داستانِ زیست۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط19

گزشتہ قسط:

لیکن یہ عجیب خیال آیا کہ تم نے پرائی  مرسیڈیز چند دن چلائی  اب یہ اتنی اچھی کار ہے۔۔پر وہ ڈرائیو نہیں ۔کمفرٹ نہیں وہ بات ہی نہیں ، اسی طرح فرحی کے بعد ۔۔۔۔ ہم نے پوری شدت سے یہ خیال  ذہن سے جھٹک کے نکال پھینکا۔ سیدھے گھر پہنچے۔ شام تک بیڈ پہ  پڑے رہے۔ آج تو پرویز بھی فلائیٹ پر تھا۔
ایک دل کیا چار پانچ ڈرنک چڑھا لوں، پھر سوچا راجپوت ہو کے ہار جانا تو ہو سکتا ہے ،ہوا ہے۔۔ لیکن ہار ماننی ؟؟
ٹریک سوٹ جوگر چڑھائے، کار نکالی اور ٹریل تھری کی پارکنگ میں پارک کر کے واک شروع کی ۔ گھڑی پہ  ٹائم رکھ کے پینتیس منٹ میں ماؤنٹ آف ہیپی نیس پر پہنچ گئے جہاں چند دوست پہلے سے سستا رہے تھے۔
زندگی رواں دواں رہتی ہے، علت بدلتی رہتی ہے۔ وقت بدلتا رہتا ہے تو بندہ بھی بدل جاتا ہے ۔

نئی قسط:

پنڈی رہتے کبھی ڈیرہ بنانے کی خواہش نہیں پیدا ہوئی  تھی۔ کچی جوانی تھی یا چکوال کی قربت کہ آنا جانا بہت تھا۔
اسلام آباد شفٹ ہوئے تو محسوس ہوا کہ جب اس شہر  میں رہنا ہے تو ” معززین ” میں شمار ضروری ہے۔ ڈیرہ داری لازم ہے۔ پچھلی رات سوتے میں یہ کیفیت طاری تھی ۔ صبح گیٹ کھلنے کی کھٹک سے جاگے، کھڑکی سے جھانک کے دیکھا تو ایک دودھ فروش جوان اور ایک بابا تھے۔ نیچے اترے۔ ۔سلام دعا کی، پائلٹ کا نوکر دودھ لینے نکل آیا ، بابے نے عقبی صحن سے لکڑی کا بکس اٹھا کے سڑک کی سائیڈ پہ  بڑے سایہ دار درخت کے نیچے بنے تھلہ پر سیٹ کر کے رکھا ۔۔بابا یہاں دن بھر موچی کا کام کرتا ۔ دودھ فروش اس کا بیٹا تھا۔ سائیکل پہ  دونوں ساتھ والے گاؤں سے آتے ۔ بیٹا بشیر چند گھروں میں دودھ دے کے،باقی سیکٹر کی مارکیٹ میں ہوٹل پہ  دیتا اور وہیں بیرا گیری کرتا ۔ کُکنگ بھی آتی تھی۔ پچیس روپے دہاڑی ملتی۔ ایک بھینس اور گائے گھر کی عورتیں سنبھالتیں ۔ تین چار دن ہم نے بھی دودھ لیا،گھر کا ہلکا کام بھی کرا کے چیک کیا اور بشیر کو ہزار روپے مہینہ پر ملازم رکھ لیا۔ وہ لوگ مغرب کے بعد ہی گھر جاتے۔۔
یوں ہمارے ڈیرہ داری کی پہلی منزل طے ہو گئی۔ گائے کا خالص دودھ۔ نوکر اور موچی بابا گیٹ کے سامنے سارے دن کا چوکیدار۔بابا اچھا خاصا روحانی مقام رکھتا تھا ۔ سرکاری کوارٹرز کی کچھ خواتین بچوں کو دم کرانے آتیں ۔۔

اُس روز ہم صرف چائے پی کے ایمبیسی پہنچے۔
سوچ جاگزیں تھی کہ فرحی تو اپنا ہنی مون بلکہ مون سون منا رہی ہو گی اور ہم سوُکھے بھوکے ۔۔۔
چانسری میں بھی دلچسپی کے سامان تھے۔ بس ہم ہی ابھی تک ان سے انجان تھے ۔۔
شاید  پہلی مرتبہ جی بالکل پہلی بار اس روز ہم نے ہر کولیگ مرد و زن سے ، اس کی سیٹ پر جا کے پُرجوش مصافحہ کیا ۔ سب کی خیر خیریت پوچھتے لیڈی سیکرٹری کے آفس میں جا بیٹھے ! ہاتھ ملاتے تو وہ جھجکی ۔۔ پھر نارمل ہو گئی۔ ہم نے بڑی اپنائیت سے ناشتے کی فرمائش کر ڈالی۔ اس کی باچھیں کھل اٹھیں ۔ چپڑاسی سے کورڈ مارکیٹ سے  دو بندوں کے لیے، انڈے والے سینڈوچز منگوا لیے، چائے بنوائی ، مل کے ناشتہ کیا۔

مرسیڈیز تو چانسری میں تھی ۔ اس نے دیکھ لی ہو گی، لیکن نام تک نہ لیا، پر ہم نے بڑے پیار سے بات چھیڑی تو۔۔اُس کا رسپانس بہت فرینک دوست کے محبت بھرے شکوؤں سے لبریز تھا ۔ لوچ بھری آواز میں بولی۔ ۔
” چھوڑو خان ! تم پتہ نہیں کہاں انوالو ہو۔ ہم تو تمہیں نظر ہی نہیں  آتے۔ آج یہ سورج کیسے نکلا ؟ نئی کار کی مبارک ہو ! گھر اچھی جگہ لیا ہے۔ اس کی بھی مبارک۔۔ تو کب مجھے اس کار پہ  لے جا کے وہاں دعوت کرو گے”؟

ایک اور مرسڈیز

اسے کہتے ہیں چاروں شانے چت ہونا جو ہم ہوئے۔
ہم نے سگریٹ سلگائی ۔ اس کے منہ پر دھواں چھوڑتے جوابی گلہ کیا۔۔
تم نے مرسیڈیز دوست کو دلوانی  تھی تو مجھ سے کہا ہوتا ! میں آفر ہی نہ لگاتا۔۔
دل میں اندیشہ جاگا کہ 25 ہزار پرافٹ کی   بات نکل آئی  تو ایمبیسی میں میری سبکی ہو سکتی ہے۔
لیکن اسے دوست نے یہ نہیں  بتایا ہو گا ورنہ وہ میرے منہ پہ  کہہ دیتی۔ ہم نے اس سے دوست کو فون ملوایا۔بات کی۔۔۔۔ گول مول طریقے سے اسے پیسے لانے ،کار لے جانے کے لیے  حسن کے ہوٹل میں لنچ پر بلا لیا،مرسیڈیز پہ ہوٹل گئے۔جہاں اس سے 25 ہزار لے کے حسن کو دیے ، کار حوالے کی۔ حسن کے ساتھ جیولر کو پیمنٹ کی، چھٹی ہونے سے پہلے چانسری واپس پہنچ گئے۔ جہاں سفیر صاحب کی طلبی منتظر تھی ۔

ہز میجسٹی کے حکم سے ایک ٹیم آ رہی تھی۔ فارن آفس کی ٹیلیکس سفیر صاحب نے مجھے تھمائی ۔جس کے مطابق ٹیم نے بارہ بھینسیں اور بارہ بھینسے۔ سنڈے خریدنے تھے اور ائیر لفٹ ہونے تھے ۔
ہز میجسٹی نے واٹر بفیلوز کی ڈاکومنٹری  دیکھی تو یہ حکم جاری کر دیا۔ بادشاہ تو بادشاہ ہوتے ہیں ناں ۔

سفیر صاحب نے میرے ذمہ اس کے سارے لاجسٹک ارینج کرنے کی ڈیوٹی لگائی ۔ ان کی فارن آفس اور متعلقہ ٹیم کے انچارج جو پاکستانی تھا ان سے بات ہو چکی تھی۔ میں نے درخواست کی کہ انچارج سے میری بھی بات کرا دیں تاکہ  تفصیلات سمجھ سکوں ۔ دس منٹ میں وہ صاحب لائن پر تھے۔ تعارف ہوا ۔۔ ایبٹ آباد کے تھے ، مویشیوں بارے  واجبی سمجھ بوجھ تھی۔ خیر ہم نے ” بھینس نامہ ” بیان کر کے اور یہ بتا کے کہ ہم جدّی پشتی بھینس پال ہیں۔یہ سمجھایا کہ ۔۔ مرغی ،بکری، بھیڑ اور گائے بھینس کے تولیدی فرق کیا ہیں ۔ ہر بھینس کا اپنا سانڈ نہیں  ہوتا۔
بلکہ ایک دو سانڈ پورے گاؤں کی بھینسوں کی احتیاج پوری کر سکتے ہیں۔

ان کو تو بات سمجھ آگئی  لیکن پیلیس سے جاری حکم میں ردوبدل ایسے ممکن نہیں تھا۔ ہم نے کچھ اضافی معلومات ٹیلیکس کر دیں ۔ یہاں شام کے چار بجنے والے تھے۔ طے پایا کہ وہ رپورٹ بنوا کے پیلس سے تعداد بدلنے کی درخواست کریں گے۔ جس کی اطلاع کل پرسوں تک ملے گی۔

سفیر صاحب نے باقی سٹاف کو چھٹی ٹائم پہ  جانے کی اجازت دے دی تھی۔ چانسری میں سفیر صاحب ،سیکرٹری اور میں تھے۔ ان دونوں کو تخلیہ میں چھوڑ کے میں بھی نیچے اتر آیا۔ بنک والوں سے چھٹی کے بعد میٹنگ تھی۔ آؤٹر ریسپشن سے فون کیا معذرت کی۔ سفیر صاحب اور سیکرٹری صاحبہ ساتھ ساتھ آئے۔ ڈیوٹی گارڈ نے چانسری لاک کی،سفیر صاحب کی اولڈزموبیل ریورس میں ڈرائیو وے پر پارک تھی۔ گیٹ کے سامنے ہماری مزدا کار کھڑی تھی۔
وہ اپنی کار میں بیٹھنے لگے دروازہ میں نے ہی کھولا تھا، میری کار کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے ۔۔
” یلا خان ۔ سیارہ جدید مبرُوک ۔ ہم نے تھینک یو یور ایکسیلنسی بولا ۔۔ ہنس کے بولے

Oh you made a good bargain of Mercedes Benz, smart man !

لیڈی سیکرٹری میرے ساتھ کھڑے  مجھے دیکھ کے بڑے معنی خیز انداز میں مسکرائی  ،
ہم نے سفیر صاحب کو جھک کے سلام کرتے کہا۔۔ بٹ آئی  لاسٹ دی مرس ۔۔ انہوں نے شاید سنا ہو۔روانہ ہوئے
ہم دونوں چانسری سے باہر آئے۔ ہم نے سیکرٹری کو چھیڑتے ہوئے کہا، آؤ ناں میرے ڈیرے۔۔
اس نے اپنی فوکسی کی طرف اشارہ کرتے کہا، ہائے میری مجبوریاں ! اسے کہاں چھوڑوں ۔۔

ویسے ہم پاکستانی دن میں بھی خواب دیکھنے والی قوم ہیں۔ ہم نے تصور میں سوچا کہ ہو سکتا ہے بھینسوں کے ساتھ ہم بھی پرواز کر جائیں ۔ پیلس  میں حاضری ہو۔ شاہی فارم پہ  کوئی  عہدہ بھی مل جائے ۔ ہمارے جدّی پشتی ڈنگر پالنے کے ہنر کی پورے خلیجی ممالک میں واہ واہ ہو۔ دوسرے فرماں رواں  بھی ہماری سروسز ادھار لیں ۔
ہمیں رئیس ال بھینس کا خطاب شطاب مل جائے ، وغیرہ وغیرہ
لیکن دو روز بعد ڈپلومیٹک پاؤچ میں جب تفصیل سے ہدایات موصول ہوئیں تو ہمارے خواب پریشان ہو گئے۔
اعلیٰ  حکومتی سطح پر بندوبست ہو گیا تھا۔ ایمبیسی نے تو صرف کوآرڈینیٹر کا کام کرنا تھا۔ ٹیم کو سہولت مہیا کرنی تھی۔
وہ بھی اگر ضرورت پڑے تو۔ جیسے ٹیم کو چیچہ وطنی ساہیوال جانے کے لیے  اور وہاں استعمال کے لیے  نسان جیپ اور ڈرائیور بھیجا۔ اسلام آباد میں بھینسوں کے قیام کے لیے  جگہ کا بندوبست کیا۔ وہاں دیکھ بھال کے لیے  لیبر مہیا کر دی۔ باقی خریدنے، ٹرانسپورٹ،کارن ٹائن، انجکشن حفاظتی ٹیکے، سی ون تھرٹی طیاروں کی آمد، بھینسوں کی ان پہ  روانگی سب انتظامات سرکاری محکموں نے کیے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں ہماری ایک بات آن ریکارڈ مانی گئی کہ سانڈ بارہ کی بجائے چھ اور بھینسیں چوبیس کر دی گئیں ۔ہماری باقی لکھی تفصیلات کو بھی سراہا گیا۔ تو جناب پیلس سے توصیفی خط بزبان عربی اور گفٹ پیک ہمارے نام اگلی ڈپلومیٹک میل میں موصول ہوا۔ سفیر صاحب نے خالص سفارتی آداب کے مطابق  انگلش میں لکھ کر شکریہ ادا کیا۔
یہ اضافہ ضروری ہے کہ جب ہم ایمبیسی چھوڑ چکے تھے تو بھینسوں کی دوسری کھیپ یہاں سے بھیجی گئی تو اس وقت کے سفیر صاحب جو ہمارے ساتھ فرسٹ سیکرٹری تھے انہوں نے ہمیں تلاش کر کے بلوایا۔ تب ہمارے پاس چک شہزاد اپنا فارم تھا جہاں بھینسوں نے چند روز قیام کیا۔ سفیر صاحب نے بھی وزٹ کیا۔ ہمارے پاس گائیں تھیں۔ بہت خوش ہوئے اور جب تک اسلام آباد رہے روزانہ ایمبیسی کی گاڑی بھیج کے دودھ منگواتے تھے۔
جاری ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply