ادراک۔۔۔۔شہزاد نیّر/نظم

کہیں کچھ نہیں ہے
کوئی نقش و پیکر ، کوئی شکل و تیور
نہیں ہے
نہ رخسار و لب ہیں ، نہ اُن کی دمک
نہ قامت قیامت ، نہ رُت میں کشش ۔ ۔ ۔
نہیں کچھ نہیں ہے
مگر آنکھ ہے ۔ ۔ ۔ اور دل ہے
یہیں دید و نادید کی سب سمجھ ہے
خیالوں کی پیچیدگی کچھ نہیں ہے
سخُن کی نزاکت ، سُروں کی نفاست
سماعت کی باریکیاں ہیں
وگرنہ نہیں کچھ
زمیں ، آسماں ، پھول ، بادل ، ستارے
سبھی میرا ادراک ہیں
لفظ کاغذ پہ بے صَوت و معنی لکیریں ہیں
آواز و مفہوم میں ہوں
ورا ماورا میرا حُسنِ تخیُّل
وجود و عدم میرا کارِ تصوُّر
مِرے وہم و ادراک سے ہے
جو نقشِ گماں ہے ، جو نقشِ یقیں ہے
وگرنہ کہیں کچھ نہیں ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply