اہل دل کو احوال بشر کہنا تو ہے۔۔۔۔طیبہ ژویک

مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اپنے جیسی دوستوں میں انجوائے کرنے کی بجائے مسلسل اپنی دوست کی آنٹی کے انتظار میں کیوں ہے.۔۔آخرکار آنٹی محترمہ بائیک پر تشریف لائیں اور ان کے والہانہ مگر ذرا عجیب ملنے کے انداز نے میرے خدشے کی تصدیق کر دی۔ یہ بالکل میری بہنا کی کلاس فیلوز اور ان جیسے کئی بچے اور بچیاں جن کو  ذاتی طور پر  جانتی ہوں والا مسئلہ جو ابھی ہمارے معاشرے میں کُھل کر ڈسکس نہیں ہوا میری مراد ہم جنس پرستی سے ہے۔

ارسطو نے کہا تھا انسان معاشرتی حیوان ہے۔ ۔انسان ماحول سے کٹ کر صرف کسی جنگل میں ہی زندگی گزار سکتا ہے۔ ۔
ہم ایسے وقت میں جی رہے ہیں جس میں انٹرنیٹ بچوں تک کی پہنچ میں ہے۔ ۔اور ہر قسم کی  پابندیوں سے آزاد ہے ۔ ذہنی طور پر ہر فرد کی ہر فرد تک رسائی ہے اور دوسری طرف اسلامائزیشن ,ثقافت,غیرت وغیرہ کے نام پر افراد کے میل جول,  مخلوط تعلیم  اور دیگر صحت مندانہ سرگرمیوں پر (جو کسی بھی معاشرے کے ارتقاء کے لیے ضروری ہے) پابندی در پابندی لگا کر محدود کرنے کا سلسلہ جاری ہے اس دو انتہاؤں میں نئی نسل کیسے پِس رہی ہے اس کا ادراک نہ گھر والوں کو ہے نہ مبلغین کو۔ ۔ ۔ بچیوں کو سات پردوں میں سنبھال  کر اور بچوں پر کتابوں کا بوجھ لاد کر سمجھتے ہیں ہم نے تربیت کر لی۔ ۔ ہم نے خدا کو راضی کر لیا۔۔

شاید والدین نہیں جانتے وہ بچوں کو گھر سے باہر کے ماحول سے بچا کر فطرت سے انحراف کر کے اپنے تئیں محفوظ کرنے کی بجائے انہیں Homosexuality اور auto eroticism جیسی بیماریوں پر آمادہ کر رہے ہیں۔ویسے زیادہ تر والدین کو اپنی اولاد کا پتہ ہوتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات اِردگرد کے لوگ بھی جانتے ہیں۔۔ پر ہمارے عمومی رویے, شکر ہے ہمارا مسئلہ نہیں , جن کی ذمہ داری۔۔وہ جانیں اور بچہ ہے ، سر پر ذمہ داری پڑے گی تو ٹھیک ہو جائے گا, ابھی ہنسنے کھیلنے کے دن ہیں, ابھی چھپ کر   کر رہا ہے تو لحاظ باقی ہے۔ پوچھا تو پھر کُھل کر کرے گا۔۔۔ وغیرہ جیسی تسلیوں سے خود کو بہلا لیتے ہیں۔ ظاہری بات ہے، بچہ حالات سے سیکھ ہی لیتا ہے، پر اس کا زندگی بھر کیا تاوان ادا کرتا ہے اس کا علم معاشرے اور والدین کو کبھی ہو ہی نہیں پاتا۔ یہاں عجیب بات یہ ہے کہ ایسے معاملات یا نفسیاتی عارضوں کو تفریحی طور پر بیان کرنے میں کوئی عار نہیں پر مریض سے ڈسکس کرنا یا سمجھانا ممنوع ہے کیونکہ ہمارے مطابق یہ “بےحیا موضوع ” ہے اور اس کی اسلام میں قطعاً گنجائش نہیں نکلتی۔

ہمارے ناصح لیکچرز بہت خوبصورت دیتے ہیں زندگی کے لگے بندھے اصول دہرانے اور قرآن کے مطابق زندگی گزارنے کا درس دیتے ہیں پر وہ یہ نہیں بتاتے کہ نامساعد حالات میں جب ایک ایسی لڑکی یا خاتون باہر نکلے جس نے کبھی مردوں کو فیس ہی نہ کیا ہو وہ کیسے حالات کا مقابلہ کرے؟

ایک جوان ہوتی بچی یا بچہ ان نیچرل ایموشنز  سے کیسے بچے جو بہشتی زیور، انٹرنیٹ یا بذات خود عمر کا تقاضا ہوتے ہیں۔ اور وہ بھی اس صورت میں جب آپ ان پر اپنی مرضی کا ظاہری اسلام اور کم ضروری احکامات کو ترجیحی طور پر تو مسلط کر دیتے ہوں۔ اور اسلام کی اصل روح کے بارے میں آشنائی نہ رکھتے ہوں نہ دیتے ہوں۔
یاد رکھیں صرف سات پردوں میں چُھپا کر بڑا کر لینا ہی کارنامہ نہیں ہے۔
آنے والے حالات کے مطابق بچوں کو تیار کرنے کا نام ہی زندگی ہے۔ ۔

تاکہ کل جب آپ ان کے ساتھ نہ رہیں تو آپ کے بچے چور راستوں , , Belligerency,Homosexuality, raping , drugging autoerotic چھپے منفی رشتے بنانے وغیرہ جیسے منفی رویوں اور کاموں سے جذبات کی تسکین کرنے کی بجائے اچھائی اور برائی، غلط اور درست راستے کا انتخاب اور فیصلے کرنے کے قابل ہوں۔ ۔اور صرف معاشرے کے سامنے نہیں خود اپنے ضمیر کے سامنے بھی سرخرو اور آسودہ ذہن ہوں..

(اس پوری بحث میں اسلام یا اسلامی قوانین کی تضحیک قطعاً مقصود نہیں ہے۔بلکہ قرآنی قول کے مطابق “مفہوم: تم اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ” کے برعکس اپنی من پسند طبیعت میں ڈھال کر بچوں پر جبراً نافذ کرنے اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں بات کی گئی ہے)۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:مضمون خالصتاً مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے،ادارے کا اس سے اتفاق ضروری نہیں !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply