اے فراز اے فراز۔۔۔رفعت علوی/قسط3

ڈائننگ ہال نقرئی لباسوں سے چمک رہا تھا، سریلے قہقہے چاروں طرف گونج رہے تھے۔ شعراء حضرات اپنے اپنے مداحو ں میں ِگھرے کسی کو آٹوگراف دے رہے تھے تو کہیں اپنے اپنے تجربات شئیر کر رہے تھے۔ ایک طرف جاذب قریشی محترم شبنم رومانی سے کسی مسئلے پہ الجھے ہوئے تھے ،دوسری طرف طارق سبزواری اپنی روایتی تمکنت اور سنجیدگی کے ساتھ دھیمے لہجے میں اپنے مداحوں سے محوِ  گفتگو تھے۔

“یہ طارق سبزواری بالکل فلمی ہیرو نہیں  لگتا؟۔۔۔ ایک خاتون نے اپنے برابر بیٹھی دوسری خاتون سے سرگوشی میں کہا۔
“ارےہٹو بھی۔۔
کیسا فلمی ہیرو؟  ذرا دیکھو تو سہی اسکی ناک کتنی لمبی ہے” ان خاتون نے نے سر اٹھا کے طارق سبزواری کا بغور جائزہ لے کر اپنا فیصلہ سنایا۔
ارے چپ چپ، وہ لوگ سب سُن لیں گے۔۔
سننے دو، آخر یہ لوگ بھی تو دن رات ہماری آنکھوں، بالوں اور رنگ ورخسار پہ الم غلم لکھتے رہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہمارے ایک اسپانسر کی طرف سے مہمانوں کے اعزاز میں گرینڈ لنچ تھا۔ ایک گھنٹے قبل میں اور میری بیوی دونوں خود فراز صاحب کو لینے ان کے دوست کے گھر گئے تھے۔
جی وہ تو صبح ہی کسی خاتون کے ساتھ نکل گئے ہیں” صاحب خانہ نے میری شکل دیکھتے ہی اطلاع دی۔
لیکن رات کو ہی ان سے۔۔۔۔میں نے ان کی بات کاٹی۔۔
جی ہاں مجھے علم ہے، انھوں نے کندھے اچکائے اور بولے۔
میں منہ لٹکائے خاموشی سے گاڑی میں آ کے بیٹھ گیا
کیا ہوا؟۔۔ بیوی نے میرا سُوجا ہوا منہ دیکھ کر پوچھا،
یار یہ فراز صاحب بھی نا، کوئی خاتون لے گئیں ان کو۔۔۔
خاتون! ارے بھئی وہی ہوں گی آپ لوگوں کی  مسز جعلی،میری بیوی قہقہہ   لگا کر  ہنسیں۔۔
میں خراب موڈ کے ساتھ ریسٹورینٹ کے ڈائننگ ہال میں داخل ہوا تو دیکھا ایک میز پہ فراز صاحب بیٹھے ریسٹورینٹ کے مالکان کے ساتھ محو گفتگوں ہیں۔
یہ کب اور کیسے آئے۔۔ میں نے ایک ٹیم ممبر سے پوچھا
تھوڑی دیر پہلے مسز جعلی ڈراپ کر گئی ہیں انھوں ے جواب دیا
وہ خود نہیں  رکیں؟ آپ نے انھیں نہیں روکا؟
روکا تھا مگر وہ بولیں کہ علوی بھائی نے مجھے مدعو نہیں  کیا ہے،  ان سے کہہ دیجئے گا کہ میں ان سے بہت خفا ہوں۔
مجھے ان کے نہ رکنے پہ ایک کمینی سی خوشی ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں فراز صاحب سے نہیں ملا اور محفل میں شریک دوسرے شعراء سے باتیں کرنے لگا۔ لنچ کے بعد دیکھا کہ فراز صاحب میری میز کی  طرف بڑھے چلے آرہے ہیں۔
میں آپ کے ساتھ چلوں گا آپ کے گھر، انھوں نے مجھ سے ہاتھ ملا کے کہا۔
یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔ میں سوچ میں پڑ گیا، کیونکہ آج شام کو ہی مشاعرہ تھا گو کہ سارے انتظامات مکمل تھے پھر بھی بہت سی چیزیں دیکھنا ہوتی ہیں۔
چلیں؟۔۔ مجھے خاموش دیکھ کر انھوں نے پوچھا۔ آئیے مجھے آپ سے بہت سی باتیں بھی کرنا ہیں، یہ کہ کر  انھوں نے بےتکلفی سے میرا ہاتھ پکڑا اور دروازے کی طرف بڑھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشاعرہ شروع ہو چکا تھا۔ ہوٹل ابجار کا ثریّا  ہال  روشنیوں سے جگمگاتا ہوا پورا بھر چکا تھا تمام شعراء اسٹیج پہ آ چکے تھے اور فراز؟۔۔۔ جی ہاں حسب ِ توقع فراز صاحب غائب تھے۔ ناظم مشاعرہ اپنے منفرد انداز اور خوبصورت لہجے میں شاعروں کا تعارف کروا کے دعوتِ  کلام دے رہے تھے ،اتنے میں ایک ہلچل سی ہوئی دیکھا تو فراز ہال کے صدر دروازے سے داخل ہورہے ہیں اور ان کے ساتھ تھے وہی مسٹر اور مسز جعلی!

فراز سیدھے اسٹیج پہ آگئے اور دوسرے شاعروں سے بے نیاز بغیر سلام دعا کیے  بیٹھ گئے۔ مشاعرہ چونکہ ۲۳ مارچ کے پس منظر میں تھا اس لیے  اسکے دو ادوار تھے پہلے مختصر دور میں شاعر کو آزادی تھی کہ اگر وہ پاکستان کے حوالے سے کچھ پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔ میں فراز صاحب کے پاس گیا ان سے پوچھا کیا وہ اس حوالے سے کچھ پڑھنا پسند کریں گے؟
“میری تو ساری شاعری ہی پاکستان کے لیے ہے” ان کا مختصر سا جواب حاضر تھا۔
میں نے یہ جواب ناظم مشاعرہ تک پہنچا دیا۔ اس وقت مائیک پر صہبا اختر صاحب اپنا کلام پیش کر رہے تھے۔ صہبا صاحب اپنی  گرج  دار آواز ،جوش و  جذبے اور کلام کی طوالت کے لیے مشہور تھے۔
ادھر مشاعرہ جاری تھا ادھر ایک عجب تماشا  ہورہا تھا، یہ تماشا  بھی سن لیجیے  شاید بہتوں کو علم نہ ہو کہ اسٹیج پہ شاعر حضرات کیا کیا اور کیسے کیسے ڈرامے کرتے ہیں۔۔

اچھے شعر کی داد دینا اور بور کر نے والے شاعر کو ہوٹ کرنا مشاعرے کا اک تہذیبی جُز و ہے۔ برجستہ اور مہذب ہوٹنگ مشاعرے کو نیا رنگ دیتی ہے، اب ادھر یہ ہوا کہ اسٹیج پر شاعروں نے خود ہی ایک دوسرے پہ ہوٹنگ شروع کردی۔ ناظم مشاعرہ ہر شاعرکا تعارف اپنے چار مصروں سے کرتے اور ان کو دعوت ِ کلام دیتے۔ ان مصرعوں کو سامعین بیحد پسند کر کے داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے تھے۔ عالی جی بولے،میاں ظہور ساری داد تم ہی سمیٹ کر لے جاؤگے تو ہمارا کیا ہوگا؟۔۔۔
صہبا اختر کو تو اپنی طویل کلامی پر  اکثر شعراء کی ہوٹنگ کا سامنا تھا۔
“پڑھ جاؤ  ساری بیاض آج ہی پڑھ جاؤ، یہ دلاور فگار کا فقرہ تھا۔۔۔
یہ تو ٹشو پیپر رول کے اوپر اپنا کلام لکھ کے لاتے ہیں۔۔ کسی طرف سے یہ جملہ آیا،
“سر ہمارے لفافوں کا کیا ہوگا، ایک بہت ہی جونئیر شاعر نے جو پہلی بار کسی عالمی مشاعرے میں شرکت کر رہے تھے مجھ سے استفسار کیا۔۔
ہماری جیب تو بالکل ہی خالی ہے۔ دلاور فگار نے اپنی جیب الٹ کر دکھائی۔
ایک شاعر پہ کھلم کھلا یہ طنز کیا گیا کہ وہ شاعر نہیں ہیں کسی دوسرے شاعر سے لکھوا کے غزلیں پڑھتے ہیں۔
غرض انہی  چٹکلوں میں مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
مشاعرے کی ہائی لائٹ تو فراز ، عالی، طارق سبزواری اور دلاور فگار ہی رھہے۔ میں اور ساتھی مشاعرے کی کامیابی پہ بہت مگن تھے۔ شاعروں کو “اعزازیہ” رات کے کھانے سے قبل ہی ادا کردیا گیا کہ مزدور کو مزدوری اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردینی   چاہیے۔
اس عالم سرمستی میں جب ایک دوست نے مجھے یہ خبر سنائی کہ فراز صاحب نے اعزازیہ کا لفافہ یہ کہہ کے لوٹا دیا ہے  کہ اس کو چیریٹی میں دیدو تو میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔

سنیں جناب اصلی کہانی تو اب شروع ہوتی ہے۔ بڑی مشکل سے طوطے اپنے قابو میں کرکے میں نے دوست سے تفصیل معلوم کی۔
جی علوی بھائی ان کے ساتھ مسٹر اور مسز جعلی بھی تھے سارا پھڈا انہی  کا ہے۔ لفافہ انھوں نے ہی واپس کروایا ہے۔ ہمارے ساتھی  مسز جعلی سے سخت ناخوش تھے۔
“مگر فراز صاحب رسید پہ دستخط کر گئے ہیں” ہمارے دوست خوش ہو کے بولے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن گیارہ بجے مسز جعلی کا فون آیا، علوی بھائی  آپ نے بہت برا کیا۔۔
جی کیا ہوا بھابھی؟ میں نے انجان بن کر پوچھا۔۔
آپ فراز صاحب کو پیسے کیوں نہیں دے رہے  ہیں، انھوں نے چمک کر کہا۔۔
آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ فراز صاحب کو لفافہ نہیں ملا، میرے پاس تو ان کی دستخط شدہ رسید موجود ہے، میں نے بھی مکاری دکھائی،
دوسری طرف تھوڑی دیر کے لیے  خاموشی چھا گئی۔۔
نہیں نہیں۔۔۔۔فراز صاحب نے لفافہ میرے سامنے آپ کے ساتھی کو واپس کردیا تھا۔
مجھے اسکا علم نہیں ۔ میں جمی صاحب سے چیک کروں گا۔ یہ کہہ کر میں نے فون رکھ دیا
ایک گھنٹے بعد ٹیلیفون کی گھنٹی پھر بجی، دوسری طرف وہی آفت جاں موجود تھیں” آپ نے کیا کِیا علوی بھائی، پیسے بھجوائے فراز صاحب کو؟
آپ میری بات کروائیں فراز صاحب سے آخر وہ خود کیوں نہیں بات کرتے، آپ کیوں انکی ایجنٹ بنی ہوئی ہیں؟ میں نے جھنجھلا کر کہا
میرا یہ جملہ تھا یا بارود میں چنگاری۔۔

صرف مانع تھی حیا بند قبا کھلنے تک

پھر تو وہ جان حیا ایسا کُھلا ایساکُھلا۔۔۔!

آپ اتنے بڑے شاعر کو ذلیل کر رہے ہیں، وہ چٹخ کر بولیں۔۔
وہ بڑے شاعر ضرور ہیں مگر انہیں اپنے بڑے پن کا مظاہرہ بھی کرنا چاہیے، میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے لگتا ہے کہ مجھے   یہ مضمون یہاں پر اسی مقام پر ختم کر دینا چاہیے  کیونکہ فراز اب ہم میں نہیں ہیں۔ ان کی ساری خوبیاں اچھائیاں بڑا پن اور بشری کمزوریاں اب سب تاریخ کا حصہ ہیں۔ انھوں نے اردو شاعری میں بڑا انقلابی ترکہ چھوڑا ہے۔ اگر تاریخ نے ان کے ساتھ انصاف کیا تو ہو سکتا ان کا کچھ کلام نئی نسل کے تعلیمی نصاب میں شامل ہو جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خبر تحیر عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی، نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا۔۔۔۔

Facebook Comments

رفعت علوی
لکھاری،افسانہ نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply