من قلندر ۔۔۔۔بینا گوئندی

 صوفی کسی خاص حلیے کا نام نہیں یہ تو ایک کیفیت روحانی ہے  ،جو انسان کو اس کے اپنے اصل سے پہچان اور اسے اپنے خالق تک رسائی کا ذریعہ بہم پہنچاتی ہے۔ ہر صوفی دولتِ علم کا متلاشی ہی نہیں ہوتا بلکہ علم ہی اسکا خاصہ ہوتا ہے لہذا اگر یوں کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ ہر صوفی عالم ہوتا ہے مگر ہر عالم صوفی نہیں ہو سکتا۔ صوفی تلاشِ راہِ حق کا ایسا مسافرہے جو درجہ بدرجہ منازل طے کرتے کرتے مجدد و ولی ایسے تختِ روحانیت پر براجماں ہو جاتا ہے۔ اس سفرِ حق کی کوئی انتہاُ نہیں۔ اس سفرِ احسن کی ہر منزل منتظرِ دیدار ہوتی ہے اور انوار و تجلیات کا ایک نیا پہلو منکشف کرتی چلی جارہی ہوتی ہے۔ زلفِ محبوب کے پیچ و خم جیسے ہی کھلتے ہیں تو کبھی رات کی سیاہی نور کی روشنی میں گندھ جاتی ہے تو کبھی دن کی روشن تمازت گھنی بدلی بن کر سایہ فُگن ہو جاتی ہے۔ غرضیکہ ہر کھلنے والا پیچ اک اور نئی تجلی دکھاتا ہے اور منزل ایک اور قدم آگے بڑھ جاتی ہے۔

صوفیاء کرام کا ایک اور ظاہری پہلو انکے معتقد ہوتے ہیں۔ جو ان سب منازلِ تجلیات کا حال سننے کو بیتاب اس حلقۂ احباب میں جڑتے ہیں اور صوفی منازلِ درجات کے حصول کی لَو میں مگن غوث، قطب، ابدال، مجدد، کی منازل سے ولایت کے کشفِ عجائبات سے رواں دواں ایک مبلغ بن جاتا ہےاور یوں وہ اسی پیغامِ حق کو عام لوگوں تک پہنچانے کےلیے  تبلیغِ دین کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ سفر ہر صوفی و ولی کا خاصہ  ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی ہمیں صوفیاء و اولیاء کرام کی ایک طویل فہرست ملتی ہے   جن کی یہاں آمد نے اس خطہِ محروم کو سرشار کیا۔ معین الدین چشتی، قطب الدین بختیار کاکی, بابا فریدالدین گنج شکر ،صابر کلیاری, نظام الدین اولیا, علی ہجویری, لعل شہباز قلندر, شمس الدین تبریزی , بہاؤ الدین زکریا اور ان کے کشف سے پھوٹنے والے چشمے آج بھی سوکھے دلوں کی آبیاری کر رہے ہیں۔ ایک اور سلسلہ جو ان سب کے بعد کی قطار میں صف آراء ہے ، وہاں سلطان باہو, پیر وارث شاہ, بابابلھے شاہ, مادھو لعل حسین اور بابا گُرو نانک اور ان کے ہزاروں پروانے اس شمعِ رُشد و ہدایت کو محبت و یگانگت کے دائمی پیغام سے مزین کیے  ،ایک ہراول دستے کی مانند شفق پہ لالی بکھیرتے نظر آتے ہیں۔

ایسا ہی ایک سلسلہ رُشد و ہدایت پیامِ محبت کی شمع لیے اندلس کے سنہری دور سے نمودار ہو کر یورپ اور مغربی دنیا کو نور و تجلی پہنچانے امریکہ تک جا پہنچتا ہے  ۔ جس طرح علی ہجویری کی کشف المحجوب نے ایشیا میں پیامِ حق, کشف و معجزات سے مزین تزکیہ نفس کی تبلیغ کی اسی طرح مغربی دنیا میں اندلس سے القشاری کے رالتہ القشار نے یہ کام کیا اور اس زمانے میں اپنے اس دور کے صوفیاء و اولیاء کے کشف و کرامات کو متعارف کرانے کا سہرا اپنے سر باندھا, جن میں امام ابن العربی جیسی عظیم ہستیاں بھی شامل ہیں۔ یورپ و مغربی دنیا بشمول امریکہ میں جہاں اندلسی صوفیائی تاثیر وہاں پہنچی، وہیں افریکی اثر انگیزی نے اپنا شعور بیدار کیا اور اہلاج محمد کی تنظیم نیشن آف اسلام کے نام سے مبلغ بنی۔ ملکم میکس اور محمد علی ایسے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے اور اس شمع کے دائمی داعی  بن کر آج بھی یہ شمع روشن و قائم ہے ۔ ستر کی دہائی  میں جہاں ہِپی موومنٹ نے مغرب کو گھیرا تو وہیں ایشیا  ئی صوفیاء کا اثر امریکہ تک پہنچ گیا۔

ایسا ہی ایک نام باوا محی الدین کا ہے جن کا اصل نام محمد رحیم باوا محی الدین ہے ۔ باوا جی کا مسکن سری لنکا اور زبان تامل تھی۔ وہاں  کے لوگوں نے اسی جنگل میں پیر عبدالقادر جیلانی کے نام خانقاہ بنا رکھی تھی جیسے وہ ان کا مزار کہتے تھے باوا جی اسی مزار کے متولی تھے اور اسی کی مناسبت سے قادری کہلاتے تھے۔ ان کے نام سے ایک فیلو شپ امریکہ کے شہر فلاڈلفیا میں قائم کی گئی۔ اس کی معلومات کے مطابق باوا جی سری لنکا کے شہر جفنا کے مضافاتی جنگلوں سے ایک دن نمودار ہوئے  اور اپنے گرد حق کے پیاسوں کی بھیڑ پائی اور پھر ان سب کو اپنے چشمۂ ہدایت سے حقِ پہچان اور وابستگیِ حق کے ساتھ ایثار و قربانی, پیار و محبت کا لازوال پیغام پیش کیا جو ان کے دل میں گھر کر گیا۔ انہی  کے متلاشیِ حق میں ایک یپی گروپ بھی تھا۔جناتھن نامی ایک یہودی المذہب شخص باوا جی کی روحانیت کے سمندر میں ایسا غوطہ زن ہوا کہ وہ مشرف بحق ہو کر باوا محی الدین کو اپنے ساتھ امریکہ لے آیا اور یہاں سے ایک چشمۂ نور کی ایسی دھاریں پھوٹیں کہ آج تک باوا محی الدین کا نام لوگوں کے لیے مینارۂ نور ہے اور داخلِ حق کا بابِ نور بن کر سوکھے شجروں کی آبیاری کر رہا ہے  ۔ انکا مزار مرکزِ تجلیات ہے   اور عقیدت مندوں کو باوا جی کا حق و صداقت پر مبنی پیغام جاری رکھے ہوئے ہے  ۔ آج کے صوفی واصف علی واصف کہا کرتے تھے کہ یہ اللہ والوں ہی کا خاصہ   ہے کہ انکے دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد بھی انکے آستانے سدا آباد رہتے ہیں۔ صوفی صفتِ صبورِ قلب سے آراستہ  ہوتا   ہے   تبھی وہ پسِ پردہ عالمِ تجلیات کے انوار سے مسرور و منور دِکھتا ہے ۔

اپنے من میں دیکھا پل کو

Advertisements
julia rana solicitors london

من اندر سے صوفی تھا۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply