بلوچی میوسیقی کی دنیا سریلی اور پُرسوز آواز کا جادو جگانے والوں سے زرخیز اور بھری پڑی ہے. غزل اور گیت کی گائیکی کے منفرد اسلوب ہوں یا بلوچی کلاسیکل کا فن اس میں کانوں میں رس گھولنے والوں کی ایک لمبی فہرست ملے گی، ان میں ایک نام استاد امام بخش مستانہ کا بھی ہے.
امام بخش مستانہ کے آباؤ اجداد کا بنیادی تعلق ضلع کیچ کے علاقے کلاتک سے ہے لیکن ذریعہ معاش کے سلسلے میں مستانہ کے والد کراچی چلے گئے جہاں انہوں نے شاہ بیگ لائن میں مستقل سکونت اختیار کر لی. استاد امام بخش مستانہ کا وہاں 1957 میں جنم ہوا.
جب استاد مستانہ سن بلوغت کو پہنچے تو انہوں نے کراچی پورٹ پر مزدوری کی جہاں مستانہ گندم کی بوریوں کی سلائی کا کام کرتے تھے. مستانہ بنیادی طور پر ان پڑھ تھے لیکن ان کو بلوچی میوزک اور ادب سے گہرا شغف حاصل رہا. ان کا زیادہ وقت بلوچی زبان کے ادیبوں مرحوم جی آر ملا اور علی عیسٰی کے ساتھ گزرا ہے اور ان کی فرمائش پر استاد امام بخش مستانہ غزل گایا کرتے تھے.
بلوچی میوزک سے دلچسپی رکھنے کے پیشِ نظر ایک دن جی آر ملا اور علی عیسٰی ان کو بلوچی زبان کے معروف ادیب و محقق سید ظہور شاہ ہاشمی کے پاس لے گئے. استاد مستانہ کے مطابق یہ غالباً 1970 کا زمانہ تھا. سید ظہور شاہ ہاشمی نے مستانہ کی آواز سننے کے بعد اس کی پذیر آئی کی. جس کے بعد انہوں نے علی عیسٰی اور جی آر ملا کو مشورہ دیا کہ انہیں استاد شفیع بلوچ کے پاس لے جائیں، اس نوجوان میں گلوکار بننے کی صلاحیت موجود ہے.
سید ظہور شاہ ہاشمی کے کہنے پر علی عیسٰی اور جی آر ملا مستانہ کو استاد شفیع بلوچ کے پاس لے گئے. استاد شفیع بلوچ نے ایک بلوچی غزل جو استاد دینارزئی نے کمپوز کی تھی، مستانہ سے سنانے کے لیے کہا، اس غزل کو گانے کے بعد مستانہ کی آواز نے استاد شفیع بلوچ کو بے حد متاثر کیا جس پر استاد شفیع بلوچ نے مستانہ کے ہاتھ پر دھاگا باندھ کر اسے باقاعدہ اپنی شاگردی میں لیا.
استاد مستانہ نے باقاعدہ طور پر استاد شفیع بلوچ سے میوزک کی کلاس لی اور بہت سے راگ سیکھ لیے. مستانہ نے جب باقاعدہ گلوکاری شروع کی تو اُنہوں نے استاد شفیع بلوچ کے کمپوز شدہ گیت اور غزلیں گائی جبکہ استاد مستانہ نے بیشتر غزلیں اپنی جانب سے کمپوز کر کے بھی گائی ہیں. اس کے علاوہ مرحوم استاد دینار زئی کی کمپوز شدہ غزلیں بھی مستانہ کی آواز میں آج بھی گھومتی ہیں.
امام بخش کو مستانہ کا لقب کیسے ملا؟ اس پر استاد امام بخش مستانہ کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں امام بخش نام کے چار شاگرد استاد شفیع بلوچ سے میوزک سیکھ رہے تھے جس کی وجہ سے ایک امام بخش کو پکارنے میں دقت ہو رہی تھی جس پر فیصلہ کیا گیا کہ میرے نام کے ساتھ مستانہ کا لقب لگایا جائے.
استاد مستانہ نے زیادہ تر غزلیں جی آر ملا کی گائی ہیں. استاد مستانہ نے جو بھی غزلیں گائی ہیں وہ زیادہ تر دومی کال راگ میں ہیں جبکہ ان کا پسندیدہ راگ کیترا راگ رہا ہے.
استاد امام بخش مستانہ نے متعدد مشہور غزلیں سنائی ہیں جس میں کریم دشتی کی یہ غزل “پن ءُ مُزواک ءِ ما کولیگاں تو بازار مرو” اور ممتاز یوسف کی یہ غزل کہ “تئی وھدءِ زھیر زیراں، دل ءَ را درانی تیر زیراں” کیترا راگ میں گاکر شہرت حاصل کی اور دیگر بلوچی زبان کے بے شمار گیت اور غزلیں مستانہ کے گلے سے نکل کر میوزک کے دیوانوں کو تسکین پہنچاتی رہی ہیں.
استاد امام بخش مستانہ نے جو گیت اور غزلیں اپنی سریلی آواز میں گائی ہیں وہ آج بھی موسیقی کے مداحوں کو محظوظ کر رہی ہیں، چی جائیکہ کہ اگر آج ان کو دوسرے گائیک گا کر سنائیں مگر ان پر مستانہ کے فن کی چھاپ لگی ہے.
بلوچی کے اکثر گائیک پیران سالی میں گمنام زندگی گزارتے ہیں کیونکہ ڈھلتی عمر کے ساتھ ان کے آواز کی وہ اہمیت نہیں رہتی جس کے بعد گمنامی، بھوک افلاس اور غربت ان کے اور ان کے اعل و اعیال کا مقدر بن جاتی ہے لیکن مستانہ قسمت کے دھنی ہیں کہ وہ اپنے فن کی بدولت سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب رہے.
استاد مستانہ کچھ سال قبل ملازمت سے ریٹائرڈ ہوگئے ہیں لیکن اس وقت شدید علیل ہیں اور 500 کوارٹر میں اپنے گھر پر بیماری کی حالت میں اپنی زندگی کے باقی ایام گزار رہے ہیں. استاد مستانہ کو دل کا عارضہ لاحق ہے جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہیں.
استاد مستانہ بلوچی غزل گائیکی کے میدان میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں وہ نہ صرف بطور ایک گائیک اپنا لوہا منوا چکے ہیں بلکہ وہ بلوچی موسیقی میں ایک استاد کے طورپر جانے جاتے ہیں.
استاد امام بخش مستانہ نے 40 سال تک اپنے فن کے ذریعے اپنی زبان اور ادب کی آبیاری کا فریضہ سرانجام دیا ہے جو بلوچی موسیقی میں سدا بہار اور لیجنڈ فنکار کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن بحیثیت بلوچ قوم یہ ہماری فطری بے حسی کا مظہر ہے کہ ہم اپنی لیجنڈری شخصیات کی قدر نہیں کرتے، ہم قدر دان ہونے کی بجائے ابن الوقت ہونے کے رویوں کا شکار ہیں.
بلوچی گائیکی کے میدان میں بہت سے گلوکاروں نے اپنے فن سے بلوچی ادب اور زبان کو جلا بخشی ان میں استاد مستانہ بھی ایک ہیں لیکن جب ان کا دور ختم ہوتا ہے تو کوئی بھی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا. سرکار سے تو گلہ اپنی جگہ لیکن اپنی قوم بھی ان سے بیگانہ رہتی ہے.
استاد امام بخش مستانہ نے اینی گلوکاری کے دوران 8 گانوں کے البم ریکارڈ کرائے ہیں جس کے لیے حاجی ہانل نے معاونت کی ہے.
استاد مستانہ سمیت دیگر بلوچ گلوکار بلوچی ادب، زبان اور ثقافت کی پہچان اور اثاثہ ہیں. ہمیں ایسے اثاثوں سے اپنا ناطہ برقرار رکھنا ہے تاکہ ان کی دل جوئی اور حوصلہ افزائی ہو سکے.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں