• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مسٹر ٹوبی اور راکا پوشی کے سریلے گدھے۔۔۔۔مستنصر حسین تارڑ

مسٹر ٹوبی اور راکا پوشی کے سریلے گدھے۔۔۔۔مستنصر حسین تارڑ

میں تذکرہ کر رہا تھا آج سے ساٹھ برس پیشتر کے انگلستان کے شہر مانچسٹر کا جہاں 14باربرا سٹریٹ کے ایک بوسیدہ وکٹورین گھر میں میرا عارضی قیام تھا۔ گھر کے مالک میرے دور پار کے عزیز حلال گوشت کے سلسلے میں شہر سے باہر کسی کسان سے متعدد مرغیاں خرید لاتے اور انہیں کوئلے کے لیے وقف تہہ خانے کے اندھیرے میں روپوش کر دیتے۔ چوری چھپے پائیں باغ میں انہیں حلال کرتے اور ان کے بال و پر زمین میں دفن کر دیتے کہ جانوروں کو یوں ’’ہلاک‘‘ کرنا ایک قابل تعزیر جرم تھا۔ شومئی قسمت کہ ایسے کچھ بال و پر برابر کے گھر میں اڑ کر چلے گئے اور وہاں مقیم ایک بڑھیا نے کسی محکمے سے شکایت کر دی جس کے نتیجے میں ایک پکا صاحب ٹائپ گورا تفتیش کے لیے آدھمکا جس کا نام مسٹر ٹوبی تھا۔ میں نے ٹوبی صاحب کو بتایا کہ صاحب جی توبہ توبہ ہم تہذیب یافتہ لوگ ہیں بھلا ہم پرندوں وغیرہ کو بیدردی سے ہلاک کر سکتے ہیں۔ آپ کو غلط اطلاع ملی ہے۔ گورا صاحب نے سرسری طور پر ادھر ادھر جھانکا اور جب معذرت کر کے جانے لگا تو اس کی نگاہ تہہ خانے کے کھلے دروازے پر جا ٹھہری، اس کے اندر کیا ہے!‘‘اب میں اسے کیسے بتا سکتا تھا کہ اس کے اندھیروں میں درجنوں غیر قانونی مرغیاں بسرام کرتی ہیں۔ ’’اس کے اندر کیا ہونا ہے‘‘ میں نے ہکلاتے ہوئے کہا ’’کوئلہ وغیرہ ہے ،آتش ان کے لیے‘‘ میرا خیال ہے کہ مسٹر ٹوبی کو تہہ خانے میں سے کوئی کُڑ کُڑ کی آواز آئی تھی کہ وہ ذرا مشکوک ہو گیا۔ ’’کیا میں دیکھ سکتا ہوں!‘‘ میں کیسے انکار کر سکتا تھا’’جی بالکل…ویسے تہہ خانے میں اندھیرا بہت ہے۔ نیچے اترتی سیڑھیاں بھی مخدوش حالت میں ہیں‘‘ وہ دروازے کی جانب بڑھا اور مجھے یقین ہو گیا کہ ہمارا جرم فاش ہو جائے گا۔ مالِ مسروقہ مرغیاں وغیرہ پکڑی جائیں گی اور ہم دھر لیے جائیں گے۔ مسٹرٹوبی نے تہہ خانے کی تاریک سیڑھیوں پر احتیاط سے قدم رکھا، ہاتھ میں تھامے چھاتے کا سہارا لیا اور نابینائوں ایک ایک سیڑھی اترنے لگا۔ پانچویں سیڑھی پر ایک نہایت پلا ہوا مرغ اندھیرے میں استراحت فرما رہا تھا۔ ٹوبی کا پائوں اس نیم خوابیدہ مرغ پر جا پڑا اور مرغ نے ہڑبڑا کر،پھڑ پھڑاکر ایک ’’کڑاں‘‘ کی آواز بلند کی۔ مسٹرٹوبی کا ہیٹ کہیں جا گرا اور چھاتا ہاتھ سے چھوٹ گیا اور وہ خوفزدہ آوازیں نکالتا،لرزتا ہوا واپس آ گیا اور کہنے لگا ’’تہہ خانے میں جانے کیا شے ہے جو مجھ پر حملہ آور ہونے کو تھی۔ کیا ہے؟ آپ نے اس کی آواز سنی ہو گی۔ میں نے نہایت معصومیت سے کہا ’’کونسی آواز‘‘ حالانکہ اس مرغ کی کڑاں ’’ساتھ والے گھروں کے اندر بھی گئی ہو گی‘‘ اندر کیا ہونا ہے صاحب…آپ کو وہم ہوا ہے ’’مسٹر ٹوبی کو یقین تھا کہ تہہ خانہ آسیب زدہ ہے اور یہ عجیب دلدوز آواز کسی ناخلف بھوت کی تھی۔ وہ فی الفور لرزتا ہوا وہاں سے فرار ہو گیا اور پھر کبھی نہ لوٹا۔ وہ مرغ جس کی کڑاں نے مسٹر ٹوبی کو حواس باختہ کر دیا تھا اور ہمیں گرفتار ہونے سے بچا لیا تھا ہم سب کا ہیرو ہو گیا…اس کا نام مسٹر ٹوبی رکھ دیا گیااور اس کی گرانقدر خدمات کے عوض اسے کبھی حلال نہ کرنے کا متفقہ فیصلہ کر لیا گیا۔ مرغیاں باقاعدگی سے آتی رہیں اور ہماری ہانڈیوں میں جاتی رہیں لیکن مسٹرٹوبی ایک قومی یادگار کی مانند محفوظ کر لیا گیا۔ فرانس کے مرغ موریس نے حالانکہ کوئی ایسا کارنامہ سرانجام نہیں دیا تھا۔ محض صبح سویرے ککڑوں کڑوں کی صدائیں بلند کر کے ہمسایوں کی نیندیں حرام کی تھیں۔ اس کے باوجود اس کے حق میں پورے فرانس میں احتجاج جاری ہے کہ ہمارے مرغ کی آزادی اظہار پر پابندی نہ لگائی جائے، اسے بولنے دیا جائے کہ اس کی یہ آواز دیہاتی ماحول کا ایک لازمی جزو ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ جہاں شہر اپنے شوروغل اور بھیڑ بھاڑ سے پہچانے جاتے ہیں وہاں دور افتادہ دیہات مختلف پرندوں اور جانوروں کی آوازوں کی صورت ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مرغوں کی صبح سویرے اذانیں، مویشیوں کی ڈکراہٹ، بکریوں اور بھیڑوں کی منمناہٹ اور گدھوں کی ڈھینچوں ڈھینچوں گائوں کی صوتی تصویر کو مکمل کرتی ہیں۔ ان میں گدھے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ ان کی والہانہ پکار سے آس پاس کے دیہات کی گلیاں بھی گونجنے لگتی ہیں۔ کیا آپ گدھے کی آواز کے بغیر کسی گائوں کا تصور کر سکتے ہیں۔ جمہوریت کا تصور کر سکتے ہیں۔ کیا آپ گدھوں کی ڈھینچوں ڈھینچوں پر پابندی لگا سکتے ہیں، ہرگز نہیں۔ میں یہاں راکاپوشی کے بے مثال گدھوں کی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ کوہ نوردی کا دستور ہے کہ اگر راستے دشوار ہیں بلکہ سرے سے مفقود ہیں تو آپ اپنا سامان اٹھانے کے لیے پروفیشل پورٹرز کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور اگر منزل مقصود بے شک دشوار ہو لیکن وہاں تک کوئی پگڈنڈی وغیرہ جاتی ہو تو آپ خچروں یا گدھوں سے رجوع کرتے ہیں، یعنی ان کے مالکوں سے معاملات طے کرتے ہیں۔ راکا پوشی جسے میں برف کا معبد کہا کرتا ہوں، ریاست نگر میں واقع ہے اور اس کا شمار دنیا کی خوبصورت ترین چوٹیوں میں ہوتا ہے اور نگر میں ہی ایک مہربان شخص سید اسرار حسین، عجیب نام کا اوشو تھانگ ہوٹل چلاتا ہے، جہاں قیام کرنا گویا بہشت کے ایک ٹکڑے میں قیام کرنا ہے تو اس راکا پوشی کے بیس کیمپ تاگافیری تک کا سفر دو دن کا ہے اور وہاں تک نہ صرف ہم گئے بلکہ گدھے بھی گئے۔ گدھوں پر سے سامان اتار کر انہیں بیس کیمپ میں کھلا چھوڑ دیا گیا۔ اردگرد تاحدنظر برف کی سلطنت، راکا پوشی کی شانداری اور درمیان میں ایک گھاس بھرا میدان جہاں ہم خیمہ زن ہوئے۔ اسرار نے ہمارے لیے دنیا جہان کے پکوان تیار کیے۔ ہم ڈنر سے فارغ ہو کر اپنے خیموں میں چلے گئے کہ تھکاوٹ سے برا حال تھا۔ ابھی ہم نیند کی وادیوں میں اترنے کوتھے کہ باہر چراگاہ میں، چاندنی رات میں، برفانی تنہائی کی خاموشی میں پہلا گدھا بولا۔ اس نے ایک لمبی تان لگائی جس کے اختتام سے پیشتر دیگر درجن بھرے گدھے بھی اس کارخیر میں شامل ہو گئے۔ البتہ ہر گدھا کلاسیکی موسیقی کا ماہر تھا اور اپنا اپنا راگ الاپتا تھا۔ بے شک وہ ڈھینچوں، ڈھینچوں کرتا تھا لیکن کوئی بھی موسیقی کا رسیا کن رس رکھنے والا بتا سکتا تھا کہ یہ تو راگ مالکونس کا الاپ ہے اور یہ صاحب جو بہت لجاجت سے ڈھینچوں ڈھینچوں کر رہے ہیں راگ درباری کی گتھیاں سلجھا رہے ہیں۔ ہم موسیقی کے رموز سے ناواقف نہایت بیزار ہوئے۔ یہ گدھے قوالوں کی مانند سانس بھی نہ لیتے تھے مسلسل نغمہ سرائی میں مشغول تھے۔ چنانچہ رات بھر طالع بیدار نے نہیں، گدھوں نے سونے نہ دیا۔ صبح سویرے اسرار کو طلب کیا کہ برادر کیا آج رات بھی یہ گدھے اس طور نیندیں حرام کریں گے۔ کیا انہیں خاموش کرنے کا کوئی طریقہ ہے تو اسرار شرمندہ سا ہو کر بولا۔ سر کیا عرض کروں اس کے لیے گریس کا ایک ڈبہ درکار ہے۔ اس گریس کے برموقع اور برمحل استعمال سے گدھا ڈھینچوں نہیں کر سکتا اس کی پھونک نکل جاتی ہے۔ آگے آپ کی مرضی۔ بات فرانس کے موریس مرغ مسٹر ٹوبی سے شروع ہو کر راکاپوشی کے گدھوں تک آن پہنچی ہے اور کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ موریس مرغ کے علاوہ ہمارے گدھوں کو بھی بولنے کا حق ملنا چاہیے کہ یہی تو جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply