جنسی تعلیم :ہر بچے کا حق ہے۔۔۔۔۔کاشف حسین سندھو

واقعہ تازہ ہے مگر اپنی نوعیت کے اعتبار سے ہرگز نیا نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شہری ہونے کی حیثیت سے ایسی درجنوں وارداتیں اپنے اردگرد اور خاندان میں دیکھ سن چکا ہوں اور مجھے یقین ہے  کہ آپ سب بھی ایک دیندار معاشرے کی ان برکات سے فیضیاب ہو چکے ہوں گے۔ ہراسمنٹ کے ان کیسز میں خاندان کا فرد ہی مجرم ہوتا ہے، رشتے کی نوعیت ہر طرح کی ہو سکتی ہے، باپ  بیٹی ، چچی بھتیجا، یہاں تک کہ رشتے کے نانا اور چھ سال کے بچے کا معاملہ بھی جانتا ہوں ،دور نزدیک کے رشتے دار سب اس طرح کی واردات میں شامل ہو سکتے ہیں اور کزنز تے گل ای کوئی نئیں۔۔۔ یہ رشتہ تو اس کام کو سیکھنے کے لیے ہی گویا ایجاد ہوا ہے، جسے جنسی تعلق کو عملی طور پہ آزمانا ہے، اسے اس آسانی سے دستیاب سہولت سے آغاز کرنا مشکل نہیں لگتا ،بھلے کامیابی ملے نہ  ملے۔ اب یہاں واقعہ درج کرتا ہوں اس پہ بحث بعد میں کروں گا۔

ثنا (فرضی نام)کی عمر نو سال ہے وہ ایک کمبائنڈ فیملی سسٹم کا حصہ ہے، جس میں ایک ہی گھر میں تین بھائی اپنی اور اپنے دو چچاؤں  کی فیملیز کے ساتھ رہتے ہیں ،اسکے گھر  سے  دس گھر دور اسکے تایا کا گھر ہے  ،بچی ایک دن اپنے تایا کے گھر گئی تو گھر میں اسکے جوان کزن کے سوا کوئی نہ تھا ،جس نے بچی  سے زیادتی کرنے کی کوشش کرنے لگا، بچی نے مزاحمت کی ،شور مچایا تو لڑکا گھبرا گیا اور اسے چھوڑ دیا ثناء بھاگ کر اپنے گھر آ گئی۔۔۔

ایسے واقعات سے پاکستانی تاریخ بھری ہوئی ہے  لیکن اس واقعے کی خاص بات یہ تھی کہ ثناء کو اسکے  سکول میں دی گئی جنسی تعلیم نے اپنے ساتھ ہونے والی یقینی  زیادتی کی واردات سے بچایا زینب کیس کے بعد حکومت نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ  سکولز میں جنسی زیادتی سے بچاؤ  کی تعلیم دینا شروع کی ،جس میں ثناء نے یہ سیکھا کہ گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کیا ہے  نیز یہ کہ حملے کی صورت میں خود کو کیسے بچانا ہے ، جب کزن نے اسکے کپڑے اتارے  تو اسکا ذہن فوراً ردعمل دینے کو تیار ہو گیا۔۔۔ وگرنہ بچے اس موقع پہ عموماً سہم جاتے ہیں، اس نے کپڑے اتارے  جانے کے دوران ہی اونچا اونچا شور مچانا شروع کر دیا اسکے بعد اس نے حملہ آور کی کلائی میں دانت گاڑ دیئے اور جب کزن نے اسے بیڈ پہ پھینکا تو اس نے اپنے ناخنوں سے اپنے کزن کا چہرہ چھیلنے کی کوشش کی اور ساتھ میں شور مچانا جاری رکھا جسکا صلہ اسے مل گیا اور وہ بچ گئی، گڈ ٹچ بیڈ ٹچ کے ساتھ ساتھ شور مچانا دانت استعمال کرنا ناخنوں سے جسم کو زخمی کرنے جیسے حربے اسے جنسی تعلیم کے دوران سکھائے گئے تھے۔

اب فرض کیجیے  کہ وہ یہ نہ  کرتی تو کیا ہوتا ؟

ہونا یہ تھا کہ وہ سہم کر یہ سب ہوتا دیکھتی اور اس وقت شور مچانا شروع کرتی جب کزن صاحب جنسی عمل کے ابتدائی مرحلے میں داخل ہو چکے ہوتے ،ایسے موقع پہ کمزور حریف اور اپنی کامیابی کو سامنے دیکھ کر مجرم پہ وحشت طاری ہو جاتی   اور وہ ثناء کے منہ پہ ہاتھ رکھ کر مکروہ واردات انجام دینے میں کامیاب ہو جاتا ،اس واردات کے بعد جب مجرم کے سر سے ہوس کا نشہ اترتا تو اسے اپنا بھید کھلنے اور بدنامی کا ڈر ستانے لگتا کیونکہ بچی اسے جانتی تھی یہی وہ وقت ہوتا ہے  ،جب مجرم واردات کے شکار بچے یا بچی کو قتل کرنے کا بھیانک فیصلہ لیتا ہے  اور ہم ایک   اور بچی زیادتی کے بعد قتل کر دی گئی جیسی خبر اخبارات میں پڑھ رہے ہوتے ۔

یہ تو اس معاملے کا صرف ایک پہلو ہے، اب ہم دوسرا پہلو دیکھتے ہیں کہ مجرم جس کا نام میں کامران فرض کر لیتا ہوں کو بھی اگر بالغ عمر کی جنسی تعلیم دی گئی ہوتی تو ہم یہ توقع کر سکتے تھے کہ یہ واقعہ رونما نہ  ہوتا ،میں ہمیشہ ایک سوال اٹھاتا رہا ہوں کہ ہم ایسے واقعات میں صرف جرم اور مجرم کو ہی سامنے کیوں رکھتے ہیں جرم کی وجہ کا تجزیہ کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟۔۔۔ ہم نے اس انسانی جبلت سے جڑے جرم کو گناہ سے جوڑ کر زیادتی کی ہے، جنس بھوک جیسی جبلت ہے ، جب تک روٹی نہیں ملے گی بھوک ختم نہیں ہونے والی ۔ ہمیں سوچنا یہ ہے کہ ہم بلوغت کو پہنچتے ہی اس جبلت کا سامنا کرنے کا درست طریقہ اپنے سماج کے نوجوانوں   کو کیسے بتا سکتے ہیں ۔یہی طریقہ جنسی تعلیم برائے بالغاں میں شامل کیا جاتا ہے، آج کے دور میں جب ہر طرح کی معلومات ایک ٹچ کی دوری پہ ہیں اور جنسی جبلت کی انگیخت کا سامان کئی گنا بڑھ چکا ہے ، ہمیں اس تعلیم کو بھی فوراً درسگاہوں میں چھٹی جماعت سے شروع کر دینا چاہیے، اس تعلیم کا صرف یہی فائدہ نہیں ہو گا کہ آپ بچوں کے ساتھ زیادتی جیسے جرائم سے بچ سکیں گے بلکہ نوجوانوں میں بلوغت کے ساتھ ہی جسم میں رونما ہوتی تبدیلیوں کو جسے وہ نہیں سمجھ پا رہے ہوتے اور نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنے لگتے ہیں سے بھی بچ سکتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے اپنے طور پہ ایک ریسرچ کی ہے ، جس کے نتائج یہ ہیں کہ بچے اور بچیاں جب اپنا تعلیمی دور شروع کرتے ہیں تو پرائمری ایجوکیشن کے اختتام تک دونوں کے تعلیمی نتائج میں کچھ خاص فرق نہیں ہوتا لیکن جونہی دونوں جوانی کی سیڑھیاں چڑھنے لگتے ہیں لڑکیاں لڑکوں کو تیزی سے پیچھے چھوڑنے لگتی ہیں اور پچھلی دو دہائیوں میں پنجاب کے میڈیکل کالجز اور ہائر ایجوکیشن کے نتائج دیکھیں تو خواتین مردوں سے کافی آگے نظر آتی ہیں یہاں میں ایک نکتہ آپکے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جس سے شاید بہت سے دوست اتفاق نہ  کریں، میرا تجزیہ یہ ہے  کہ ہمارے نوجوان بلوغت کے دوران مناسب رہنمائی  نہ ملنے کے باعث پیدا ہوئے نفسیاتی مسائل کے باعث تعلیم پہ اپنی توجہ کھو بیٹھتے ہیں، انہیں باہر کی دنیا میں ایک سے زیادہ طرح کے جنسی مسائل  کا سامنا کرنا پڑتا ہے لڑکے لڑکیوں کی نسبت جنسی زیادتی کے لیے آسان شکار ہیں بہت سے لڑکے جنسی زیادتی کا شکار بننے کے بعد اچھے طالبعلم سے بری کارکردگی کے حامل طلباء بنتے دیکھے گئے ہیں وہ گھر سے باہر میسر ہوتے ہیں بطور مرد ہونے کے انہیں گھر سے باہر کی ذمہ داریاں بھی سونپی جاتی ہیں جبکہ خواتین کو گھر کی چاردیواری کا تحفظ میسر ہے، دوم ہماری معاشرتی تربیت ایسی ہے  کہ لڑکیاں جنسی لٹریچر موویز اور دوسرے انگیخت کرنے والے مواد سے دور رہ پاتی ہیں ۔ان پہ حیا کے تصورات کا معاشرتی دباؤ بھی ہے، سو وہ ان معاملات سے دھیان بچا کر اپنی توجہ تعلیم پہ مرکوز کر پاتی ہیں اگرچہ  یہ لڑکیوں کے بہتر کارکردگی دکھانے کی وجہ کا صرف ایک پہلو ہے  اور بھی عوامل ہو سکتے ہیں لیکن میری دانست میں یہ بھی ایک اہم فیکٹر ہے  سو ہمیں بچوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی جنسی تعلیم کو بھی فوری طور پہ درسگاہوں میں رائج کرنا چاہیے اسکی اشد ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply