گھٹیا افسانہ نمبر 27۔۔۔۔۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

عبداللہ مزاری کی عمر ساٹھ کے پیٹے میں ہو گی، یہ دھیما دھیما بولنے والا بلوچ میرے پاس دوسری مرتبہ آیا ہے۔ رات کو زور زور سے چیختا ہے، بلبلاتا ہے، دھاڑیں مارتا ہے، ایک بار چارپائی سے اٹھ کر باہر کی طرف بھاگا مگر دروازے میں جا لگا اور زخمی ہو گیا۔ میرے پاس اگلے دن لے آئے کہ کسی نے بتایا یہ نفسیاتی مریض بن چکا ہے۔ آج گھنٹے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ میں ایک کافی اور عبداللہ خان چائے کا ایک کپ اور رَس کیک کھا چکا ہے۔ یہ بتا رہا ہے کہ عرفان اس کا بڑا بیٹا تھا۔ وہ بیس سال کا تھا جب جیش محمد والوں کے ساتھ خوست افغانستان جہاد کی ٹریننگ پہ چلا گیا تھا۔ ٹریننگ کیمپ پر رشید دوستم نے حملہ کر دیا، مجاہدین کو کہا کہ ہتھیار ڈال دو میں تمہیں پاکستان بھیج دوں گا۔ بیٹے نے بتایا کہ دوستم کی جیل میں پندرہ دن مٹی کے ساتھ روزہ رکھا اور کھولا۔ پانی کا ایک گلاس چوبیس گھنٹوں میں ملتا تھا۔ بعد میں جب انسانی حقوق والے وہاں پہنچے تو کچھ سہولت ملی۔ مجھے اس وقت پتہ چلا جب عرفان افغانستان کی شبرگان جیل میں تھا۔ چار سال شبرگان جیل میں رہنے کے بعد جب وہ پل چرخی جیل پہنچا تو وہ شدید بیمار ہو چکا تھا۔ جب پشاور اور پھر ہری پور جیل میں پہنچے تو ہم یہاں سے دو دن سفر کرکے وہاں پہنچے تو اُس کے گردوں نے کام چھوڑ دیا تھا۔ ہم اس کو ایبٹ آباد ہسپتال لے آئے، انہوں نے کہا آخری سٹیج ہے عرفان مر جائے گا۔ ہم اسے ملٹری ہسپتال پنڈی لے آئے۔ وہ ٹھیک ہو گیا تو پولیس والے واپس ہری پور جیل لے گئے۔ تین دن بعد  اطلاع ملی کہ عرفان جیل میں مر گیا ہے۔ اب تک عبداللہ مزاری آرام سے سکون سے بات سنا رہا ہے۔ جیسے ہی عرفان کی میت کی گھر آمد، جیش محمد والوں کے دئیے بیس ہزار، بہنوں کا میت پہ رونا، عبداللہ مزاری کرسی پہ کھڑا ہو گیا ہے۔ یاخدا تجھے میرا بیٹا ہی کیوں پسند آیا راہ جہاد میں، یاخدا اتنے امیر امیر لوگ ہیں اُن کو جہاد پہ بُلا لیتے، میرے تو بیٹے ہی دو تھے، ایک معذور ہو گیا اور دوسرے کو جہاد پسند آ گیا۔ میں عبداللہ کو رونے دے رہا ہوں، دھاڑیں مار رہا ہے۔

یہ بندہ جب جب بولتا ہے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ لوگ بھی اس کو پروگرام کی مشہوری کے لیے بلاتے ہوں گے ایسی قابل اعتراض باتیں دوسرا کوئی نہیں کر سکتا۔ اگر میں اُس کی لمبی تقریر کا لب لباب بیان کروں تو وہ یوں بنے گا کہ۔۔۔۔

“۔۔۔ دیکھو اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پورن کی وجہ سے ہماری سیکس لائف بہت پیاری اور خوبصورت ہو گئی ہے۔ ہم نے اپنے نجی لمحات کو خوبصورت، مزید بہتر اور مزید نکھار لیا ہے۔ پورن کا یہ سب سے بڑا احسان ہے ہم جس کا قرض ادا نہیں کرسکتے۔ خیر میں نے تو پورن سے بہت سیکھا ہے اور بہت زیادہ انجوائے کیا ہے، آگے آپ کی مرضی ہے۔ وہ کون ہے جس نے پورن سے لطف نہیں لیا یا اثر نہیں لیا یا پورن سے اپنی بہت ساری جھجھک ختم نہیں کی؟۔۔۔۔۔ ایسے بہت سے لطیف کام جو ہم پہلے کرتے ہوئے ڈرتے تھے لیکن پورن نے وہ ہمارے لیے با سہولت کر دیا اور ہم نے اس کو اپنا لیا یا اپنانے کی کوشش کی یا کچھ نہ کچھ سیکھ لیا اور اپنے آپ کو مزید مہمیز کر لیا”۔

میرا تو دل کرتا ہے اس کے منہ پہ الٹی کر دوں۔ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں  ہر چیز، ہر بات، ہر معاملہ حتیٰ کہ انسان کے انتہائی نجی شہوت والے معاملات کو بھی سر عام بیچا گیا ہے، ایک کموڈٹی بنا دیا گیا ہے۔ ہمارے سماج میں وہ تمام امور  سرانجام دیئے جارہے تھے جو پورن نے  اب دکھانا شروع کیے ہیں۔ یہ ہماری سوسائٹی کے ٹیبوز ہیں ، ان کے اوپر بحث ممنوع ہے۔ لہذا یہ ہمارے لیے  بحث و گفتگو میں اجنبی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ہمارے اعمال میں ہمارے انتہائی نجی معاملات میں موجود ہوتے ہیں۔ پورن نے کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔ جسمِ انسانی کے اہم امور کو بیچ کر اس کے اندر ایک ناجائز مقابلہ بازی کا عنصر داخل کرکے انتہائی مہنگا کر دیا گیا ہے۔ پورن نے انسان کی کوئی خدمت نہیں کی اور نہ انسان کے اوپر کوئی احسان کیا ہے، بلکہ پورن نے انسان کو بےعزت کیا ہے۔ میں نے پورن انڈسٹری میں کام کرنے والی کئی خواتین کے انٹرویوز جان بوجھ کے پڑھے لیکن مجھے یہ جان کے کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ وہ سب کی سب بہت مجبور تھیں ۔ بہت تکلیف میں تھیں ۔ ان کی زندگیاں بہت زیادہ دردناک اور تنہا تھیں۔ بظاہر گلیمرس نظر آنے والی دنیا اندر سے بیمار تھی ۔ نکھارنے، خوبصورت اور معیاری بنانے کے نام کے اوپر عورت کی تذلیل کی گئی۔ انسان کے انتہائی خوبصورت لطیف جذبے کو بےعزت کیا گیا، بیچا گیا۔ مجھے پانچواں سال ہے ترقی پسند مصنفین کے مقالے اُن کی  زبانی سنتے ہوئے، لبرل دانشور بھی اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں، لیکن یہ بندہ ضد پہ اڑا ہوا ہے۔ کسی نے اِس کی تقریر میں کوئی فقرہ کسا تو کہنے لگا “بابو پورن والی عورتیں مزے بھی کرتی ہیں اور کماتی ہیں، ہماری عورتوں کی طرح نہیں ہیں کہ یہ کام بھی باقی کاموں کی طرح مفت میں کر رہی ہیں”۔

ہمیں یہاں آئے ہوئے تین ہفتوں سے اوپر ہو گئے ہیں ۔ آج یہاں تقریری مقابلہ تھا۔ عنوان تھا ‘سعادت کی زندگی شہادت کی موت’ اور میں نے اِس مقابلے میں حصہ لیا تھا۔ میں نے سیدنا سلمہ بن اکوع کے جہادی تذکرے بیان کیے۔ عبداللہ بن عامر شامی اور عبداللہ بن عباس کی جرات اور عظمت کو بیان کیا۔ میرے جذباتی لہجے نے سماں بندھ دیا۔ دونوں فوجیں آمنے سامنے مقابل ہوتی ہیں۔ حق و باطل، کفر و اسلام، نور و ظلمت، نیکی و بدی اور خیر و شر۔ ”بے شک تمہارے لیے  نشانی تھی دو گروہوں کی جو آپس میں لڑ پڑے‘ ایک جتھہ اللہ کی راہ میں لڑتا اور دوسرا کفر کی، مسلمانوں نے آنکھوں  میں دیکھا تو اپنے آپ کو دوگنا سمجھا”۔ مجھے اللہ نے بھاری آواز کی نعمت سے نوازا ہے۔ میں جب غزوہ بدر کی مثال پیش کر رہا تھا تو میں کئی مجاہد ساتھیوں کو روتے ہوئے دیکھا تھا۔ مومن صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔ جب بدر میں دشمن بہت بڑا لشکر لے کر حملہ آور ہوا تو بےسروسامان نبی کریم پر خوف کی بجائے اللہ کی سخت خضوع کی کیفیت طاری ہوئی۔ نبی کریم نے بدر کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اَقدس میں عرض کیا ۔۔اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا فرما‘ اے اللہ اگر تیری مرضی یہی ہے تو پھر زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔ استاد محترم قاری جنید کشمیری نے مجھے اینٹی ائیر کرافٹ مشین گن کے تین راؤنڈ بطور تقریری مقابلہ کا پہلا انعام دئیے ہیں۔ میرا اختتامی فقرہ ابھی میرے دماغ میں مسلسل گھوم رہا ہے۔ یا اللہ مجھے سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت عطا فرما۔ اب میں ڈیوٹی کے عین مطابق کیمپ کی شمالی چوکی پہ کھڑا ہوں، اقبال برقی بھائی کی بھی میرے ساتھ ڈیوٹی ہے۔ اقبال برقی سندھ کے کسی دیہاتی علاقے کا ہے۔  تین بچے بچیاں بھی ہیں۔ پچھلے نو سال سے جہاد کے میدان میں ہے۔ جنرل دوستم کے ساتھ ایک معرکہ لڑ چکا ہے۔  دو مرتبہ کشمیر بارڈر جمپ کر چکا ہے۔ وہاں وادی میں بھی ایک معرکہ میں غازی ہے۔ بچے وہیں سندھ ہیں۔ تین تین ماہ بھی وہاں گزار آتا ہے۔ میں نے برقی بھائی سے پوچھا کہ ادھر جہاد کی لائن میں کیسے آئے۔ آپ سننے میں آیا ہے یونیورسٹی میں پڑھتے بھی رہے پھر آپ جہاد کی طرف کیوں آئے۔ اقبال بھائی نے بتایا کہ جہاد کبھی رک ہی نہیں سکتا۔ خیر اور شر کے درمیان خیر کی کوشش کو جہاد کہتے ہیں۔ میں اللہ کے حضور خودکو سرخرو کرنے کے لیے جہادی ہوں۔ میں نے پوچھا ہے کہ جہاد پاکستان میں بند رہا ہے۔ جہاد تو 78 – 79 میں شروع ہوا۔ اقبال بھائی بتا رہے ہیں کہ اکثر روس نواز تاریخ دان امریکہ کو 1979-1988ء کے افغان جہاد کے دوران مجاہدین اور طالبان کا خالق قرار دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی مجاہدین کی عظیم جہادی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یہ اُسی وقت سے شروع ہوتی ہے جب ہندوستان تقسیم ہو کر پاکستان بن گیا اور جب کہ اس وقت پاکستان امریکہ کے ساتھ کسی قسم کے بین الاقوامی اتحاد جیسے سیٹو یا سینٹومیں شریک تک نہ تھا۔ تب کشمیر کی جزوی آزادی کا سہرا بھی تو انہی مجاہدین کے سر ہے

یہی وجہ ہے کہ ریاست پاکستان کے سنجیدہ اور مخلص ترین لوگ ہمیں عزت دیتے ہیں۔ میں نے اقبال بھائی سے کوئی واقعہ سنانے کی درخواست کی ہے کیونکہ وہ ایک لمبے عرصے تک مختلف محاذوں پہ لڑتے رہے ہیں۔ وہ بتانے لگے ہیں کہ جب وہ چندی گڑھ پہنچے تو وہ بھوک و پیاس سے بے حال تھے۔ دہشت نے دماغ سُن کررکھا تھا۔ میں پچھلے دو دن موت و حیات کی کشمکش سے گزرا تھا۔ مجھے کچھ خبر نہ تھی کہ موت کب اس کو آدبوچے گی۔ یہ تو شکر ہے کسی طرح علی ڈار کے گھر تک پہنچ گیا جنہوں نے مجھے ہفتہ دس دن پناہ دی۔ اور میں لوٹ آیا۔ مجھے معلوم تھا برقی بھائی ہمیشہ کی طرح جہادی قصہ انتہائی مختصر بتائیں گے۔ برقی بھائی سے اگر کبھی کوئی جہادی وقعہ پوچھو تو انتہائی مختصر ترین واقعہ بیان کرکے چپ ہو جاتے ہیں۔ میں نے اس بات کو پہلے بھی سوچا ہے مگر وہ کیوں ایسا کرتے ہیں کی سمجھ نہیں آتی ہے۔ میں نے ایک بار نصیر بھائی سے پوچھا تو کہنے لگے یا تو کسی معرکے میں برقی بہت ڈر گیا ہو گا یا پھر یہ کسی جہاد پہ گیا ہی نہیں، سنے سنائے واقعات مختصر مختصر کرکے سنا دیتا ہے۔

اگر عفان رازی مجھے مقررین کی نشست پہ بیٹھنے والوں کی لائن میں مجھے بیٹھا نہ دیکھتا تو شاید یہ گفتگو نہ کرتا۔ پاکستان تحریک انصاف کا لاڈلہ پھر عمران خان کی تعریفیں کرتا یا پھر نواز زرداری اور فضل الرحمن کے خلاف بول و براز اگلتا۔ لیکن چونکہ میری موجودگی اس کو چبھ رہی ہے۔ اس لیے اُس نے اپنی تقریر یکسر بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے، سیاسی و معاشی نظام کو زیربحث لانے کی بھونڈی حرکت کر بیٹھا ہے۔ بھائی آپ ایک پاپولسٹ جماعت کے کارکن ہو جس نے سیاسی لطیفوں اور جھوٹے پروپیگنڈہ سے اپنی کہانی بنانی ہے وہ بناؤ تمہیں کس نے کہا ہے کہ تم نظام کی بات کرتے کرتے جان بوجھ کر سوشلزم کو لتاڑنے لگ جاؤ۔ اب جناب فرما رہے ہیں کہ “سوشلسٹ کامریڈوں پہ ترس آتا ہے، یار کیا اِن لوگوں کو نظر نہیں آتا کہ روس میں سوشلزم نے کیا گَل کھلائے، ایک ترقی کی راہ پہ گامزن ملک کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ کیا یہ پاکستانی سرخے پاکستان کا وہی حال کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے روس میں تجربہ کیا تھا، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ملک اور عوام کی حفاظت کی قسم کھائی ہے “۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں سوچ رہا ہوں کہ اس بندے کے جھوٹ کا جواب دوں یا اپنی دئیے گئے موضوع تک ہی محدود رہوں۔ عفان رازی کی تقریر کے دوران اور بعد میں ہال میں موجود ایک گروہ کی تالیاں مسلسل بج رہی ہیں۔ آسان سی بات ہے کہ یہ لوگ پی ٹی آئی کے اندھے سپورٹر ہی ہیں جن کی اکثریت عفان رازی کے ساتھ ہی ہال میں داخل ہوئی تھی۔ پروفیسر ڈاکٹر جیلانی نے اپنی تقریر شروع کر دی ہے۔ وہ “تنظیمی ڈھانچے کی اہمیت اور اس کی تشکیل” کے موضوع پہ گفتگو کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جلدی جلدی اپنا موضوع بحث سمیٹ رہے ہیں شاید انہوں نے کہیں جانا ہے۔ ابھی اُن کو دئیے گئے وقت کا آدھا حصہ گزرا ہے کہ انہوں نے اپنا مقالہ پڑھ کر ایک طرف رکھ دیا ہے۔ گلا صاف کرنے کے بعد بولنا شروع کیا ہے کہ “سب سے پہلے انتظامیہ سے شکایت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کیسے کیسے لوگوں کو مائیک پکڑا دیتے ہیں۔ مائیک اور گفتار ایک امانت ہے۔ جو بندہ یہاں آکر لوگوں کے سامنے جھوٹ بولتا ہے وہ امانت میں خیانت کرتا ہے۔ ابھی ایک صاحب جن کا نام مجھے بھول گیا ہے شاید کوئی رازی صاحب ہیں۔ انہوں نے جو باتیں یہاں کہی ہیں کوئی ایک بات بھی سچ کے کسی ذمرے میں نہیں آتی۔ میرا خوش قسمتی سے اس نسل سے تعلق ہے جس نے اپنا شعور پاکستان تحریک انصاف کے آنے سے پہلے حاصل کر لیا تھا۔ خاص طور پر رازی صاحب نے روس اور سوشلزم کے حوالے سے تمام باتیں جھوٹ کہی ہیں۔ موصوف کا کہنا تھا کہ روس سوشلزم سے قبل ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ جبکہ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ روس کا اکثر حصوں پہ برف تھی، جہاں ممکن تھا زراعت کی جاتی تھی، یہ ایک پسماندہ، غریب اور تنہا ملک تھا۔ لیکن بیسویں صدی کے “کمیونسٹ” ممالک میں برپا ہونے والی جدیدیت اور ترقی کی کوئی مثال نہیں ہے۔ وہاں سوشلزم کو سٹالن کی بیوروکریسی، رد انقلاب کے وحشیانہ اقدامات اور پل پل بدلتی بین الاقوامی سیاست جیسیے تین محاذوں پہ لڑنا پڑ رہا تھا۔ 1917ء کے بالشویک انقلاب کے بعد روس تو جاگیرداری سے بھی مکمل طور پہ جان نہیں چھڑوا سکا تھا کہ آنے والے برسوں میں مزید بھیانک واقعات نے روس کو پیچھے کی طرف پھینک دیا۔ دوسری جنگ عظیم میں منصوبہ بند معیشت کی بدولت ہی ہٹلر کی فوجوں کو روس کے ہاتھوں شرمناک شکست کا غم کھانا پڑا۔ جنگ کے بعد کسی بھی قسمی امداد کے بغیر مشرقی یورپ کی پوری صنعت کو چند سال کے اندر اندر دوبارہ تعمیر اور فعال کیا گیا۔ 1950ء سے آگے تو سٹالنسٹ ریاستوں نے اعلی درجے کی صنعتی ترقی کی اور سائنس و ثقافت میں اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ سوویت یونین دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے ایک مرد اور ایک عورت کو خلاء میں بھیجا۔ آج کی ترقی یافتہ ترین سرمایہ دار ریاست مکمل روزگار کی فراہمی، ہر سطح کی مفت تعلیم اور تکنیکی ترقی کی ریسرچ میں مکمل فنڈنگ کے منصوبے بیک وقت شروع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ مگر منصوبہ بند معیشت کے تحت سوویت یونین میں ایسا ہی تھا اور کاسترو کے کیوبا میں تو آج بھی یہی صورت حال دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ عہد جس میں دنیا کی بڑی بڑی کی سرمایہ دار ریاستیں “گریٹ ڈپریشن” کے تھپیڑے سہہ رہی تھیں، اُسی عہد میں سوویت یونین کی منصوبہ بند معیشت 20 فیصد سے زائد کی باقاعدہ سالانہ ترقی کی شرح پیش کر رہی تھی اور اُسی مدت میں ہیوی انڈسٹریز 400 فیصد تک توسیع حاصل کر چکی تھی۔ 1928ء سے 1970ء تک سوویت یونین میں فی کس جی ڈی پی میں اضافہ کسی بھی ترقی یافتہ مغربی ملک سے بڑھ کر تھا۔ 1917ء سے 1967ء کے پچاس سالوں میں سوویت یونین نے اپنی مجموعی داخلی پیداوار میں نوگنا اضافہ کیا۔1950ء میں سوویت یونین کا جی ڈی پی امریکہ کے جی ڈی پی کا 33 فیصد تھا جو 1979ء تک 58 فیصد ہوچکا تھا۔ تیل، فولاد، سیمنٹ، ٹریکٹر اور بہت سی مشینیں بنانے میں سوویت روس امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ منصوبہ بند معیشت کے تحت سوویت روس سے افراطِ زر اور بیروزگاری کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا تھا۔ تکنیکی ترقی کی بات کریں تو آج کا امریکہ بھی اُس عہد کے روس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔ سوویت روس نے دوسرے سیاروں کو روبورٹس کے ذریعے مسخر کر ڈالا تھا۔ ایک لاکھ کلوگرام کے سپیس سٹیشن “میر” جیسے پراجیکٹ کے بارے میں سوچنا بھی آج کے امریکہ کے بس کی بات نہیں ہے۔ “انٹرنیشنل سپیس سٹیشن” کی تعمیر، آپریشن، وہاں سائنسدان بھیجنا اور سامان رسد بھیجنے اور واپس لانے کے لئے آج بھی سوویت دور کا “سویوز سسٹم” استعمال کیا جارہا ہے۔ اُس سے زیادہ بہتر، محفوظ اور قابل اعتبار سسٹم لانچ کرنا آج بھی ممکن نہیں ہے۔ 1920ء میں روس کی اوسط عمر 48 سال اور 1960ء میں کمیونزم کے تحت امریکہ سے بھی زیادہ 69 سال تھی۔ حالانکہ رازی صاحب کے مطابق کروڑوں لوگ کمیونسٹوں کے ہاتھوں قتل ہو چکے تھے۔ میڈیکل سائنس میں اور طبی سہولیات کی فراہمی میں سوویت روس کی تعریف کرنا جھوٹے طبقے کے بس کی بات ہی نہیں۔ علاوہ ازیں ثقافتی ترقی میں بھی سوویت روس امریکہ اور دوسرے یورپ سے کہیں آگے تھا۔ اولمپکس میں بھی سوویت روس کے کھلاڑیوں نے امریکہ کو پچھاڑ دیا تھا۔ طلائی تمغوں کی تعداد امریکہ سے کہیں زائد تھی۔ ایک بدحال ملک کو عالمی طاقت بنانا سوشلزم کا روس میں کارنامہ ہے، سوشلزم نے روس کو ترقی دی نہ کہ برباد کیا”۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھا ہے۔ رازی مسکرا رہا ہے۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply