• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • نوّے کی دہائی اوراس کے بعد کے کچھ نمایاں غزل گو (مختصرترین انتخابِ کلام کے ساتھ)۔۔۔۔۔۔ رحمان حفیظ

نوّے کی دہائی اوراس کے بعد کے کچھ نمایاں غزل گو (مختصرترین انتخابِ کلام کے ساتھ)۔۔۔۔۔۔ رحمان حفیظ

دانیال نئی نسل کے ان چند شعرا میں شامل ہیں جنہوں نے غزل کو اپنی تنقیدی صلاحیتوں کی تجربہ گاہ بنایا اور قاری کو متاثر بھی کیا۔ دانیال کے ہاں مروّج غزل کے تمام ترعناصر موجُود ہو نے کے ساتھ ایک نیم واضح فکری تحریک کے آثاربھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ حقیقتاًدانیال نے غزل کو اس کے روایتی خدّو خال سے ہٹ کر دیکھا اور اسے نئی طرح محسوس کیا، یوں اس کی غزل میں ایک محتاط قسم کی جدّتِ اظہار در آئی جس میں بظاہر کسی قسم کی بغاوت کے آثار بھی نہیں دکھائی دیتے کیونکہ اس کے لئے دانیال نے اصول اور سانچے نہیں توڑے، بلکہ محض اسلوب تراشنے کی کوشش کی ۔کچھ موضوعات کو بنیادی اہمیت دی اور کچھ پٹے ہوئے روایتی موضوعات کی مکمل بیخ کنی کی۔ یوں وہ ایسی غزل کہنے میں کامیاب رہا جو قدرے مخصوص مگر عمومی ڈگرسے مختلف باطنی و خارجی عوامل کی مظہر ہے۔

یہ غزل نسبتاً تازہ تر ہے او ر سمت نمائی کی خصوصیات کی حامل بھی۔ اس کے کلام میں بیانیہ اور دبنگ انداز کے حامل اشعار کی تعداد بہت کم ہے۔ زیادہ تر اشعار پڑھنے والے کوکسی مخصوص فکری جہت کی جانب سفر کرواتے ہیں ۔ ان جہات میں کچھ کا تعلق ہماری داخلی دنیا سے ہے اور کچھ کا خارجی مظاہر سے۔ لیکن سب کلام کا مقصودایک ہی اور وہ ہے عرفانِ کائنات۔ کائنات جس کے کسی ایٹم کا ایک نیوکلیس خود دانیال طریر بھی ہے۔

دانیال طریر،مرحوم

دانیال کے چند منتخب اشعار ملاحظہ کیجئے ۔۔۔

پیڑ پر اک گھونسلہ اور گھونسلے میں مامتا
یہ زمان کی قید میں اک لا زمانی حمد ہے

عجیب لمحے تھےجب میں سمے سے باہر تھا
خموشی ایسی تھی جس نے صدا کو جسم دیا
طریر ذہن نے کی بارہا نفی لیکن
مرے خیال نے اکثر خدا کو جسم دیا

پہلی بارش ہو رہی تھی آخری کہسار پر
اور صحیفے کے مطابق آگ میرے گھر میں تھی

رکھنے سے ڈر رہا ہوں اسے آگ کے قریب
رستے میں ایک سانپ ملا ہے جما ہوا

خاموشی کی قرات کرنے والے لوگ
ابّو جی اور سارے مرنے والے لوگ

بدن میں پھیلتے سرطان اور قران کے ساتھ
میں کتنے روز جیا ، تجربہ تو یہ بھی ہے

مرے بدن کی ضیا بڑھ گئی تھی سورج سے
لہو میں  رات ملانی پڑی ہے آخرِ کار

تجھ تک پہنچنے میں مجھے صدیاں لگیں مگر
میری نہیں تھی یہ تو زمانے کی دیر تھی

یہ زمینوں پہ لہکتی ہوئی گندم کی مہک
آسمانوں کی طرف دار نہیں ہو سکتی

جسم اور اسم مجھے کیسے ملے کس نے دئیے
ان سوالات کی حیرانی سے آغاز کیا

کیا کیا نہ میں مشکیزہء الفاظ میں بھر لوں
اک بار اگر موجِ معانی نظر آئے

شجر نہیں تھا وہ گوتم کھڑا تھا رستے میں
اوراس کا سایہ سوالات کا بنا ہوا تھا

Advertisements
julia rana solicitors

اژدھے بننے لگے پیڑ ،پرندوں کے لیے
شہر پُر خوف میں اب اس سے برا کیا ہوتا!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply