فنکار اور ایمانیات۔۔۔۔ساجد محمود خان

ہم کسی انسان کے فن ، روزگار یا شوق سے کسی کے ایمان کا اندازہ نہیں لگا سکتے اور نہ ہی آج تک کوئی ایسی مشین یا آلہ ایجاد ہوا ہے جس سے کسی کے ایمان کو ماپا جا سکے۔  ماہ رمضان سے کچھ دن پہلے پنجاب اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی تھی جس کے مطابق کوئی بھی فنکار رمضان ٹرانسمیشن میں حصہ نہیں لے سکتا کیونکہ پنجاب اسمبلی کے حیرت انگیز ایجاد کردہ فارمولے کے ذریعے انہوں نے یہ معلوم کر دیا ہے کہ فنکار انتہائی نچلے درجے کے مسلمان ہیں اور اس فارمولے کی روشنی میں انہوں نے قرارداد کو متفقہ طور پر منظور بھی کر لیا۔ اس منظور شدہ قرارداد میں رمضان ٹرانسمیشن کے حوالے سے فنکاروں کے رمضان پروگرام پر پابندی عائد کرنے کی سفارشات پیش کی گئی اور الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی کرنے والے سرکاری ادارے ‘پیمرا کو پابند کیا  گیا  کہ وہ تمام ٹی وی چینلز کو پابند کرے کہ شوبِز میں کام کرنے والے لوگوں کو رمضان ٹرانسمیشن میں ہر گز شامل نہ کیا جائے۔اس قرارداد کا واضح طور پر یہی مطلب لیا جاسکتا ہے کہ فنکار رمضان المبارک کے مہینے میں اسلام پر کسی قسم کی گفتگو نہیں کر سکتے ۔

اب خدشہ یہ ہے کہ کہیں  ممبران اسمبلی اس فارمولے کا دائرہ کار مزید نہ بڑھادیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس فارمولے کے تحت وہ مختلف کھیلوں کے کھلاڑیوں کے ایمان کے درجات ماپ کر اور ان کو بھی نچلے درجے کا مسلمان نہ ڈکلیئر کردیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہماری اسمبلی میں اس طرح کی قانون سازی ہورہی ہے جیسے زمانہ جاہلیت میں لوگ ایک دوسرے پر سچے جھوٹے بہتان لگایا کرتے تھے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھا کر معاشرے سے جدا کرتے تھے۔ اس ملک کے سیاستدانوں نے اتنا بھی نہ سوچا کہ جب ملک میں اسمبلی جیسے فورم پر کسی کو گھٹیا سمجھاجائے گا تو وہ خود  اپنی اور عوام کی نظروں میں کس قدر گر جائے گا۔ میں اب اس کشمکش میں ہوں کہ کبھی تو فنکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے  انہیں صدارتی اعزازات سے نوازا جا تا ہے مگر کچھ دنوں کے بعد ان ہی  فنکاروں کو نچلے درجے کا مسلمان ہونے کا باقاعدہ سرٹیفیکیٹ دے دیا جاتاہے۔ جس پر واضح لکھا ہوا تھا کہ آپ اسلام کے بارے میں کوئی اچھی بات نہیں کر سکتے ہیں۔ میں اکثر یہ بات دہراتا ہوں کہ جب اس ملک میں فنکار کو گھٹیا اور کم درجے کا مسلمان تصور کیا جائے گا تو اس ملک میں فنکار کہاں سے پیدا ہوں گے ، کون اپنی زندگی فن کےلیے   وقف کرے گا۔

اب اگر دیکھا جائے تو باقاعدہ نومنتحب اسمبلی کے اراکین کو بھی اپنی رائے دینے سے روکنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ یہ تحریر میں نے اس وقت ادھوری چھوڑ دی تھی جب فنکاروں پر پابندی کی بات کی گئی تھی اور اس وقت بھی میرا یہی موقف تھا کہ مستقبل میں اس پابندی کا دائرہ کار مزید بڑھا کر  اور لوگوں پر   بھی پابندی عائد کی جائے گی اور آج ایسا ہی لگتا ہے کہ اس پابندی کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ اس بات سے مجھے جناب احمد فراز مرحوم کے چند اشعار یاد آرہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو
ہم پالنہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں۔

Facebook Comments

ساجد محمود خان
۔ سیاسیات کا طالب علم۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply