کیا شراب پہ قدغن لگانا شرعی تقاضا ہے؟۔۔۔۔۔سلیم جاوید/قسط 1

ایک سیکولر ریاست کا ایجنڈا فقط “امن ومعیشت” ہوا کرتا ہے- اس ریاست کے انتظام میں ،گناہ وثواب کو نہیں بلکہ فائدہ ومضرت کو دیکھا جاتا ہے- لہذا تھیوکریٹک ریاست کی طرح، یہاں مذہبی حوالوں کی بنیاد پہ نہیں بلکہ زمینی حقائق کی بنیاد پہ قانون سازی کی جاتی ہے- مثلاً  ایک سیکولرریاست، شراب کی “مضرت” کو دیکھ کرقانون سازی کرے گی نہ کہ اسکے” گناہ” کو دیکھ کر- اگرعوام کیلئے کوئی  چیزٹوٹل مضر ہے تواس پہ کلی پابندی ہوگی، فائدے کی چیزہے توکوئی  پابندی نہ ہوگی اور معاملہ بین بین ہے تو پھر اسی حساب سے اسے کنٹرول کرنا ہوگا-

خاکسار دینِ اسلام کو سیکولرزم کا مبداء حقیقی قرار دیتا ہے- دوماہ قبل، ایک مجلس میں اسی پراظہار خیال کا موقع ملا تووہاں سوال اٹھایا گیا کہ یہ بات کیسے ممکن ہے جبکہ اسلام، شراب پر مکمل پابندی عائد کرتا ہے؟- اس سوال کے جواب میں تفصیلاً عرض کیا کہ اسلام میں کوئی  ایسی روایت نہیں ہے اور یہ فقط ملاؤں کاوضع کردہ “شریعت بل” ہے- اس مجلس میں جو کچھ عرض کیا تھا، اسےمزید مرتب کرکے، آپکی خدمت میں پیش کررہا ہوں-

قارئین کرام!

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ عرب دنیا کے برعکس ،خطہ پاک وہند میں شراب نوشی بہت حساس ایشو ہے- بلکہ میں یہ کہوں تو مناسب ہوگا کہ دیار ہند میں یہ دینی سے زیادہ ثقافتی ایشوہے- (شرابی کو ہندوستان میں بھی اتنا ہی بڑا پاپی سمجھا جاتا ہے جتنا کہ پاکستان میں)-

آپ دیکھیے  کہ باشندگان برصغیر، شرابی غزلوں اور قوالیوں کے جلو میں اٹھان پاتے ہیں -پھر اردو ادب کا معتدبہ بیانیہ ، رند اور واعظ کی چپقلش پہ استوار ہے –( یعنی شرابی کو ایک حتمی وکلی بدی کا کردارمانا جاتا ہے)-

آپ حضرات کو معلوم ہوگا کہ قیام پاکستان سے لیکر 1977ء تک پاکستان میں شراب نوشی پر کوئی  قانونی قدغن نہیں تھی- وزیر اعظم بھٹو( جو خود بھی ایک نفیس مے کش تھے)، اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں بری طرح اپوزیشن کے گھیرے میں تھے جسکی قیادت مفتی محمود مرحوم کے ہاتھ تھی- اپوزیشن کے پاس ترپ کا پتہ “نظامِ  مصطفٰی ” کا نعرہ تھا- چنانچہ بھٹونے اپنی کرسی بچانے، اپوزیشن کے مطالبے پرآئنی ترمیم کرتے ہوئے، شراب نوشی کو ایک قانونی جرم قرار دے دیا تھا-

عجیب بات یہ ہے کہ شراب پر قانونی بندش  کے باوجود، پاکستان کے گلی کوچوں میں شراب نہ تو کمیاب ہے نہ نایاب بلکہ ہمہ قسم شراب، ہرکسی کی دسترس میں ہے۔وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب بنانے کی چار “قانونی” فیکٹریاں شب وروزمصروف کار ہیں جن میں سرکاری سرپرستی میں شراب بنائی  جاتی اور برآمد کی جاتی ہے- سب سے قدیم شراب کی فیکٹری(مری بروری) تواس آرمی ہاؤس کی بغل میں واقع ہے جہاں حضرت امیر المومنین جنرل ضیاء الحق شہید کا گیارہ برس تک قیام رہا تھا( مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے)-ظاہر سی بات ہے کہ اگرشراب نوشی گناہ ہے تواسکی سپلائی  کرنا زیادہ بڑا گناہ ہوا، مگر کسی پارلیمنٹیرین  مولوی صاحب نے بھی کبھی ان فیکٹریوں بارے لب کشائی  نہیں کی-

دیکھیے، ہماری پارلیمنٹ نے شراب پرمکمل پابندی کا قانون بنایا ہے تو یہ اسکا جمہوری حق ہے جسکی پابندی کرنا ہرپاکستانی شہری کیلئے لازمی ہے- مگرظاہر ہے کہ پاکستان کا آئین کوئی  خدائی  حرف نہیں ہے جس سے رائے کا اختلاف نہ کیا جاسکےیا جسے بدلا نہ جاسکے-

اگر پارلیمنٹ نے یہی قانون، مولویانہ نکتہ  ء نظر کی بجائے سیکولر بنیاد پہ بنایا ہوتا تو ہمیں اعتراض نہ ہوتا- سیکولرریاست اپنے تمام شہریوں کو برابر کا انسان تسلیم کرتی ہے- پس اگر شراب ( یا کوئی  اور چیز) ، عوام کے امن ومعیشت ( اور اسی کے ذیل میں صحت و کاروبار) کیلئے مضر ہے تواسے ساری رعایا کی پہنچ سے دور ہونا چاہیے – مگرجب ہمارے آئین میں شراب کو، ہندو اورعیسائیوں کیلئے منع نہیں  کیا گیا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ شراب پہ پابندی، اسکی مضرت کی بنا پرنہیں عائد کی گئی بلکہ کسی خاص عقیدہ کی بنیاد پرنافذ کی گئی ہے۔

سیکولر ریاست، اپنے شہریوں کے عقائد کا احترام کرتی ہے یعنی ان کو اپنے عقائد و عبادات پر پورے امن اورآزادی سے عمل کرنے کی فضا مہیا کرنا بھی سیکولرریاست کا کام ہے(تاقتیکہ وہ دیگر لوگوں کی روزمرہ زندگی اور عمومی امن ومعیشت پراثر انداز نہ ہوں)- مگرسیکولرریاست کا یہ سکوپ نہیں کہ رعایا کے کسی خاص گروہ کے عقیدہ بارے قانون سازی کرتی پھرے- ( جب کسی کے خدا ، بھگوان، اوتار یا امام وغیرہ نے پہلے ہی اپنے معتقدین کیلئےکوئی  خاص مذہبی قانون بنادیا ہوا ہے تودنیاوی پارلیمنٹ کا کیا کام کہ وہ مزید اس بارے قانون سازی کرے؟)-

مثال کے طورپر، اسلام میں خنزیرکو قطعی حرام قرار دیا گیا ہے-اگر خنزیرکا گوشت ، میڈیکلی مضر ثابت ہوتا ہے تو پورے ملک میں اسکابزنس کرنا ممنوع قراردیا جائے گا- اگر ایسا کوئی  ثبوت نہیں ملتا تو یہ صرف عقیدہ کا معاملہ ہوگا- متعلقہ عقیدے  والے بے شک اس سے احتراز کریں( ان کو کوئی  مجبور نہیں کرے گا) مگرسیکولر ریاست اس پر پابندی نہیں لگائے گی-

سیکولر ریاست کو اس سے غرض نہیں ہوگی کہ پاکستان میں ایک قصاب، خنزیرکے گوشت کی دکان ڈال دے- سیکولر ریاست کا صرف یہ کام ہے کہ جو آدمی جوچیز بیچ رہا، وہ واضح ڈکلیئر ہونا چاہیے- چنانچہ بکری کے نام پہ کتا اور دنبے کے نام پہ خنزیر کا گوشت بیچنا جرم قرار پائے گا- پاکستان کے کسی شہر میں کوئی  پاگل ہی ہوگا جو خنزیر کے گوشت کی دکان برائے تجارت کھولے گا تاہم پھر بھی اگر اسکو گاہک میسر آجاتے ہیں تواس کا نصیب- حکومت، اسکی دکان کی حفاظت کرے گی اور اسکے بدلے اپنا ٹیکس وصول کرے گی-

واضح ہوکہ زیرنظرمضمون، شراب نوشی کے موضوع پرضرور ہے مگرشراب کی حلت وحرمت کا فیصلہ کرنے  پر نہیں- نہ توہمیں شراب سے کوئی  ادنیٰ  رغبت ہےاور نہ ہی کسی اور کوپیتا دیکھ کرہمارا بلڈپریشر بڑھتا ہے- بات یہ ہے کہ طبعی طور پرخاکسار کوکسی قسم کے چھوٹے بڑے مادی نشہ سے کبھی کوئی  رغبت نہیں رہی مگرشراب سے کہیں زیادہ مضر نشہ یعنی “حبِ جاہ” اور “حبِ مال” کا مریض ضرور ہوں اور خدا سے اپنی شفایابی کیلئے دائماً دعاگو ہوں-

آمدم برسرمطلب!

ہماری رائے یہ ہے کہ پاکستان میں بھی دور جدیدکی عالمی برادری کی طرح ایک سیکولر آئین نافذ کیا جائے اور شراب پرصرف اتنا ہی سرکاری کنٹرول رکھا جائے جو باقی مہذب دنیا نے ، اپنے معاشروں میں، مکمل بحث وتمحیص کے نتیجہ میں نافذ کررکھا ہے-

یقیناً ایک مسلمان کیلئے دنیاوی سودوزیاں کے تخمینے سے زیادہ، اسکی مذہب وشریعت کی اہمیت ہوتی ہے،ہماری رائے مگریہ ہے کہ شراب نوشی، شرعاً کوئی  جرم نہیں ہے اور جب جرم نہیں ہے تو اس پہ سزا یا قدغن کیسی؟-

بہت ممکن ہے کہ خاکسار کی رائے قطعاً غلط ہو- میں اہل علم سے توقع رکھتا ہوں کہ پیغمبرانہ اخلاق ودانش کے ساتھ میری غلط فہمی رفع فرمائیں گے- مگر پہلے خاکسارکی معروضات کو ٹھنڈے دل ودماغ سے ملاحظہ کرلیجیے-
اس سے پیشتر کہ اپنے موضوع کی علمی اساس کی طرف جائیں، آج بھی ہم پاکستان کے امتناعِ شراب نامی قانون پراپنا تبصرہ جاری رکھیں گے- اس لیے  کہ گزشتہ 80 برس میں مولوی صاحبان نے اسلام کی خاطر کل دوعظیم الشان کارنامے انجام دیئے ہیں- ایک، قادیانی کو کافر قراردلوانا اوردوسرے، شراب پہ بندش-

سوال اٹھانا چاہیے کہ “نظامِ مصطفیٰ” کی پُرتشدد تحریک ، جس میں سینکڑوں گھروں کے چراغ گل ہوگئے، اس کا حاصل حصول کیا تھا؟ – اس تحریک کی ٹوپی سے اگرصرف “امتناعِ شراب” کا کبوترنکلا تھا تو پوچھنا چاہیے کہ کیا یہی اسلام اور پاکستان کا اساسی ایشو تھا جس پہ ہماری ترقی وفلاح کا انحصار تھا؟

خود سوچیے  کہ اگرشراب ہی پاکستان اوراسلام کی ترقی میں واحد رکاوٹ تھی تو گزشتہ 42 برس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب پرپابندی عائد ہے، ہمارے لیے  بڑا سنہری موقع تھا کہ” شراب سے پاک” پاکستان کی برکات کو دنیا بھر کے سامنے بطور مثال پیش کرتے تاکہ دنیا ہماری “شرعی ومستحسن” قانون سازی کو فالو کرتی –

مگرعالمِ کفار کیلئے ہم کیا دلیل بنتے، ہماری تو اپنی گنگا الٹی بہنے لگی-

آپ پاکستان کے پہلے 30 سالہ شرابی دور(پری ضیائی  دور) اور اسکے بعد کے 42 سالہ شراب سے پاک دور(پوسٹ ضیائی  دور) کا موازنہ کیجیے- مذہب، سیاست، تعلیم، ادب، دفاع، کوئی  ایک شعبہ اٹھا کردیکھ لیجیے  جس میں ہم نے ترقی کی ہو؟۔۔

مذہب ہی سے شروع کریں تو”پری ضیائی ” دور میں مفتی تقی عثمانی جیسے علماء کی پرداخت ہوئی  جبکہ” پوسٹ ضیائی ” دور میں تنزلی کا وہ عالم ہے کہ گھمن گھیری قسم کے “بروزن مینڈک” مولویوں کوآجکل “علمائے کرام” شمارکیا جاتا ہے-سبحان اللہ

سیاست ، ہمارا دوسرا اہم ترین شعبہ ہے- شرابی دور کے نوابزادہ نصراللہ، مفتی محمود اور بھٹو والی باوقارسیاست، آج مریم نواز، بلاول بھٹو اورعمران خان جیسوں کی حقیر سطح پرآپہنچی ہے-

شعبہ ءتعلیم کا زوال بھی دیکھیے، کہاں “پری-ضیائی ” دور کے ڈاکٹرعبدالسلام جیسے نوبل انعام یافتہ تعلیمی پراڈکٹ اور کہاں “پوسٹ ضیائی ” دور کے پانی سے گاڑی چلانے والے سائنسدان-

شرابی پاکستان کے ادب کا ذرا”غیرشرابی” دور کے ادب سے موازنہ کیجیے- اس دور میں ابنِ  صفی، فیض اوریوسفی جیسے اصحابِ قلم پروان چڑھے جبکہ موجودہ ادب کا یہ عالم ہے کہ “میں تیرے ہاتھ کا کنگن ہوتا” جیسے بے تُکے مصرعے کو شاعری سمجھا جاتا ہے-

اور تو اور، اس دور کی ہماری “شرابی آرمی” بھی زیادہ پروفیشنل ثابت ہوئی  تھی،مانا کہ ہزیمت اٹھائی  مگر کسی دشمن ملک کی باقاعدہ فوج کے ہاتھوں، مگرغیرشرابی “متقی” فوج کا یہ حال ہوا کہ چنداجڈ طالبان کے محاصرے سے اپنے ہیڈ کوارٹرکا محاصرہ ہٹانے میں  بھی مذاکرات کرنے پڑے تھے-

نوجوانو ہوش کرو- آج کا مضمون میں نے آپ کیلئے لکھا ہے کہ اسلام کے نام پرکسی کی کرسی کیلئے بار بار استعمال مت ہوا کرو۔۔

جیسے وزیراعظم بھٹو کے خلاف نظام مصطفی تحریک چلانے والوں کا مقصد اسلام یا عوام کی خدمت نہیں تھا بلکہ اسلام آباد پہ قبضہ کرنا تھا (یہ الفاظ مولانا غلام غوث ہزاروی کے ہیں جنہوں نے اس تحریک سے علیحدگی اختیار کی تھی- ظاہر بات ہے کہ نظام مصطفی سے ولی خان جیسے سیکولرز کو کیا غرض تھی جومولویوں کی پشت پہ کھڑے تھے؟)، ویسے ہی آج کے سیاسی مولویوں کا مقصد بھی نفاذِ اسلام نہیں ہے- “دفاعِ اسلام- ناموس رسالت- تحفظ حرمین” وغیرہ جیسے خوبصورت نعروں کی آڑ میں اپنے خاندانی بزنس کی بقا مقصود ہواکرتی ہے ورنہ پاکستان میں اسلام کو کوئی  خطرہ نہیں-

رہا شراب کا معاملہ! تو اسکا حل وہ نہیں جو پاکستان کے بزرجمہروں نے مذہبی عوام کو لولی پاپ دینے  کے لیے  نافذ کیا ہوا ہے-

ہمارے ہاں شراب پر بندش سے امیر شرابیوں کوسوائے چند روپے زیادہ خرچ کرنے کے کوئی  خاص فرق نہیں پڑامگر ہرسال سینکڑوں غریب شرابی، غیرمعیاری اور زہریلی شراب کے ہاتھوں ہلاک ہوجایا کرتے ہیں- اگریہ چیز قانوناً  ممنوع نہ ہوتی تو پرائس کنٹرول میں رہتی اورسرکاری طور پر کوالٹی چیک بھی ہوتا رہتا-

پاکستان میں شراب اگرباقی دنیا کی طرح، قانونی طورپر دستیاب ہونے لگے تو اسکا ایک فائدہ ہے- پولیس کا بھتہ ختم ہوجائے گا- سرکاری کوالٹی ٹیسٹ کے بعد، اصلی شراب ، پرائس کنٹرول ریٹ پردستیاب ہونے سے غریبوں کو ٹھرے کے نام پر زہرخورانی نہیں کرنا پڑے گی( اور نہ ہی ولایتی شراب گھر پہنچانے پر، بیورکریٹ صاحبان سے غیرقانونی کام نکلوائے جاسکیں)-

یہ فقط ایک خدشہ ہی ہے کہ شراب عام میسر ہونے سے ملک میں دینی فضا میں کمزوری واقع ہوجائے گی- مسلمان ممالک میں سے ہی چار ایسے ممالک کی مثال لے لیتے ہیں جہاں شراب پرقدغن نہیں ہے- بنگلہ دیش میں شراب عام ہے مگر دنیا کا سب سے بڑا تبلیغی اجتماع وہیں ہوتا ہے- ترکی میں شراب عام ہے مگر”صالحین” وہاں خلافت کا احیاء دیکھتے پھرتے ہیں- امارات اور بحرین میں بھی اتنا ہی دین موجود ہے جتنا کہ سعودی عرب میں ہے-

یہ بھی فقط مفروضہ ہے کہ اگر شراب عام میسر ہو گی توہمارے سارے نوجوان شرابی ہوجائیں گے- کیا یورپ میں بسنے والے سب مسلمان شرابی ہوگئے ہیں؟- یاد رکھیے  کہ کسی قوم کے زوال کا اصل فیکٹر، شراب نہیں بلکہ حکومت کی ناہلی اورنانصافی ہوتا ہے- انصاف پرور سوسائٹی کے شرابی بھی ہوش میں رہتے ہیں –ناانصاف معاشروں کے جوان، بن پیے  بھی نیم پاگل ہوجایاکرتے ہیں-

یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ انسان پرماحول کا اثرہوتا ہے مگرجہاں تک اکل وشرب کا تعلق ہے، تو اس میں طبعی رحجان، بنیادی چیز ہوتا ہے- پورے گھر میں ایک بچہ گوشت کھانے سے کراہت محسوس کرتا ہے حالانکہ باقی سب گوشت کھاتے ہیں- یہ بائی  ڈیفالٹ کیفیت ہے-

خاکسارنے شعور کی آنکھ ایک ایسے شہر میں کھولی جہاں مرد تومرد، عورتیں بھی نسوار رکھا کرتی تھیں- حقہ وچلم توعام بات تھی مگر چرس پینا بھی معیوب نہیں تھا- مگرمیری طرح میرے شہر کے کئی باسی، ان سب چیزوں سے دور ہیں-(نسوار جوکہ پختونوں کا نشہ ہے مگر کئی پنجابی لوگ بھی اسکے عادی ہیں- اسکے بالمقابل کئی پختون اسکو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے)دیکھا گیا ہے کہ کسی کا طبعی رحجان ہو توسعودی عرب میں بھی نایاب منشیات تک پہنچ جائے گا اوراگر طبعی رحجان نہ ہو تو یورپ میں جنم لینے والے لاکھوں مسلمان بھی شراب سے دوررہتے ہیں-

لہذا یہ کوئی  طے شدہ امر نہیں ہے کہ شراب اگرعام دستیاب ہوگی تو نہ پینے والے بھی پینا شروع کردیں گے- چرس تو بہرحال عام دستیاب ہے- کتنے لوگ اسکے عادی ہوئے؟-

اگرآج کے مضمون سے نوجوانوں کو یہ سمجھ آگئی ہے اسلام میں بعض “نان ایشوز” ہوتے ہیں مگر شکم پرورایجنڈا کے تحت انکو”کورایشوز” بنا کرپیش کیا جاتا ہے توالحمدللہ- تاہم اگراب بھی “ٹرانس اور ٹریپ” کا شکار ہیں تو پھرانکا نصیب-

ان شاء اللہ اگلی قسط میں شراب کے ایشوپرعلمی بحث کا آغازکریں گے- یاد رکھیے کہ کوئی  آدمی، عقلِ کل نہیں ہوتا- ہم ایک دوسرے کا سہارا بنیں گے- مل جل کرتعمیری گفتگو کا ماحول بنائیں گے تو درست نتیجے تک پہنچنا آسان ہوجائے گا-

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply