حق سچ, بت پرستی اور عذاب الہی۔۔۔ بلال شوکت آزاد

“جیے بھٹو”, “اک واری فیر شیر”, “25 لاکھ علماء کا وارث”, “انتہا درجے کی بوٹ پالشی”, “لارڈ میکاولی مطالعہ پاکستان عرف مغالطہ پاکستان پر قرآن و حدیث سے بڑھ کر ایمان” اور “سانوں کیہہ   سے تہانو کیہہ ” وہ گھٹیا, سطحی اور نیچ نعرے, افعال اور افکار ہیں جن سے ہماری مجموعی اور عمومی ذہنیت اور دماغی استعداد کار کا انداز کرنا بالکل مشکل اور ناممکن نہیں۔

ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر منحصر لوگ ہیں جن کا انحصار ہمیشہ دوسروں پر رہا ہے, کبھی ہم میں سے کسی کو یہ خیال نہیں ستایا کہ میں بھی انسان ہوں اور اللہ نے مجھے بھی دماغ دیکر پیدا کیا ہے سو میں کیونکر مسلسل ایک سراخ سے بار بار ڈسا جاؤں؟۔۔

ایسی قومیں ترقی نہیں تنزلی کی منزلیں بہت جلد اور تیز رفتار ی سے طے کرتی ہیں۔

ہم اتنے پکے پیر مقلد اور مکلف ہیں اپنے بیچ موجود طاقتور افراد اور اداروں کے کہ ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں جس کا نہ کوئی سرا ہے نہ ہی حد۔خود سے تحقیق اور تفتیش کا نہ ہم میں یارا ہے اور نہ ہی کوئی خاص شوق کہ ہم جان پائیں کہ آخر ہم کن نظریات اور افکار کی پیروی میں تباہی کی طرف گامزن ہیں۔ہماری محبتوں کی طرح ہماری نفرتیں بھی سیانی ہیں کہ یہ پسندیدہ اور ناپسندیدہ کا فرق ہمارے کہے بنا کرلیتی ہیں۔پاکستان کو اللہ نے ہی سنبھالا ہوا ہے ورنہ ہم نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی خود اس کو تباہ کرنے کی۔

آج ہمیں قرضوں کی دلدل نظر آرہی ہے, ہمارا معاشی دیوالیہ نظرآرہا ہے, ہمارے موجودہ حکمرانوں کی نااہلیت اور بیوقوفی یا سیدھے لفظوں میں عوام دشمنی نظر آرہی ہے پر ہمیں پہلے خبر ہونے کے باوجود سابقہ کسی بھی حکمران خواہ وہ جمہوری تھا یا غیر جمہوری کی کوئی برائی بھی برائی نہیں لگی۔

ہم نے ہمیشہ لاڈلی اولاد کی طرح اپنے اپنے من پسند حکمرانوں کی لوٹ مار اور غلط فیصلوں کی حمایت ہی نہیں کی بلکہ ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر دفاع بھی کیا اور آج جب بھوکوں مرنے کی نوبت آگئی ہے تب بھی ہمارے اندر سے ان ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی محبت جانے کا نام نہیں لے رہی۔واللہ آج جب اپنے اردگرد نظر دوڑاتا ہوں تو سمجھ پاتا ہوں کہ جب جب اللہ نے بت پرستی اور شرک کا قلع قمع کرنے کو نبی معبوث کیے  تو انہیں شدید ردعمل اور تنقید کا سامنا کیوں کرنا پڑا اور کیونکر بت پرست امتوں کو بت پرستی گناہ نہیں لگی اور کیونکر وہ بت پرستی سے دستبردار نہیں ہوئے؟

ہمارے بیچ بھی بت پرستی نے جڑیں بہت گہری کرلی ہیں۔۔۔۔ہم نے شخصیات کے بت سجا لیے  ہیں, نظریات کے بت سجا لیے  ہیں, اداروں کے بت سجا لیے  ہیں, افکار کے بت سجا لیے ہیں, نظریات کے بت سجا لیے ہیں, ذاتیات کے بت سجا لیے ہیں, آزادی نام کی دیوی کے بت سجا لیے ہیں, بغاوت کے بت سجا لیے ہیں, دولت کے بت سجا لیے ہیں, شہرت کے بت سجا لیے  ہیں, علم و عمل اور الفاظ کے بت سجا لیے ہیں, اور تو اور حق اور سچ کے بت بھی سجا لیے ہیں, غرض ہر وہ چیز, انسان, واقعہ, جگہ اور نظریہ ہماری بتوں کی لسٹ میں موجود ہے جس سے ہم متاثر ہوسکیں اور جن پر انحصار کرکے ہم زندہ رہنے کا بے ڈھنگا مقصد طے کرسکیں۔

بت پرستوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ انہیں ایک تو بتوں میں خدا اور ناخدا دونوں نظر آتے اور دوم انہیں کسی صورت اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ وہ بت پرست ہیں۔

آج ذرا ن لیگ , پیپلز پارٹی  اور  پی ٹی آئی والوں کا حال ملاحظہ کرلو, جمعیت , جماعت اسلامی  , فنڈا مینٹلز , لبرلز , ڈیموکریٹکس , سینٹرکس , صحافیوں, ایکٹیوسٹس, بوٹ پالشیوں , فرقہ بازوں, عصبیت والوں, ملحدوں سب  حال بھی ملاظہ کرلیجئے  , میں حق سچ کہتا اور لکھتا رہوں گا چاہے میری جان چلی جائے کہنے والوں کا حال ملاحظہ کرلو, فیمنسٹس کا حال ملاحظہ کرلو اور دانشوروں کا حال ملاحظہ کرلو۔

کون ہے ان مذکورہ اور وغیرہ وغیرہ میں جو کسی نا کسی بت کا پجاری اور اس بت کے مندر کا پروہت نہیں؟

اب جب ان میں کوئی اللہ کا بندہ کوئی اللہ کا ولی اٹھ کر احساس دلاتا ہے, پیغمرانہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے یہ بتا کر کہ تمہارا مسئلہ بھوک, مہنگائی اور بیروزگاری مطلب روٹی, کپڑا اور مکان نہیں بلکہ بت پرستی ہے جو تم میں وطن پرستی, شخصیت پرستی, نظریہ پرستی اور انجمن پرستی وغیرہ کی شکل میں موجود ہے تو اسے لٹھ لیکر سب مارنے پر تل جاتے ہیں اور جہاں تک زور چلتا ہے کردار کشی اور گالیوں کے تیرو تفنگ کے ساتھ اس پر ہروقت حملہ آور رہتے ہیں اور اسے وہی سب برداشت کرنے پر مجبور کرتے ہیں جو تمام انبیاء علیہ السلام کو ان کی امتوں کی جانب سے ملنے پر دیکھنا سننا اور برداشت کرنا پڑا تھا۔

یہ جو سب افرا تفری اور تباہی و پریشانی کے ساز بج رہے ہمارے گردو نواح میں انہیں اب برداشت کرو کہ پوجا کا لازمی جزو ہے بے ہنگھم اور سر درد  والی موسیقی۔حق اور سچ کا صرف ایک ہی معیار ہوتا ہے اور وہ ہے خالص پن اور مضبوط دلائل, لہذا اپنے ذاتی معیارات سے دستبرداری اختیار کرو اور بت پرستی چھوڑ کر حق کی طرف چلے آؤ۔

اذانِ حق ہر دور میں دی جاتی رہی ہے خواہ دور کوئی بھی ہو لہذا اپنے اپنے صنم کدے مسمار کرکے حق و سچ کے قبلے کی طرف منہ کرو اور حق و سچ کی پہچان یہی ہے کہ وہ تاثیر میں ٹھنڈے جبکہ ذائقے میں شدید کڑوے ہوتا  ہے۔جی ہاں جن جن بتوں کی ہم پوجا کررہے  ہیں ان کی بدولت ہم بت پرست ہی ہوئے کہ یہ بت بھی ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتے اور خود کو کسی نقصان سے بچا نہیں سکتے لہذا ان کی پوجا سوائے ہمارے ایمان کو دیمک کی طرح چاٹنے کے   اور کچھ نہیں کررہی۔

آئیے سوچنا اور تحقیق کرنا شروع کیجیئے اور کڑوے سے کڑوے سچ کا سامنا کرنے کی ہمت کیجیے تاکہ ہم پر نادیدہ بتوں کی پوجا کی بدولت جو نادیدہ و دیدہ عذاب مسلط ہیں ان سے چھٹکارہ مل سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوچیے گا ضرور۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply