داستانِ زیست۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط20

گزشتہ سے پیوستہ:

ہاں ہماری ایک بات آن ریکارڈ مانی گئی کہ سانڈ بارہ کی بجائے چھ اور بھینسیں چوبیس کر دی گئیں ۔ہماری باقی لکھی تفصیلات کو بھی سراہا گیا۔ تو جناب پیلس سے توصیفی خط بزبان عربی اور گفٹ پیک ہمارے نام اگلی ڈپلومیٹک میل میں موصول ہوا۔ سفیر صاحب نے خالص سفارتی آداب کے مطابق  انگلش میں لکھ کر شکریہ ادا کیا۔
یہ اضافہ ضروری ہے کہ جب ہم ایمبیسی چھوڑ چکے تھے تو بھینسوں کی دوسری کھیپ یہاں سے بھیجی گئی تو اس وقت کے سفیر صاحب جو ہمارے ساتھ فرسٹ سیکرٹری تھے انہوں نے ہمیں تلاش کر کے بلوایا۔ تب ہمارے پاس چک شہزاد اپنا فارم تھا جہاں بھینسوں نے چند روز قیام کیا۔ سفیر صاحب نے بھی وزٹ کیا۔ ہمارے پاس گائیں تھیں۔ بہت خوش ہوئے اور جب تک اسلام آباد رہے روزانہ ایمبیسی کی گاڑی بھیج کے دودھ منگواتے تھے۔

نئی قسط:

اسلام آباد میں جاگنگ اور واک کرنے کو خوبصورت ٹریک اور ٹریل تھیں لیکن سوشل لائف مفقود ہو گئی۔ پنڈی ہوتے تھے تو شام کو رشتہ داروں دوستوں اور عزیزوں سے روز ملاقات ہوتی، ہم لالہ زار چلے جاتے یا چاندنی چوک میں ہمارے گھر مہمان آ جاتے۔ چکوال جانے کا پروگرام بنتا تو کوئی  خالہ ، ممانی یا بھابھی بال بچوں سمیت ہمراہ ہوتی۔
ساتھ احسان بھی دھرتی کے تم اکیلے خالی کار میں کیسے جاؤ گے اور واپس آؤ گے، یہاں اسلام آباد میں پنڈی سے زیادہ عزیز تھے لیکن سب سرکاری افسر۔ یہاں ملنے ملانے کا فیشن نہیں تھا۔ یہاں تو گلی میں پڑوسی بھی سڑک پہ  کبھی کبھار ہیلو ہائے کرتے۔ کہاں پنڈی یہ حال کہ لالہ زار سے بریگیڈئیر صاحب کی مسز جو ہماری کزن تھیں ہانڈی پکا کے ساتھ لاتی، سیٹلائٹ سے دو خالائیں حلوہ بنا لاتیں۔ کمیٹی چوک سے ممانی پلاؤ لے آتی، چار پانچ فیمیلیز جمع ہوتیں ۔ وی سی آر پہ  فلم دیکھتے۔ کھانا کھاتے اور رات گئے گھروں کو واپسی ہوتی۔


ہمارا ایک فارن مشن میں ہونا شاید  سرکاری افسران کے لیے مسئلہ تھا۔ وہ شاید ہمیں کسی بلیک واٹر کا ایجنٹ سمجھتے تھے۔ یہ اندازہ ہم نے چند حادثاتی ملاقاتوں میں، جیسے کسی مشترکہ عزیز کو کسی رشتہ دار کے گھر ڈراپ کرنے پہ  لگایا۔۔۔بہت فارمل اور محتاط گفتگو کرتے۔
اب ہمارے پاس شام گزارنے کے لیے  سُپر مارکیٹ میں ایک کباڑی دوست کی دکان تھی جہاں بانڈڈ سٹور ۔ پیکرز،اور پراپرٹی ڈیلر آتے اور دکان کے سامنے لان میں بیٹھ کے گپ شپ کرتے۔
ایمبیسی میں لوکل ملازمین یا محلین کو عام طور پر بروکر یا دلال سمجھا جاتا جو ویزہ لگوا کے دینے، شراب بیچنے اور دیگر سروسز مہیا کرنے والے ٹائپ ہوتے۔
ہمیں اس کا تلخ تجربہ یوں ہوا کہ ایک دن ہم نے چانسری کے باہر پنڈی کانٹی نینٹل ہوٹل کے رینٹ اے کار کی لیموزین  کھڑی دیکھی۔ ریسپشن پہ  پہنچے تو ویزہ سیکشن کے لوکل انچارج چوہدری صاحب کے ساتھ ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص، دو پنڈی وال بندے اور ایک بہت بنی ٹھنی نوجوان لڑکی بیٹھے تھے۔ سلام دعا ہوئی  ، تعارف ہوا ،  کہ وہ صاحب لاہور سے آئے ہیں ڈاکٹر تھے آج کل مڈل ایسٹ میں بندے بھجواتے ہیں ، ہمارے ہاں کے چار سو ویزے منگوا رہے ہیں اور وزٹ ویزہ لینے آئے ہیں ۔ وہ چوہدری کے کسی دوست کے دوست تھے، ہمارا ان امور سے کوئی  تعلق نہ تھا،ڈاکٹر بہت شاطر بندہ لگتا تھا۔ اجازت لے کے ہم اوپر اپنے آفس چلے گئے،کافی دیر کے بعد چوہدری نے دوبارہ بُلایا ۔ ڈاکٹر نے بڑی لجاجت سے ڈنر کی دعوت دی ۔ ہمارے بولنے سے پہلے چوہدری نے حامی بھر لی اور کہا، یہ تو میرے چھوٹے بھائی  ہیں میرے ساتھ آئیں گے،انکار کی گنجائش ہی نہ رہی۔۔۔

ڈاکٹر نے بھی تڑکا لگایا۔۔ کہنے لگا ،چوہدری صاحب نے بتایا ہے ، آپ نے ہیلی کالج سے ایم کام کیا ہے ! لاہور تو آپ ہاسٹل میں رہتے ہوں گے ! آپ کس سن میں وہاں تھے ۔
ہم نے سال بتائے کہ سڑسٹھ سے اکہتر تک ۔ ڈاکٹر پر جوش ہو کے بولا ، آپ نے مجھے نہیں  پہچانا ؟ ڈاکٹر ارشاد !
آپکے ہاسٹل کے قریب پرانی انارکلی میں میرا کلینک تھا !
ہمیں یاد آ گیا، کئی بار گلے کے  انفکشن کی دوائی  لینے گئے تھے، اس کی شکل مانوس لگنے لگی۔ اس نے اٹھ کے ہاتھ پکڑا۔۔“ اپنائیت کے اس انجکشن نے ہمارے خود احتیاطی کے سارے حصار توڑ ڈالے”
چانسری کے گیٹ تک اس نے میرا ہاتھ تھامے رکھا۔ چوہدری اور دوسرے ہمارے پیچھے چل کے آئے۔
روڈ سائیڈ پہ  کھڑی لیمو کی طرف اشارہ کر کے ڈاکٹر نے بڑے پیار سے کہا، ڈرائیور کو اپنے گھر کا ایڈریس سمجھا دیں۔شام کو میرا بھائی  اس پہ  ہوٹل آئے گا،راستے میں کمیٹی چوک سے چوہدری جی کو بھی ساتھ لیتے آئیے گا ۔۔۔
اس پہ  ہم نے معذرت کی کہ ہم اپنی کار پہ  آئیں گے، پنڈی چند اعزہ سے ملاقات بھی کرنی ہے۔
دعا سلام کے بعد رخصت ہوتے ڈاکٹر نے بزرگانہ لہجے میں ہدایت فرمائی ، سوٹ شُوٹ پہن کے ذرا ٹش سے آنا ہے۔۔
وہاں کچھ اہم لوگوں سے آپکی ملاقات کرائیں گے ۔۔۔
چوہدری کی ویزا ونڈو کے سامنے لائن لگ گئی تھی وہ اس میں مصروف ہو گیا۔
ہمارے بنکر دوست پاکستانی بنک کی نوکری چھوڑ کے نئے مڈل ایسٹ بنک میں جا چکے تھے ۔ اور ایمبیسی کے اکاؤنٹ بھی وہاں شفٹ کرانا چاہتے تھے۔ جس کی منظوری ہمارے فارن آفس سے آنی تھی۔ ان سے دو بار طے شدہ ملاقات کینسل ہوئی  ۔ تنخواہ دار بندے کے لیے  تو اس کا بنک خالہ کا گھر ہوتا ہے، بوقت ضرورت اسی سے ادھار ملتا ہے۔
جی ایم اور آپریشن مینجر پر تو پچھلے بنک میں چونتیس ہزار ڈالر کی ڈپلیکیٹ پیمنٹ کی واپسی کا احسان بھی تھا ،اب  دوستی تھی۔ ان کو فون کیا اور اپنائیت جتلانے کو لنچ کھلانے کی فرمائش کی، جس کے جواب میں جی ایم نے دگنی اپنائیت جتلاتے دھمکی دی، آج نہ آئے تو بچو رات ڈنر تم کراؤ گے ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ملائم عورت سے ہم بستری، ساؤ گھوڑی کی سواری اور مرسیڈیز کار کی ڈرائیو کی لذت ِ بے مثال اپنی جگہ لیکن بڑی خرابی اپنی جگہ یہ بھی ہوتی ہے کہ بندہ پھر ان سے کمتر سے مطمئن کبھی نہیں ہوتا لیکن ہماری مزدا کار پہ  پنجابی کی مثل ۔۔
” ہڈسی تے رنگ کڈسی “۔۔ صادق آ گئی۔ سروس، پالش، ٹیوننگ، مینٹیننس فری تھیں ! جی ، جب ہم آفیشل گاڑیوں کے منہ مانگے بل بغیر کوئی  کمیشن لیے ادا کرتے تھے تو اتنی فیور تو جائز تھی۔ تو ہماری کار ہر وقت ٹچ این ٹائیٹ رہتی۔
کار کا انجن تیرہ سو سی سی باڈی کے مقابلے میں بہت سٹرانگ تھا، ہم اسلام آباد سے براستہ مندرہ سوا گھنٹے میں چکوال پہنچ جاتے ۔ خیر اس زمانے میں سڑکوں پہ  ٹریفک کم تھی گاڑیوں کا یہ اژدھام بھی نہیں ہوتا تھا۔
ایمبیسی سے مختصر  رخصت لی۔ ورکشاپ سے مکینک ساتھ لیا، بنک پہنچے اور کار لش پش کرنے کو اسکے حوالے کی۔۔بنک میں جی ایم منتظر تھے اور ان کے آفس میں ایک اور رعب دار ہستی بھی موجود تھی۔
یہ تھے بریگیڈیر صادق نواز اعوان۔ ان کا ذکر جی ایم نے فون پہ  بھی کیا تھا۔ کیا پرسنیلٹی تھی ان کی ۔۔۔۔
تعارف ہوا تو تھوڑی دیر میں ان سے ڈاکخانہ کیا جغرافیہ مل گیا ۔ ہمارے آدھ درجن فوجی انکل ان کے قریبی کولیگ نکل آئے۔ بریگیڈیئر صاحب جنرل ضیا کے دوست تھے۔ خلیجی ریاست میں فوجی مشیر تھے اور ساتھ امریکہ کی ایک بہت بڑی مارکیٹنگ آرگنائزیشن کے مشرق وسطی و بعید کے وائس پریذیڈنٹ بھی تھے۔ ان کو ایل پی جی کا کوٹہ عطا ہوا تھا۔
پاکستان شفٹ ہو چکے تھے ساتھ امریکی کمپنی کا آفس بھی لے آئے، ڈپلو میٹک انکلیو میں کمرشل بلڈنگ کا گراؤنڈ فلور  کرائے  پر لے  کر آفس بنا چکے تھے، مڈل ایسٹ بنک کے مالکان سے تعلق کے توسط سے جی ایم سے ملاقات تھی۔
ان کو دفتر او دیگر امور کے لئے فنانشل ایڈوائزر درکار تھا، گیس کمپنی بنانے بارے جی ایم نے میرا ذکر کیا کہ مجھے اس کا تجربہ تھا۔ ہم نے بنک کے میٹنگ روم میں مل کے کھانا کھایا۔ ان کو جب یہ بتایا کہ فوجی رفاعی ادارے میں آٹھ سال ملازمت کی ، تو وہ مُصر ہوئے کہ ایمبیسی چھوڑو۔ اپنے پروفیشنل کیریئر میں واپس آؤ اور مجھے جوائن کر لو۔۔
ہم نے اپنا آزمودہ نسخہ استعمال کرتے دو دن کی مہلت مانگ لی، کہ چکوال جاؤں گا۔ والد صاحب سے جاب کی اجازت لینی لازمی ہے۔ وہ تو امپریس ہو گئے! فرمایا اتنا پڑھ لکھ کے، اچھے عہدوں پر ہوتے کوئی  اپنے باپ کا آج کل بھی اتنا مطیع فرمان ہوتا ہے ! حیرت کی بات ہے۔ وہ چلے گئے تو جی ایم جناب شیخ صاحب نے ایک طویل لیکچر جھاڑا۔ ایمبیسی میں ملازمت کو خرافات ثابت کر دیا۔ اب یہ تو خوش قسمتی ہے کہ شیخ صاحب مجھے چھوٹے بھائی  کی طرح کیریئر کی اونچ نیچ بتا رہے تھے۔ خیر ہم کب صبر سے لیکچر سننے والے تھے، مسئلہ کار کے ورکشاپ سے ملنے تک انتظار کا بھی تھا! وہاں فون کیا تو جواب ملا کے بس پالش کی رگڑائی  ہو رہی ہے ، آبپارہ پہ  بنک کی برانچ اور ورکشاپ کا فاصلہ بھی زیادہ نہ تھا، پیدل ہی پہنچ گئے۔
کار چیک کی۔ مکینک نے مژدہ سنایا کہ اس کے بُوٹ سے دیسی گھی سے بھرا ہوا چوڑی دار ڈبہ برآمد ہوا جو سامنے پڑا تھا۔۔
اس کی تفصیل یہ تھی ۔۔ ہم نے ایمبیسی گارڈز کو حکم دے رکھا تھا ۔ چکوال کا کوئی  بندہ ہو کسی وقت بھی آئے اسے واپس نہیں  کرنا، ویزہ کے لیے  پاسپورٹ جمع کرنے کا وقت چاہے ختم ہو چکا ہو ۔
دو دن پہلے، چکوال کے نواحی گاؤں سے ایک صاحب لیٹ آئے۔ گارڈ نے اطلاع دی، وہ ہماری امی کے ابو کی بہن کے بیٹے کی بیٹی جس کے میاں سی ڈی اے میں ڈی ایف اے تھے ۔ انکا رشتہ دار تھا۔ ہم نے اس کا ویزہ سٹیمپ کرانے کو دے دیا۔ چھٹی کر کے نکلے تو وہ حضرت یہ ڈبہ لیے  چانسری کے سامنے بیٹھے تھے۔ شکریہ ادا کرنے لگے۔ چکوال کا بندہ ہو ، جان پہچان نکل آئے تو جان چھڑانی آسان نہیں  ہوتی۔ وہ آپ پر لد جائے گا۔ ۔۔کہنے لگا ۔
یہ دیسی گھی ڈی ایف اے صاحب کو دینا ہے۔ وہ آپکے گھر کے قریب رہتے ہیں ، ڈبہ کار میں رکھ کے چلتا بنا۔
ہم نے ڈگی میں رکھا اور بھول گئے۔ مذکورہ صاحب اسی سیکٹر میں تھے لیکن تاحال ملاقات نہیں  ہوئی  تھی ۔
ہم اپنے ڈیرے پر پہنچے ، پنڈی جانے کو تیار شیار ہو کے، پرفیوم لگا کے نکلے۔ صاحب کے گھر گھی چھوڑا، تو وہاں دور کی رشتہ دار ممانی بمعہ دختر پنڈی جانے کا سن کے لفٹ نشین ہو گئیں، سکستھ روڈ پاس ان کے گھر رکے، ممانی چائے پی کے جانے کا حکم صادر کرتے اندر چلی گئی، انکی بیٹی اور میں ڈیوڑھی میں پارک کار کے ساتھ سے گھسم گھسا کے صحن میں گئے۔ اس بیس فٹ کے سفر میں بیس سال کی رفاقت طے ہو گئی۔ خوشبو سے شباب کی لؤ دہکی، اتصال نے وصال کی امنگ جگائی ۔ ممانی سے دس بستہ معذرت کی ،کزن کے سر پہ  شفقت سے ہاتھ پھیرا ۔
اور ہم مسرور موڈ میں پنڈی صدر انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل پہنچے جہاں ہمارے کولیگ چوہدری اور ڈاکٹر کی شاید پی اے ریسپشن پر ہمارے منتظر تھے۔
ہم نے نکٹائی  ٹھیک کی۔ گردن اکڑائی ، بالوں کو ہاتھ پھیر کے سیٹ کیا۔ کوٹ کی سلوٹ ہٹائی ، تن کے چلتے ، گارڈ کے سلوٹ کا سر ہلا کے جواب دیتے ، پراپر اسلام آباد کے افسرانہ سٹائل میں ان دونوں کے ہمراہ لفٹ میں سوار ہوئے   ۔ خاتون از خود ہمارے بائیں، چوہدری اور لفٹ بوائے سامنے تھے ۔۔۔
جاری۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply