کہیں کچھ نہیں ہے
کوئی نقش و پیکر ، کوئی شکل و تیور
نہیں ہے
نہ رخسار و لب ہیں ، نہ اُن کی دمک
نہ قامت قیامت ، نہ رُت میں کشش ۔ ۔ ۔
نہیں کچھ نہیں ہے
مگر آنکھ ہے ۔ ۔ ۔ اور دل ہے
یہیں دید و نادید کی سب سمجھ ہے
خیالوں کی پیچیدگی کچھ نہیں ہے
سخُن کی نزاکت ، سُروں کی نفاست
سماعت کی باریکیاں ہیں
وگرنہ نہیں کچھ
زمیں ، آسماں ، پھول ، بادل ، ستارے
سبھی میرا ادراک ہیں
لفظ کاغذ پہ بے صَوت و معنی لکیریں ہیں
آواز و مفہوم میں ہوں
ورا ماورا میرا حُسنِ تخیُّل
وجود و عدم میرا کارِ تصوُّر
مِرے وہم و ادراک سے ہے
جو نقشِ گماں ہے ، جو نقشِ یقیں ہے
وگرنہ کہیں کچھ نہیں ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں