حنّان ۔۔۔۔جاویدخان

اَندازاً کوئی اٹھارہ برس ہوئے، اُدھر کی بات ہے۔میں نے ریڈفاونڈیشن سکول سون ٹوپہ  تدریسی فرائض سنبھالے۔  آس پاس  کے بچے شا م ڈھلے تک میرے گھر کے صحن میں براجمان ہوتے۔تدریس میں نئے نئے دن تھے۔سکول ریڈ کے زیر اہتمام تھا اور ریڈ خطے کی سب سے بڑی تعلیمی تنظیم ابھی نہیں بنی تھی۔ریڈ اساتذہ کے لیے نئی نئی تربیتی ورکشاب کاانعقاد آئے روز کرواتی رہتی تھی۔شوق جوان تھا،جب کوئی پیشہ ضرورت کے علاوہ شوق بھی ہو،تو کام کرنے کی طاقت دو آتشہ ہو جاتی ہے۔سکول قصباتی شہر کے کونے پر تھا۔سب اساتذہ مقامی ہوتے تھے۔دوہائی سکول پڑوس میں ہونے کے باوجود،اس پرائمری سکول کی تعداد تین سو کے قریب قریب تھی۔چھٹی کے بعد میں واحد ٹیچر تھا جو بطور اتالیق،خدمات سر انجام دیتا تھا۔ایک دن پڑوس کے گھر میں ایک مہمان بچے سے میرا تعارف ہوا۔دُبلا پتلا اور شرمیلہ۔۔مزاج میں جیسے شرارتیں سوئی سوئی رہتی ہیں،جو کبھی بھی بیدار ہوجائیں گی۔معلوم ہوا یہ تبسم باجی کا  بڑا بیٹا”حنان“ ہے۔حنان ننھیال اور دودھیال کے درمیان پلتا،بڑھتا،پڑھتا اور گھومتا رہا۔

وقت کا رکنا محال ہے۔اس پتلے سے بچے کے چہرے پر داڑھی اور نوک دار مونچھیں نکل آئیں۔درمیانہ قد، اورشرمیلہ پن جو کسی اجنبی کے سامنے برقرار رہتا۔گزرتے لمحوں نے بچپن کی معصومیت اتار کر لڑکپن کی سادہ مزاجی اُسے اوڑھادی تھی۔ریڈ فاونڈیشن نے راولاکوٹ میں کالج کھولا تو یہ سادہ مزاجی کی چادر اوڑھے ہمارے پاس سال اول میں پڑھنے چلاآیا۔میں دیکھتا رہا کہ کسی دن اس کی سوئی ہوئی شرارتیں جاگ جائیں۔مگر نجانے اس ۹۱ سالہ لڑکے نے انھیں کون سی گولی کھلا دی تھی کہ وہ جاگنے کانام ہی نہ لیتیں تھیں۔ایک اچھی مہران کار اس کے پاس تھی۔وہ اسی پر کالج آتا تھا۔ساتھ اپنے دوستوں کو بھی بٹھاکر لاتا۔کلاس میں وہ ایک عام طالب علم تھا۔سال اول کارزلٹ آیا۔ریڈ کی ریجنل ٹیم گزٹ کے ساتھ آموجود ہوئی،یہ کالج کاپہلا رزلٹ تھااور شان دار تھا۔طلباء کی خوشی دیدنی تھی۔وہ کلاسوں سے باہر نکل آئے۔اچھلنے کودنے لگے اور ایک دوسرے سے بغل گیر ہونے لگے۔یہ ان کی تعلیمی کامیابیوں کا گیارہواں سال تھا،جو انھیں گیارہویں مرتبہ کامیاب کر گیا تھا۔کالج کاسارا عملہ پُرجوش تھا۔انھیں توقع سے بڑھ کر کامیابی ملی تھی۔تمام طلباء کالج کی عمارت کے سامنے والے  میدان میں اکھٹے ہو گئے۔ریجنل ڈائریکٹر عمیق احمد صاحب نے ایک چھوٹی سی تقریر کی۔ان کی کامیابی پر انھیں مبارک باد دی۔وہ سب بضد تھے کہ اس خوشی میں کچھ چھٹیاں کی جائیں۔حنان ان سب کے بیچ کھڑا تھا۔اس نے طلباء کی طرف سے ریڈ کالج زندہ باد کا نعرہ بلند کیا کالج کے تمام طلباء نے نعرے کاجواب دیا۔نعرہ کئی بار لگایا گیا۔اس کے ساتھی جو پُرجوش تھے،جواب دیتے رہے۔کچھ دنوں بعد چند چھٹیاں کرنے کا وعدہ کیا گیا۔کچھ طلباء کی آنکھوں  میں آنسو تھے۔

درس گاہیں مادر علمی ہوتی ہیں۔ان کی گود میں بیٹھ کر سب رومانس جاگتے ہیں۔خواب زندگیوں میں زبردستی گھس آتے ہیں۔کچی عمریں خوابوں اور ان رومانسوں کے سیلاب کو روک نہیں پاتیں اور زندگیاں ان کی مٹھاس کی،ناچاہتے ہوئے بھی عادی ہو جاتی ہیں۔کسی جیون ساتھی کاخواب،پرتعیش زندگی کاخواب،بہت کچھ جیتنے کاخواب،انقلاب،کشمیر میں رہنے والوں کا اپنے وطن کی آزادی کا خواب۔۔گیارہواں سال گزر گیا اور بارہواں آ کر گزرنے لگا تھا۔اس سارے عرصے میں یہ سب خواب میرے کالج کو گدگداتے رہے۔ہاں سنہرے مستقبل کاخواب زیادہ کچوکے لگاتا رہتاہے۔یہ خواب ہر درس گاہ کی طرح اس کالج میں روز ہی پھیرے لگاتا تھا۔جاڑا آگیا،رولاکوٹ میں جاڑا سخت ہوتا ہے۔دوسرا ہمارا کالج جہاں پر واقع تھا،ایک ٹھنڈے اور کالے پانی کی ندی اس کے پاس سے بل کھاتی گزرتی ہے۔دسمبر،جنوری،فروری اور پھر مارچ ۔۔۔سخت کہر وادی اور خاص کر اس جگہ کو ڈھانپ لیتا، منجمند موسم میں بھی خوابوں کی حدت کم نہ ہوئی۔حنان انور اوراس کے ساتھیوں نے بارہویں سال بھی ایک بھر پور او ر کالج کی آخری کامیانی اپنے نام کرلی۔وہ سال بھر خاموش مسکراہٹیں لیے کلاس میں بیٹھا رہا۔سبق نہ یادکرنے پر ڈانٹتا تو تب بھی مسکرا دیتا۔

میں اردو کامضمون پڑھاتا تھا۔اس کے ساتھی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مزید کامیابیوں کے لیے چلے گئے۔زیادہ نے یونیورسٹیوں کو ترجیح دی۔کچھ نے لیفٹیننٹ کا امتحان پاس کیا۔میرپور بورڈ نے حنان کی مارکس شیٹ نہیں بھیجی یا پھر وہ گم ہوگئی۔ایک سال اس نے فارغ گزار دیا۔کالج انتظامیہ نے اس کی مارکس شیٹ منگوائی۔وہ اسے لینے کالج گیا تو واپسی پرنسپل عمرعلی خالق صاحب نے اسے الوداع کیا۔اچانک پہلی دفعہ اس کی سوئی ہوئی شرارت جاگی۔اس نے عمر علی خالق صاحب سے کہا۔سر۔۔۔۔۔! آپ نے یہ کیا گاڑی رکھی ہوئی ہے۔؟اس طرح کی (اپنی مہران کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)گاڑی رکھا کریں مزید کچھ شرارتی وطنزیہ جملے کہے۔عمرعلی خالق طلباء سے دوستانہ برتاو کے لیے مشہور ہیں۔ وہ مذاقا ً مارنے کے لیے دوڑے،یہ بھاگ کر دروازے سے نکل آیا۔یہ اس کی اپنے اساتذہ سے آخری ملاقات تھی۔۳۲ جون ۹۱۰۲ ؁ ء برو ز اتوار وہ اپنے بڑے ماموں کو بائیک پر گھر چھوڑکر واپس جارہا تھاکہ گھر کے قریب ایک کار اچانک کچے سے نکل کر بیچ سڑک آگئی۔شام ڈھل رہی تھی۔راولاکوٹ پر سیاہی ماہل خوف زدہ اندھیرا اتر رہا تھا۔حنان کی رفتار زیادہ تھی۔اچانک ایک کار کو اپنے راستے میں دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔بریک نے کام نہ کیااور وہ سیدھا کار کو جالگا۔اسے ہسپتال لا یا گیامگروہ دم توڑ چکا تھا۔اس کی گردن کی ہڈ ی بری طرح متاثر ہوئی تھی۔دھان پان سا لڑکا اپنی شرارتوں کو جگائے بغیر ہی سو گیا۔سوشل میڈیا پر حادثے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔اس کا جنازہ گھر لایا گیا تو اس کے دوست،سکول اور کالج کے ساتھی دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔جو بے ہوش ہوتے،ہوش میں آکر پھر رونے لگتے۔رات بارہ بجےکے بعد جب غسل دینے کے لیے اس کی چارپائی اٹھائی گئی،تب اس کی ماں جو،اَب تک سکتے میں تھی،اچانک پھٹ پڑی۔ماں کی دھاڑوں سے سیاہ رات کا کلیجہ پھٹ رہا تھا۔کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اشک بارنہ تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیازندگیپر آسمانی طاقتوں کا قبضہ ہے؟کیا آسمانی طاقتیں معصوم زندگیاں کھا لیتی ہیں؟آسمانی طاقتیں تو خالق ہیں۔وہ حنان انور جیسے شرمیلے،خوب رو چہرے تخلیق کرتی ہیں۔زندگی تو خود ان کی پیدا کردہ ہے۔اس جیسے لاکھوں معصوم ہماری گود میں ڈالتی جاتی ہےمگر ہم انھیں حادثوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ان سے بم باندھ دیتے ہیں،ان میں مذہبی ہسٹریا بھر دیتے ہیں۔ان کے خوابوں کا باغ اجاڑ دیتے ہیں۔آسمانی طاقتیں کتنی مظلوم ہیں؟ کیا کوئی عدالت ایسی ہے جو آسمانی طاقتوں کو انصاف دے سکے؟انھیں اس الزام سے بری کردے کہ وہ زندگی چھیننے کے لیے حادثوں کی ذمہ دار ہیں۔اگر واقعی کوئی آسمانی طاقت سخت گیر ہے۔ وہ نالائق،جابر اور گناہ گاروں کو اچک لیتی ہے تو اسے ضرور حنان اور اس جیسے سیکڑوں معصوموں کی زندگی چھیننے والوں کا احتساب کرنا چاہیے۔احتساب اداروں کا،قانون کا،جاہلوں کا اور زندگیوں سے کھیلنے والوں کا۔جس معاشرے میں جہالت اس قدر بھری ہو کہ ہر جائز و ناجائز خدا کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہو،لاپروائی اور لاقانونیت کی بھر مار ہو،ایسے معاشروں میں اجل بھی کتنی بے بس ہو کر روتی ہو گی۔کیوں کہ حنان انور جیسے سیکڑوں پھول زندگی کے باغ سے تو ڑ توڑ کر مسلے جاتے ہیں اور بڑی ڈھٹائی سے خدا اور اجل کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ تخلیق کار کتنا دکھی ہوتا ہو گا۔۔جب اس کی تخلیق (زندگی) بڑی بے رحمی سے ختم کر کے اسی کے ذمہ ڈال دی جاتی ہے۔اس کا جنازہ راولاکوٹ سپورٹس کمپلیکس میں پڑھا گیا۔راولاکوٹ میں کسی نوجوان کا اب تک،یہ سب سے بڑا جنازہ تھا۔اس کا پورا کالج اس کی چارپائی کے اردگرد کھڑا تھا۔وقت کی اپنی تاریخ ہوتی ہے۔کئی اداس لمحے وقت کی تاریخ میں روشن ہیں۔یہ لمحے بھی سخت اداس تھے۔وقت نے ان لمحوں کو بھی اپنی اداس البم میں محفوظ کر لیا ہے۔حنان ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ ر ہے گا۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply