کرکٹ مسئلے کا حل:جامد چوہدری۔۔۔۔۔۔انعام رانا

پاکستانی کرکٹ کے حوالے  سے ہمیں یکڑوس اوّل کی مثال لینا ہو گی۔ یکڑوس اوّل محض سترہ سال دو مہینے چودہ دن نو گھنٹے پانچ منٹ سترہ سیکنڈ کی عمر میں اپنے باپ دبڑوس چہارم کی وفات کے بعد ریاست توتیاپہ کا سربراہ بن گیا۔ یہ ریاست اپنے وقت کی سپر پاور تھی گو اب اسکا سراغ سوائے میرے کسی کو نہیں ملتا۔ یکڑوس نوجوان بھی تھا اور خوبصورت بھی، توتیاپہ کی خواتین میں انگیا پہننے کا رواج نہ  تھا اور مرد نالا نہیں باندھتے تھے، اسکے باوجود یکڑوس نالے کا بہت پکا تھا۔ یکڑوس نے اپنی نوجوانی کو کھیل اور جنگ کی جانب مصروف کر لیا۔ یہ جنگ لڑتا، ملک فتح کرتا اور دشمن کی عورتیں قبضے میں لے لیتا مگر فورا ً ہی ان کو باجی کہہ کر کھیلوں کی جانب راغب ہو جاتا۔

اسی دوران ریاست چوچو کی فتح پر توتیاپہ والوں کا تعارف اک نئے کھیل سے ہوا۔ یہ کھیل “دُردُرفٹ “ کہلاتا تھا۔ اس کھیل میں دو اہم کھلاڑی، چار مددگار اور اک ریفری ہوتا تھا۔ اک جانب اک کھلاڑی گینڈے کے حنوط شدہ اک ایسے فوطے کو ہاتھ میں پکڑے ہوتا جسے مادہ بھوری گھوڑی کی حمل کے بعد آئی پہلی لید میں سکھایا گیا ہوتا۔ دوسری جانب کا کھلاڑی دریائی گھوڑے کے چمڑے سے بنا اک منی سکرٹ نما لباس پہنے ہوتا۔ اسکے پاس صندل کی لکڑی سے بنا اک ایسا ڈنڈا ہوتا جسے کنواری بھوری بھینس کے پیشاب میں بھگو بھگو کر نرم کیا گیا ہوتا۔ یہ کھلاڑی اس ڈنڈے کو مردانہ جسم کے سب سے نازک حصے سے ٹکا کر کھڑا ہو جاتا اور ہاتھ سینے پر باندھ لیتا۔ جیسے ہی بگل بجتا، پہلا کھلاڑی چھ فٹ دو انچ تین سینٹی میٹر کی دوری سے اپنے ہاتھ میں پکڑا گولا تاک کر دوسرے کھلاڑی کے ڈنڈے پر مارنے کی کوشش کرتا۔ اگر گولا ڈنڈے پہ لگ جاتا اور ڈنڈے والے کھلاڑی کی چیخ نکل جاتی تو گولے والا فاتح قرار پاتا ورنہ شکست کا حقدار۔ ریفری دبی ہوئی چیخ غور سے سن کر جیت ہار کا فیصلہ کرتا اور گولہ ڈنڈے کو لگ یا نہ  لگ کر جب اِدھر اُدھر گرتا تو مددگار اسکو پکڑتے۔

قارئین اکرام، تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ یہ کرکٹ کی پہلی شکل تھی۔۔۔۔

خیر ہم اپنی کہانی کی جانب واپس آتے ہیں۔ اس کھیل نے توتیاپہ کے عوام کو پاگل کر دیا۔ وہ روزانہ یہ میچ منعقد کرتے، شہر کا شہر جمع ہو جاتا اور کئی کئی گھنٹے کھیل کھیلا جاتا۔ عوام کھلاڑیوں سے جذباتی طور پہ وابستہ ہو گئے، ان کو ہیرو کا درجہ ملنے لگا۔ عوام کے کاروبار متاثر ہونے لگے، عورتوں نے گھر کے کام کاج بھولنا شروع کر دیے۔ عوام نے کاہن کے پاس جا کر منت ماننی شروع کر دی کہ اگر آج انکے کھلاڑی کی چیخ نہ  نکلی تو وہ دیوتا کے چرنوں میں اپنی بیوی یا شوہر کے ناک کی قربانی دیں گے۔ یوں آدھا شہر نک کٹا ہو گیا۔

اسی دوران یکڑوس نے نئی مہم کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ اکثر فوجی ڈنڈا لگ لگ کر اس حالت کو پہنچ چکے کہ اب گھوڑے پہ بیٹھنے کے قابل نہیں رہے۔ ایک دن اس نے شاہی میچ کا اعلان کیا اور ہر اس شخص کو بلا لیا جو اس کھیل کا کھلاڑی تھا اور لائن میں کھڑا کر دیا۔ البتہ کھیل کے شروع میں اس نے اعلان کیا کہ آج کھیل میں جدت ہو گی۔ شاہی دستے نے تمام کھلاڑیوں کے ہاتھ باندھ دیے اور ڈنڈے چھین لیے۔ اب اعلان ہوا کہ آج شاہی دستہ گولہ پھینکے گا مگر درمیان میں ڈنڈا نہ  ہو گا۔ جس کی چیخ نکلی اسکی گردن اڑا دی جائے گی۔ تماشائی جو تماشے کے شوقین تھے یہ سنتے ہی پھوڑوس پھوڑوس (جو انکی زبان میں چیئرز چیئرز تھا) کے جوشیلے نعرے لگانے لگے۔ میچ شروع ہوا، گولے مارے جاتے رہے، گولے پھٹتے رہے، گردنیں اترتی رہیں اور ایک بھی کھلاڑی نہ  بچا۔ اب یکڑوس نے اعلان کیا کہ مزید کھلاڑی لاؤ اور عوام سے کہا کہ آؤ کس نے کھیلنا ہے؟ اس موقع پہ عوام کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا اور انھوں نے دو کے زاوئیے سے گیارہ کا عدد بنایا اور سٹیڈیم کے نو رستوں سے نکل گئے۔ ریاست توتیاپہ اسکے تین سو برس بعد تک قائم رہی مگر عوام نے پھر کبھی دُردُرفٹ نہیں کھیلا۔

میں نے کل رات معروف دانشور شابانی صاحب سے ملاقات کی۔ شابانی صاحب اٹلی کے بنے سلیپنگ سوٹ میں ملبوس، پانامہ کے سلیپرز پہنے اپنے پاؤں سری لنکا کے ساگوان کی بنی میز پہ رکھے ہوئے  برازیلین کافی  چُسکتے ہوئے ، کیوبن سگار کا دھواں نکال رہے تھے۔ میں نے کہا سر، آخر اس کرکٹ ٹیم سے کب تک ذلیل ہوں گے، کب تک یہ قوم نفسیاتی مریض بنی ہر حقیقی مسئلے سے نظر چراتی ہوئی دوسری قوموں کے کھلاڑیوں سے امید لگا کر یونہی اپنا دل توڑتی رہے گی۔ شابانی صاحب مسکرائے، سگار کے دھویں یا شاید اپنی کمینگی کی وجہ سے بائیں آنکھ دبائی اور بولے، “چوہدری، یکڑوس کا قصہ معلوم ہے نا ۔۔جو سوائے تیرے اور میرے کسی کو بھی معلوم نہیں؟۔ ۔بس عمران خان ہمت کرے اور اک بار اس کھیل کو اسکی ابتدائی حالت پہ لیجا کر ان گیارہ کی ٹیم اور انکے سب آفیشلز کے ساتھ لائیو ٹی وی پہ خود گولا پھینکنے کا کھیل کھیل لے۔ بلکہ ہر اس سیاستدان کو بھی کھلائے جس نے کبھی کرکٹ کھیلی ہو۔ اب یہی علاج ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پر سر اک مسئلہ ہے، میں نے گھبرا کر کہا۔۔ عمران خود اسی کھیل کا کھلاڑی تھا، اگر کسی نے اس کو بھی ۔۔۔۔ شابانی صاحب مسکرائے، دھواں پھینکا اور بولے، پاگل اسکی چیخ نہیں نکلے گی، ریحام کی کتاب نہیں پڑھی کیا؟” میں نے بے اختیار اک قہقہہ  لگایا، شابانی سے ہاتھ ملایا اور باہر نکل آیا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply