں انسانیت کے کارواں کی رہنمائی کرتے ہیں تا کہ ساری دنیا میں پرامن اور انصاف پسند معاشرے قائم ہو سکیں۔
میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں؟
میں کون ہوں؟
کہاں سے آیا ہوں؟
کہاں جا رہا ہوں؟
میں کس دنیا میں رہتا ہوں؟
میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں
میرا ایک شعر ہے
؎ اپنی ذات سے غافل ہوں
آنکھیں ہیں اور اندھا ہوں
جوں جوں میرے شعور کی آنکھ کھل رہی ہے
مجھے احساس ہو رہا ہے
میں ایک دنیا میں نہیں
میں بیک وقت بہت سی دنیاؤ ں میں رہتا ہوں
ایک خارجی دنیا ہے اور ایک داخلی دنیا
ایک حقائق کی دنیا ہے اورایک تصورات کی دنیا
ایک فردا کی دنیا ہے اور ایک ماضی کی دنیا
اب میں ایک انسان ہوں
انسان سے پہلے حیوان تھا
حیوان سے پہلے پودا
اور پودے سے پہلے پتھر
اس دنیا میں ان گنت کہکشائیں تھیں
پھر ہماری کہکشاں وجود میں آئی
ہمارے ستارے اور سیارے ’ چاند اور سورج بنے
پھر ہماری زمین وجود میں آئی
پہاڑ اور وادیاں بنے
دریا اور سمندر بنے
ان ہی سمندروں کی کوکھ میں زندگی پیدا ہوئی
پتھروں سے پودے
پودوں سے حیوان
حیوانوں سے انسان بنے
پہلے انسانوں کے ارد گرد آوازیں ہی آوازیں تھیں
رونے کی کراہنے کی ہنسنے کی آوازیں
پھر آوازوں نے لفظوں کا روپ دھارا
لفظوں نے مصرعوں اور جملوں کو
اور
مصرعوں اور جملوں نے
نظموں’ افسانوں اور مقالوں کو جنم دیا
پھر
ان نظموں’ افسانوں اور مقالوں میں
انسانوں نے
اپنے جذبات’ خیالات اور نظریات کا اظہار کیا
انسان شاعر اور ادیب بنے
وہ دانائی کی
اپنے سچ کی تلاش میں نکلے
انہوں نے
جہالت کی رات میں علم کی صبح کے
اور
جنگ کے میدانوں میں امن کے خواب دیکھے
میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں
کیا انسان امن کے خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کرپائیں گے
کیا وہ کرہِ ارض پر پرامن معاشرے بنا سکیں گے
یا ایٹمی ہتھیاروں سے
انسانوں’ جانوروں’پرندوں اور پودوں کو نیست و نابود کر دیں گے
اجتماعی خود کشی کر لیں گے
میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں
۔۔۔۔خالد سہیل
گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے
https://www.mukaalma.com/author/khalidsohail/
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں